ابلیس بنو گے یا نصوح؟

لیں جناب، یہ عقدہ تو کھل گیا کہ جو عندلیب عباس، یاسمین راشد کے ساتھ لاہور کے کور کمانڈر ہاؤس پرحملہ کی قیادت کرنے والی گاڑی میں بیٹھی ہوئی تھی وہ جیل میں کیوں نہیں اور یاسمین راشد دس، دس برس کی سزائیں کیوں پا رہی ہے۔ معاملہ صرف اتنا ہے کہ جو سچے دل سے معافی مانگے گا چاہے وہ فیاض چوہان بنے نہ بنے، صرف فواد چوہدری یا شیخ رشید ہی بن جائے، وہ رہائی پاتا جائے گا۔
میرے پاس یقینی طور پر کسی بڑے فوجی افسر کے منہ سے نکلی ہوئی یہ خبر ہرگز نہیں تھی مگر بطور سیاسی تجزیہ نگار میں نے پاک فوج کے سربراہ کی جتنی بھی تقریریں اور ترجمان کی جتنی بھی پریس کانفرنسیں پڑھیں، سنیں، میرا حاصل مطالعہ یہی تھا اور یہی وجہ ہے کہ میں طویل عرصے سے ٹی وی چینلز پر یہی تجزیہ کر رہا، یہی دلیل دے رہا ہوں۔ میں اس سے ہٹ کر ایک اور بات کہتا ہوں کہ تحریک انصاف کو خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اس نے ایک محب وطن، پروفیشنل اور خوف خدا رکھنے والے فوجی سے متھا لگایا ہے ورنہ اپنے منہ میاں مٹھو بننے والے ٹکرکے لوگوں کا متھا ہی نہ رہتا، جو کام تحریک انصاف نے دکھایا ہے اس سے بہت ہی چھوٹے کاموں پر یہاں مارشل لا لگ جایا کرتے تھے۔
اب آپ پوچھیں گے کہ تحریک انصاف نے ایسا کون سا کام کر دکھایا ہے جو پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون نے نہیں کیا تو آپ مجھ سے متفق ہوں یا نہ ہوں مگر میں پوری ایمانداری سے کنوینس ہوں کہ پی ٹی آئی نے فوج کے ساتھ جو کچھ کیا ہے اس کا عشر عشیر بھی کسی دوسری جماعت نے نہیں کیا یعنی نو مئی۔
یہ درست ہے کہ پیپلزپارٹی نے الذوالفقار بنائی اور یہ بھی درست ہے کہ آدھے سے زیادہ سندھ جلا دیا گیا مگر اس سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تھی اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔ یہ بھی درست ہے کہ نواز شریف نے فوج کو خلا ئی مخلوق کہا اور گوجرانوالہ کے جلسے میں آئین شکنوں کے نام بھی لئے مگرعمران خان کے ساتھ کیا ہوا تھا، صرف ایک گرفتاری جو ہماری سیاست اور تاریخ میں وزیراعظموں کے ساتھ ہونے والا ایک معمولی کام ہے۔
میں نے جتنے بھی باخبر لوگوں سے نو مئی کے ظاہری اور باطنی واقعات کی تفصیل سنی ہے اس کے مطابق یہ محض مظاہرے نہیں تھے بلکہ واقفان حال کہتے ہیں کہ یہ فوج میں بغاوت کی مربوط سازش تھی۔ کوشش تھی کم از کم لاہور اور پشاور کے ساتھ ایک آدھ اور کور کمانڈر ہاوس، جی ایچ کیو میں پاکستان تحریک انصاف کے کارکن گھس کے اپنے قبضے کا اعلان کر دیں۔ وہاں سے ایک نئے آرمی چیف کا اعلان ہو اور وہ آرمی چیف عمران خان کی رہائی اور واپسی کا اعلان کر دے۔ اس کے بعد وہ کلٹ اپنے سیاسی مخالفین کے گھروں پر حملے کر دے اور عین ممکن ہے کہ اختلاف کرنے والوں کی اکثریت کو گھروں میں گھس کے قتل۔
یہ عمران خان کی خود پسندی کی انتہا تھی، وہ سمجھ رہا تھا لاکھوں لوگ اس کے لئے نکل آئیں گے اور ایک انقلاب برپا ہو جائے گا۔ سیاسی اور تاریخی ماہرین سے پوچھیں، انقلاب کی ہر وہ کوشش جو ناکام ہوجائے وہ بغاوت کہلاتی ہے اور ناکام بغاوت کے بعد گردنیں ماری اور سر اتارے جاتے ہیں۔ پھر کہوں گا کہ پی ٹی آئی خدا کا شکر ادا کرے کہ اس نے ایک محب وطن، پروفیشنل اور خوف خدا رکھنے والے سپہ سالار سے متھا لگایا ہے جس نے آئین کو برقرار رکھا اور کہا کہ وہ بدلہ لینے کی بجائے عدالتوں سے انصاف لے گا اور ابھی تک اسی آئینی، اصولی اور اخلاقی موقف پر کھڑا ہے۔
نو مئی ماضی میں سیاسی جماعتوں اور فوج میں ہونے والے اختلافات سے بہت مختلف تھا۔ یہ ایک طرح سے بھارت کے فوجی حملے سے بھی زیادہ شدید تھا۔ انڈین ٹی وی چینلوں نے اسے اسی طرح رپورٹ کیا جس طرح وہ بھارت کی فوج کے پاکستان کے جی ایچ کیو پر حملے پر رپورٹ کر سکتے تھے یعنی انتہائی زہریلے انداز میں۔ میں جب یہ دیکھتا ہوں کہ پاک فوج کا سربراہ پی ٹی آئی والوں کو پیشکش کرتا ہے کہ سچے دل سے معافی مانگ لی جائے تو سیاسی مصالحت کا راستہ نکل سکتا ہے تو مجھے یہ تاریخ کی روایات سے ہٹ کے کچھ انوکھا لگتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ابھینندن کو چائے پلا کے واپس بھیج دیا جائے یا اس سے بھی شدید۔
میں نے کہا، اس سے پہلے صرف آرمی چیف کو تبدیل کرنے کی آئینی کوشش ہوتی تھی تو مارشل لا لگ جایا کرتے تھے اور یہاں اس کے لئے باقاعدہ لانگ مارچ ہوئے، حملے کئے گئے، شہدا کی یادگاریں توڑی گئی تھیں، کورکمانڈروں کی پتلونیں لہرائی گئی تھیں اورا س کے بعد ناکام انقلاب کے قائد نے کہا تھا کہ اگر اس کے ساتھ دوبارہ ایسا ہوا توفوج کے ساتھ بھی دوبارہ ایسا ہی ہوگا کیونکہ اس کے ساتھ گُڈ ٹو سی یُو، والے جج تھے جو اس کا رات گئے تک بیٹھ کے انتظار کرتے تھے، ایک ملزم کے لئے ججز گیٹ کھولنے والے، قیمتی گاڑیوں میں اپنے پاس بلانے والے، اسے ریسٹ ہاوس میں ٹھہرانے والے مگر فوج نے صبر اور تحمل کے ساتھ وہ تمام وقت گزار لیا، وہ بھی جو بانی پی ٹی آئی نے نو مئی سے پانچ اگست کے دوران گزارا اور وہ بھی جو بیرون ملک اور سوشل میڈیا پر طوفان بدتمیزی برپا کئے گئے اور حالات یہاں تک پہنچے کہ بائیس اپریل سے دس مئی تک بھارت کے ساتھ معرکہ حق میں پی ٹی آئی کے ٹرولز نے پاکستان کی فوج، حکومت اور عوام کے ساتھ سیاسی اور میڈیائی جنگ بھارت کے ساتھ مل کے لڑی۔
عمران خان نے خود سے محبت کرنے والے نادان سیاسی کارکنوں کی زندگیوں کو جس طرح جہنم بنا دیا ہے اس سے اس کی کوتاہ نظری اور عاقبت نااندیشی ظاہر ہوتی ہے۔ سیاستدان کاکام ہی یہ ہے کہ وہ دیوار سے راستہ نکالے نہ کہ کھلے دروازوں کو بند کردے۔ پھر کہوں گا کہ عمران خان اوراس کے کلٹ کو خدا کا شکر ادا کرنا چاہےے کہ اس نے ایک پروفیشنل، محب وطن اور خوف خدا رکھنے والے فوجی سے متھا لگایا ہے ورنہ اب تک ان کی کہانی ختم ہوچکی ہوتی۔
جب پاک فوج کے سربراہ تخلیق آدم کے وقت ابلیس کے اکڑ جانے کی مثال دیتے ہیں تواس کے ساتھ فتح مکہ کی مثال بھی موجود ہے جب اللہ کے نبی ﷺ اہل ایمان کے لشکرکے ساتھ اپنے وطن مکہ واپس لوٹے تو انہوں نے سب کو معاف کر دیا، ان کو بھی جنہوں نے ان کے پیارے چچا کو قتل کروا کے کلیجہ نکال کے چبا لیا تھا، معافی کی ایسی پیشکش سچا عاشق رسول ہی کر سکتا ہے سو اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان ابلیس کی طرح ڈٹا رہتا ہے یا مولانا شبلی نعمانی سمیت دیگر کے تحریر کردہ اصلاحی ادب کے معروف کردار نصوح کی طرح توبہ کرتا ہے جس سے توبة النصوح کی اصطلاح معروف ہوئی یعنی سچے دل سے کی جانے والی حقیقی توبہ۔

