جنرل سید عاصم منیر کا ویژن (2)
خانیوال کے قریب پیرووالہ کے ماڈل زرعی فارم میں پاک فوج کے سپہ سالار جنرل سید عاصم منیر کی تقریر قومی زبان اردو میں تھی۔ وہ حافظ قرآن ہیں اور ان کی گفتگو اپنے ہر دوسرے لمحے میں قرآن پاک کی آیات اور علامہ اقبال کے اشعار سے مزین رہی۔ میں شروع میں ہی انکشاف کر دوں کہ پاک فوج کے سربراہ نے ملک کی اقتصادی بحالی کے لئے ایگریکلچر، آئی ٹی اور مائینز اینڈ منرلزسمیت پانچ شعبوں میں کام کرنے کا اعلان کیا۔
یہ میرے اس تاثر کی تصدیق کی تھی جو میں نے اپنی تحریر کے پہلے حصے میں بیان کیا تھا کہ پاک فوج اب ملک کی اقتصادی بحالی کے لئے سرگرم عمل ہوچکی ہے۔ انہوں نے ایک مرتبہ پھر ساٹھ کی دہائی کے انقلاب کا ذکر کیا۔ یہی وہ دور تھا جب پاکستان میں انڈسٹریلائزیشن اپنے عروج پر تھی اور پاکستان میں بڑے ڈیم بنانے والا بڑا کام سرانجام دیا جا رہا تھا۔ وہ اس دور کے سبز انقلاب کی بات کر رہے تھے جس کا اب احیا ہونے جا رہا ہے۔ ان کی تقریر کے آغا ز میں ہی وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ کی پیش کردہ اس فلسفے کی نفی تھی جو ہمیشہ سے فوج اور عوام میں دوری اور تفریق کے لئے بیان کیا جاتا ہے۔
طارق بشیر چیمہ ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں مگر میرے خیال میں وہ اپنی تقریر میں دو سے تین غلطیاں کر گئے، سب سے اہم، میرے خیال میں انہیں چولستان میں باڑ کے اِس پار اور اُس پار کی بات نہیں کرنی چاہئے تھی جب وہ خود کو چولستان کا رہائشی اور بیٹا کہہ رہے تھے۔ جب وہ پنجاب کے بعد وفاق میں بھی وزیر رہے تو انہیں وہاں اپنے علاقے کے لئے کام کرنا چاہئے تھا۔ انہوں نے پاک فوج کے قائم کئے ہوئے کارپوریٹ فارمنگ کے اس ماڈل کوعام کسان سے الگ کرکے دیکھا جس کا جواب جنرل عاصم منیر نے اپنی تقریر میں سب سے پہلے دیا۔ انہوں نے کہا کہ اب یہ میرا، تیرا ختم ہونا چاہئے، اب یہ ہمارا پاکستان ہے۔ انہوں نے تشریح کی کہ ماڈل فارم میں استعمال ہونے والی تمام تر جدید مشینری اور ٹیکنالوجی عام کسان کو فراہم کی جائے گی تاکہ وہ فائدہ اٹھاسکے۔
آرمی چیف نے وفاقی وزیر اس حیرانی کا بھی نوٹس لیا جس میں انہوں نے کہا کہ پاک فوج نے چھ ماہ میں پانچ ہزار ایکڑ پر فارم قائم کرکے کمال کر دیا ہے اور جواب دیا کہ وہ دس لاکھ ایکڑ پر بھی قائم کرکے دکھائیں گے اور ہم جانتے ہیں کہ ہماری فوج جو کرنے کا سوچ لیتی ہے وہ کرکے دکھا دیتی ہے۔ اگر ہم درست یا غلط سوچ کے تحت دنیا کی سپر پاورز کو ناکوں چنے چبا سکتے ہیں تو ایک نئے ویژن اور ایک نئے عمل کے ساتھ خود ایک سپر پاور کیوں نہیں بن سکتے۔
مجھے جنرل سید عاصم منیر کی پوری تقریر میں ایک پختہ یقین نظر آیا۔ ا نہوں نے پھر وفاقی وزیر کی تقریر کا ہی حوالہ دیا جس میں انہوں نے کامیابی کا کریڈٹ لینے اور ناکامی کے ڈس کریڈٹ سے بھاگنے کی بات کی تھی۔ آرمی چیف نے ناکامی کے امکان کو ہی مسترد کر دیا اور کہا کہ ہم صرف کامیابی کے لئے کام کرتے ہیں۔
مجھے اس موقعے پر بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کا ایک قول یاد آ گیا۔ انہوں نے فرمایا تھا کہ میں سوچ سمجھ کے فیصلہ کرتا ہوں، میں غلط فیصلہ نہیں کرتا اور اگر کوئی فیصلہ غلط ہونے لگے تو اسے ٹھیک کردیتا ہوں اور یہ بات کوئی پختہ عزم، جواں حوصلے اور شاندار عمل کا حامل ہی کہہ سکتا ہے۔
جنرل سید عاصم منیر کا اپنے رب پرحیران کن حد تک یقین دیکھا۔ انہوں نے کہا کہ قرآن پاک کی آیت مبارکہ تلاوت کی، و ان لیس للانسان الا ماسعیٰ، اور پھر وہ آیت بھی جس پر علامہ اقبال نے شعر بھی کہا کہ خدانے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی، نہ ہوجس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا۔ انہوں نے قرآن پاک کے حوالوں سے کہا کہ اللہ تعالیٰ کوشش کرنے والوں کو اجر عطا فرماتے ہیں لہٰذا اگر نیک نیتی سے کوشش کی جائے تو اللہ تعالیٰ کی مدد سے ناکامی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
انہوں نے فوج اور عوام کے الگ الگ ہونے کی تاثر کی مزید نفی کی اور علامہ اقبال کا یہ شعر پڑھا، افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر، ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ، اس کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ علامہ اقبال نے یہ ہرگز نہیں کہا کہ یہ جرنیلوں کے ہاتھ میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ قوم کی تقدیر بدلنے کے لئے قوم کے ہر فرد کو کام کرنا ہے چاہے وہ بیوروکریٹ ہے یا کسی بھی دوسرے شعبے سے۔ انہوں نے پنڈال کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ آپ سب اس قوم کی تقدیر کے مالک ہیں اور سب نے ہی مل کر کام کرنا ہے۔ یہ واقعی میں ایک نیا اور اچھوتا ویژن ہے ورنہ آج تک ہر کوئی اپنا کریڈٹ لینے اور دوسرے کا کریڈٹ چھیننے کے چکر میں ہی رہا ہے۔
مجھے وزیراعظم شہباز شریف کی کچھ روز پہلے کی ایک تقریر یاد آ رہی ہے جس میں انہوں نے زراعت کے حوالے سے انقلابی اقدامات کو پاک فوج کے سپہ سالار کا ویژن قرار دینے میں کوئی ہچکچاہٹ اور کوئی شرم محسوس نہیں کی تھی اور کہا تھا کہ زراعت کے حوالے سے انہیں راہ عمل آرمی چیف نے ہی دکھائی تھی۔ ہم سب یہی کہتے ہیں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور یہ بھی درست ہے کہ ہر حکومت کسی نہ کسی زرعی پیکج کا اعلان بھی کرتی ہے مگر کوئی کوشش ایسی جامع او رمربوط نہیں رہی، جیسی یہ ہے۔
سو، زراعت کی ترقی اس وقت آرمی چیف کا ویژن ہے۔ دس جولائی کو پاک فوج کے ہی بنائے ہوئے لینڈ انفارمیشن اینڈ مینجمنٹ سسٹم کے سینٹر آف ایکسیلنس کا افتتاح بھی ہو چکا ہے۔ زراعت کا کسی بھی معیشت میں کلیدی کردار ہوتا ہے۔ پاکستان دنیا کا سب سے بڑا آبپاشی کا نظام رکھتا ہے، ہم گندم، کپاس، گنا، آم، کھجور، نارنگی اور چاول کے سب سے بڑے پیدا کنندگان میں سے ہیں۔
پاکستان کی زراعت جی ڈی پی میں 23 فیصد حصہ ڈالتی ہے اور اپنی لیبر فورس کے تقریباً 37.4 فیصد کو روزگار فراہم کرتی ہے۔ بدقسمتی سے، اپنی قابل ذکر اور بڑھتی ہوئی زرعی پیداوار کے باوجود، ملک غذائی عدم تحفظ کے ساتھ جدوجہد کر رہا ہے۔ رپورٹس موجود ہیں کہ فصلوں اور زراعت کے شعبوں کی تباہی جاری رہی تومہنگائی بڑھے گی، مارکیٹ اور صنعتوں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
آج ہماری ماضی کی غفلت نے معاشی بحالی کو پاکستان کی بقا کا سوال بنا دیا ہے۔ تاریخ پر نظر دوڑائیں تو پاکستان کا پہلا سبز انقلاب ساٹھ کی دہائی کے وسط میں برپا ہوا تھا۔ جس میں نئی ٹیکنالوجی متعارف کروا کر اور زیادہ پیداوار دینے والی اقسام (HYV) کے بیجوں، کیمیائی کھادوں اور آبپاشی کے پانی کے بروقت استعمال سے غذائی اجناس کی پیداوار میں تین گنا اضافہ ممکن بنایا گیا۔ اس وقت پاکستان نے جنوبی ایشیائی ممالک کو پیچھے چھوڑتے ہوئے گندم کی پیداوار میں 79 فیصد اضافہ کرکے مقدار 3.7 ایم ایم ٹی سے 6.8 ایم ایم ٹی کردی تھی۔
اس تبدیلی نے پاکستان کو گندم کے درآمد کنندہ سے خالص برآمد کنندہ میں تبدیل کر دیا، جس کا جی ڈی پی پر مثبت اثر پڑا اور غذائی تحفظ کو یقینی بنایا گیا۔ تاہم، آج کا موازنہ کرتے ہوئے، ہماری پیداوار اوسط پیداواری صلاحیت سے کم ہے۔ زیر کاشت رقبہ کم ہو رہا ہے، آبادی اور پیداوار کا فرق بڑھ رہا ہے، اور زراعت سے متعلقہ درآمدات 10 بلین ڈالر کی سطح کو چھو رہی ہیں، جس سے معاشی دباؤ بڑھ رہا ہے۔
ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق 36.9 فیصد پاکستانی غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں اور 18.3 فیصد کو خوراک کے شدید بحران کا سامنا ہے۔ گندم کا بحران سنگین ہوتا جا رہا ہے، گندم کی کل طلب 30.8 ایم ایم ٹی تک پہنچ گئی ہے۔ ان تمام چیلنجوں کے پیش نظر، ایک امید افزا پہل کرنے کی اشد ضرورت ہے جس کا مقصد ماڈرن ایگرو فارمنگ کو بڑھانا ہے، جس میں 9 ملین ہیکٹر سے زیادہ غیر کاشت شدہ بیکار ریاستی زمین کو استعمال کیا جائے۔
ایک بہت ہی نوٹ کرنے والی بات یہ رہی کہ پاک فوج کے سپہ سالار زراعت کے شعبے میں خدمات کے بارے میں کسی ابہام کا شکار نہیں تھے اور یہی وجہ ہے کہ جب کارپوریٹ فارمنگ اور عام کسان کا ایشو اٹھایا گیا تو انہوں نے دوٹوک اور واضح اندا ز میں جواب دیا کہ عوا م اور فوج کا رشتہ محبت و احترام ہے۔ انہیں اور پوری پاک فوج کو قوم کی خدمت کرنے پر فخر ہے۔
ساڑھے بائیس ہزار ایکڑ کے زرعی نظام کو پانچ برسوں میں ایک لاکھ ایکڑ تک اور گرین انیشئیٹیو کا دائرہ کار پورے ملک تک بڑھایا جائے گا۔ میں ا س دوران سوچ رہا تھا کہ وہ کون بے وقوف اور ملک دشمن لوگ ہیں جو بنجر زمینوں کو آباد ہونے کے مخالف ہیں، وہ ملک کا نقصان کیوں کرنا چاہتے ہیں اس کی کچھ وجوہات سمجھ میں آتی ہیں۔ (جاری ہے)