Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Najam Wali Khan
  3. Hukumrano Ki Himayat Kyun?

Hukumrano Ki Himayat Kyun?

حکمرانوں کی حمایت کیوں؟

میں نے اس پر بہت بار سوچا ہے، خود ہی مدعی، خود ہی ملزم بھی بنا ہوں کہ کیا ہمیں حکمرانوں کی حمایت کرنی چاہئے۔ ہم اپنی سوشل میڈیا پروفائلز پر دھڑلے سے رائے دیتے ہیں مگر صحافت میں توغیر جانبداری کو بنیادی خصوصیت اور شرط کہا جاتا ہے تو کیا ایک حکومت، پارٹی یا سیاستدان کی تعریف کرنا اوردوسرے پر تنقید کرنا صحافت کہلا سکتا ہے۔ میری فیس بک یا ایکس پروفائلز پر کئی لوگ کہتے ہیں کہ کیا یہ ایک صحافی کی پروفائل ہے تو اس پر بحث ضروری ہے۔

سب سے پہلے ہمیں صحافت میں غیر جانبداری کو سمجھنا ہوگا۔ صحافت میں غیر جانبداری یہ ہرگز نہیں ہے کہ آپ کسی اچھے کام کی تعریف اور برے کام پر تنقید کرنے سے رُکیں بلکہ غیر جانبداری ہی یہ ہے کہ آپ تعریف اور تنقید پوری دیانتداری اور پوری طاقت سے کریں۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ایک دکاندار اور ریڑھی والے کی بھی رائے ہوتی ہے تو پھر ایک صحافی کی رائے کیوں نہیں ہوگی جب وہ انہی دکانداروں کی نسبت فرسٹ ہینڈ انفارمیشن کے زیادہ قریب ہے، اپنے علم، تجربے اور مقام سے کسی ریڑھی والے کی نسبت بہتر تجزیہ کر سکتا ہے، بہتر رائے دے سکتا ہے مگر اس کی رائے جامد نہیں ہونی چاہئے، اسے اپنی پسندیدہ حکومتوں، پارٹیوں اور سیاستدانوں سے بھی سوال کرنے چاہئیں۔ میرٹ اور ڈی میرٹ کا پوچھنا چاہئے۔

دوسرے جب ہم سوشل میڈیا پروفائلز کی بات کرتے ہیں تو اس امر کو ملحوظ رکھنا ہوگا کہ کسی بھی فرد کی پروفائل کسی بھی طور پر کسی میڈیا ہاوس کا نعم البدل نہیں ہوتی۔ اگر کسی نے کسی خبر کا پیچھا کرنا ہے تو وہ میڈیا ہاوسز کے پیجز کو فالو اور لائیک کر سکتا ہے مگر کسی فرد کی پروفائل اس کی ذاتی آرا اور پسند و ناپسند سے ہی مزین ہوگی۔ اس ٹیکنیکل بحث میں یہ بتانا بھی اہم ہے کہ غیر جانبداری صرف اور صرف خبر میں ہوتی ہے، کسی آرٹیکل، کالم یا پروگرام میں آپ غیر جانبدار نہیں ہو سکتے، وہاں آپ رائے ہی دیتے ہیں جو کسی کے حق میں اور کسی کی مخالفت میں ہوتی ہے۔

اسی کا دوسرا تکنیکی پہلو یہ ہے کہ خبر میں یہ غیر جانبداری یہ ہرگز نہیں کہ ایک بندہ جھوٹ بولے، کہے کہ دس جمع دس سو ہوتے ہیں تو آپ کا فرض ہے کہ آپ بتائیں کہ ریاضی کے قواعد اور ماہرین کے مطابق دس جمع دس سو نہیں ہوتے، یہ بیس ہوتے ہیں۔ صحافت میں غیر جانبداری کے نام پر جھوٹ اور فریب کا تحفظ از خود ایک جرم ہے۔ اسی میں ایک آخری دلیل بھی لے لیجئے کہ ایک بڑا اور اچھا صحافی ہمیشہ نظریاتی ہوتا ہے۔ وہ اپنے وطن اور لوگوں کے ساتھ مخلص ہوتا ہے۔ ہمیں صحافت میں مولانا ظفر علی خان، شورش کاشمیری اور حمید نظامی کی صحافت ایک مثالی صحافت کے طور پر پڑھائی جاتی ہے اور وہ ہرگز غیر جانبدار، نہیں تھے بلکہ وہ اپنی قوم اور نظریے کے ساتھ سو فیصد جانبدار تھے۔

اب سوال ہوگا کہ پاک فوج اور مسلم لیگ کی حمایت کیوں تو اس کا جواب بھی سیدھا سادا ہے کہ اگر ہم اپنی فوج کی حمایت نہیں کریں گے تو فوج کے مقابلے میں دوسری فوج ہی ہوتی ہے، کیا ہم دوسری فوج کی حمایت کریں گے۔ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا ہے کہ جن لوگوں نے معرکہ حق میں اپنی فوج کا ساتھ نہیں دیا انہوں نے بے شرمی کے ساتھ دشمن کی زبان بولی چاہے اس میں آپ فوج کے بھگوڑے عادل راجا کو لے لیں یا آفتاب اقبال سمیت اس پورے گروہ کو جس نے اس وقت فکری مغالطے پیدا کر رکھے ہیں۔ وہ آزادی اظہار کو مادر پدر آزادی کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ ایسی آزادی تو امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا جیسے ممالک میں بھی نہیں ہے جسے وہ آزادی کہتے ہیں وہ حقیقت میں غداری ہے۔

نو مئی کو اپنی ہی فوج کے ہیڈکوارٹرز، کورکمانڈر ہاوس اور شہدا کی یادگاروں پر حملے کرنے والے غلط پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ فوج ان کے لیڈر کے خلاف ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ کئی جرنیلوں جیسے شجاع پاشا، ظہیرالاسلام، فیض حمید وغیرہ نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے بانی پی ٹی آئی کو مقبولیت اور اقتدار کی سیڑھیاں چڑھائیں اور جب فوج نے یہ فیصلہ کیا کہ اب وہ اس نااہل شخص کے مفادات کے تحفظ کے لیے اپنی چھتری اور ڈنڈے کا استعمال نہیں کرے گی تو اس کے ساتھ ہی زبردستی اتحادی بنائی گئی جماعتیں ایسے نکل کے بھاگیں جیسے کوئی بیل رسی تڑوا کے بھاگتا ہے۔ فوج کی حمایت کے خاتمے نے ایک غیر حقیقی اور غیر جمہوری حکومت کا خاتمہ کر دیا اور اس کا کریڈٹ کسی حد تک جنرل قمر جاوید باجوہ کو بھی جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے ادارے کی غلطی کی اصلاح کی اور اسے سیدھے راستے پر ڈال دیا۔

بنیادی طور پر یہ کالم لکھنے کا خیال مجھے وزیراعظم شہباز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی ملک و قوم کے لیے محنت اور خدمت کو دیکھ کر آیا۔ وزیراعظم شہباز شریف کو کریڈٹ دیا جانا چاہیے کہ انہوں نے ملک کو ایک یقینی ڈیفالٹ سے بچایا اور اب ملکی معیشت کی بہتری کے لیے جو تاریخ ساز کارنامے سرانجام دے رہے ہیں کوئی غیر جانبدار اور محب وطن صحافی ان سے انکار نہیں کر سکتا اور دوسری طرف مریم نواز ہیں جنہوں نے نہ صرف غریبوں کے لیے ریکارڈ منصوبوں کا آغاز کیا ہے جس میں ہونہار سکالر شپ بھی ہیں، گھروں پر ادویات کی مفت فراہمی بھی ہے، روڈ انفراسٹرکچر بھی ہے اور پبلک ٹرانسپورٹ بھی۔

الحمد للہ پنجاب پہلی میٹرو بس، میٹرو ٹرین کے بعد پہلی اربن الیکٹرک ٹرام والا صوبہ بھی بننے جا رہا ہے۔ متعصب لوگ کہتے ہیں کہ یہ لاہور میں کیوں چل رہی ہے تو اس کا جواب ہے کہ دنیا بھر میں ہمیشہ پہلا میگا پراجیکٹ میٹروپولیٹن سٹی میں ہی آتا ہے جس کی آبادی ایک کروڑ سے زائد ہو۔ دوسرے کیا میٹرو بسیں لاہور کے بعد ملتان اور پنڈی، اسلام آباد نہیں گئیں۔ کیا فیصل آباد اور گوجرانوالہ میں میگا پراجیکٹس نہیں آئے۔

کیا سٹیل کا ایشیا کا سب سے بڑا پُل ڈیرہ غازی خان کے پاس نہیں ہے اور کیا گوجرانوالہ کے پنڈی بائی پاس پر سب سے بڑا فلائی اوور۔ بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ اگر ملکی تاریخ سے شریف فیملی کے ڈویلپمنٹ پراجیکٹس نکال دئیے جائیں تو پھر باقی مغلوں کے قلعے اور باغ ہی بچتے ہیں۔ مجھے تو یہ کہنے میں بھی عار نہیں کہ میاں نواز شریف نے شیر شاہ سوری کی جی ٹی روڈ کے بعد برصغیر کو موٹرویز کی صورت سب سے زیادہ سڑکوں کی تعمیر کا تحفہ دیا ہے اور سڑکیں کسی بھی ملک کے جسم میں خون کی رگوں کی طرح ہوتی ہیں۔

مجھے یہ فتویٰ دینے میں عارنہیں کہ جو صحافی ملک میں تعمیر و ترقی اور عوامی فلاح کی حمایت نہیں کرتا وہ دراصل کرپٹ ہے اور جو کسی نااہل اور کرپٹ گروہ کا دفاع کرتا ہے وہ محب وطن ہی نہیں ہے، وہ اچھائی کی بجائے برائی کی طرف جانبدار ہے۔ جو پاکستان کے مقابلے بھارت کی فوج کی حمایت کرتا ہے وہ فکری طور پر بددیانت، مفاد پرست اور غدار بھی ہے۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan