فیلڈ مارشل کہیں نہیں جا رہے

آپریشن بنیان مرصوص میں بدترین شکست کے بعد بھارتیوں کی طرح پی ٹی آئی کے مارکیٹ میں دستیاب کچھ برائلر دانشور بھی خواب دیکھ اور ویلاگ کر رہے ہیں کہ اس نومبر میں فیلڈ مارشل عاصم منیر جا رہے ہیں۔ وہ اندازے لگا رہے ہیں کہ فیلڈ مارشل نے مری میں سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ نون کے سربراہ میاں نواز شریف سے ملاقات کی اور اس میں مدت ملازمت میں توسیع زیر بحث آئی، بھارتیوں کے لئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ بلی کو چھیچھڑوں کے خواب، پی ٹی آئی والوں کے لئے ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے والا، معاملہ ہے۔ اگر وہ قانون، اصول، منطق اور قومی مفاد جانتے ہوتے تو کبھی ایسی لمبی نہ چھوڑتے۔ میں آپ کو تحریر کے آغاز میں ہی بتانا چاہتا ہوں کہ فیلڈ مارشل چین گئے ہوئے ہیں مگر جیسا پی ٹی آئی والے سوچ رہے ہیں، ویسا وہ کہیں نہیں جا رہے۔
آپ مجھ سے پوچھیں کہ فیلڈ مارشل کب تک اس عہدے پر موجود رہیں گے تو میرا جواب ہوگا 29 نومبر 2032ء تک، انشاء اللہ۔ آپ مجھ سے پوچھیں گے کہ اتنی لمبی مدت کیسے تو میرا جواب ہوگا کہ اس مدت کی بنیاد خود عمران خان کی وزارت عظمیٰ میں ہونے والی قانون سازی بنے گی جس میں پارلیمنٹ نے بری، بحری اور ہوائی افواج کے سربراہوں کو ایک مدت ملازمت کی توسیع دینے کو آئین اور قانون کے دائرے میں جگہ دی۔ یہ بات نہیں کہ اس سے پہلے فوجی سربراہوں کو مدت ملازمت میں توسیع نہیں ملتی رہی۔
یہ تو ہمارے سامنے کی بات ہے کہ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف تو بطور صدر خود کو بطور آرمی چیف توسیع دیتے رہے اور اس کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت نے بھی جنرل کیانی کو توسیع دی وہ 29 نومبر 2007ء سے 29 نومبر 2013ء تک آرمی چیف رہے مگر یہ اعزاز، بہرحال عمران خان کو ہی جاتا ہے کہ وہ اسے قانون کے دائرے میں لے آئے، وہ قانون جس کے مطابق وزیراعظم کسی بھی فوج کے سربراہ کو ایک مدت ملازمت کی توسیع دے سکتا ہے۔
دوسرا اہم کام یہ ہوا کہ وزیراعظم شہباز شریف کے دور میں فوجی سربراہوں کی مدت ملازمت تین سے بڑھا کے پانچ برس کر دی گئی اور اس وقت ائیر چیف ظہیر احمد بابر اپنی مدت ملازمت کے چوتھے برس میں ہیں۔ اب ان دونوں قوانین کو ایک ساتھ پڑھا جائے تو فیلڈ مارشل کی پہلی مدت ملازمت جو کہ انتیس نومبر دو ہزار بائیس کو شروع ہوئی تھی وہ تین برس بعد اس نومبر میں نہیں بلکہ پانچ برس بعد دو ہزار ستائیس کے نومبر میں ختم ہو رہی ہے اور اس کے بعد قانونی طور پر ایک مدت کی توسیع دی جا سکتی ہے یعنی 2032ء تک۔
پی ٹی آئی کے برائلر دانشور چونکہ بہت زیادہ خوش فہم بھی ہوتے ہیں تو یہاں ایک اور بھی معاملہ ہے۔ وہ اندازے لگا رہے ہیں کہ مسلم لیگ نون کے صدر میاں محمد نواز شریف جو کہ تین مرتبہ وزیراعظم رہے مگر انہوں نے تینوں مدتوں میں ایک بار بھی کسی آرمی چیف کو مدت ملازمت میں توسیع نہیں دی، اب ان کی پارٹی کی حکومت ہے لہٰذا یہ حکومت کیسے توسیع دے سکتی ہے۔
یہ وہی دانشور ہیں جو ایک طرف میاں نواز شریف کے وزیراعظم نہ بننے پر بغلیں بجاتے نظر آتے ہیں اور دوسری طرف وہی بالواسطہ طور پر مان رہے ہیں کہ سسٹم پر نواز شریف کی ہی حکمرانی ہے، بہرحال، یہ نکتہ بھی واضح کرنا ضروری ہے کہ میاں محمد نواز شریف نے ایک بھی آرمی چیف کو اگر مدت ملازمت میں توسیع نہیں دی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کا کوئی آئینی اور قانونی راستہ نہیں تھا اور جب عمران خان اس کا آئینی اور قانونی راستہ بنا گئے، جس کی حمایت پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون نے بھی کی تو اب اس توسیع میں ممکنہ طور پر کوئی امر مانع نہیں۔
دوسرے یہ فیصلہ وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے بھائی، جو کہ پارٹی لیڈر ہیں، فوج جو کہ سٹیک ہولڈر ہے، کے علاوہ اتحادیوں کی مشاورت سے کرنا ہے اور مجھے یہ کہنا ہے کہ وزیراعظم کو وہ فیصلہ ہرگز نہیں کرنا چاہئے جس کا مشورہ پی ٹی آئی دے۔ ان پی ٹی آئی والوں پر آج کل اللہ کی مار ہے۔ یہ ہر غلط بات کرتے ہیں اور ہر غلط قدم اٹھاتے ہیں۔ ان سے تو ان کے اپنے بارے درست فیصلے کرنے کی توفیق اور اہلیت چھین لی گئی ہے، یہ کسی دوسرے کو کیا درست مشور ہ دیں گے۔
ویسے تو فیلڈ مارشل کو مدت ملازمت میں توسیع کا سوال قبل از وقت ہے اوراس کے زیر بحث آنے میں کم از کم دو برس باقی ہیں اور ہم اس وقت ہی اس فیصلے کے اخلاقی اور قومی جواز کو ڈسکس کرسکتے ہیں لیکن جب ہم عاصم منیر کو فیلڈ مارشل کہتے ہیں، انہیں فاتح ہندوستان سمجھتے ہیں تو کیا اس کے بعد بھی کوئی سوال باقی رہ جاتا ہے کہ انہیں اس عزت، توقیر اور مقام سے نہ نوازا جائے۔ انہوں نے قوم کو ایک تاریخی فتح اور شاندار وقار سے بہرہ مند کیا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ بھارت کو شکست دینے کے بعد اس پر کوئی دوسری رائے سامنے ہی نہیں آنی چاہئے۔ فیلڈ مارشل نے جنگ کے ہی نہیں سفارت اور معیشت کے میدان میں بھی فتوحات حاصل کی ہیں وہ بھی کیسے نظرانداز کی جا سکتی ہیں مگر ہم یہ جمع تفریق آج سے دو برس بعد کریں گے کہ ہم نے عاصم منیر کی قیادت میں کیا کھویا اور کیا پایا ہے اور مجھے یقین ہے کہ اس جمع تفریق کے بعد پوری قوم یہ کہے گی کہ مدت ملازمت میں توسیع تو بہت معمولی سا اجر ہے، اکرام ہے۔
میں یہاں پی ٹی آئی کے خوش فہموں کو ایک اور حقیقت سے بھی آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ فوج کا نیا سربراہ دو ہزار ستائیس میں آئے یا دو ہزار بتیس میں، وہ کسی بھی رجمنٹ سے ہو یا کسی بھی صوبے سے مگر یہ طے شدہ ہے کہ وہ نو مئی برپا کرنے والوں کو راستہ دینے والا، ان کی سرپرستی کرنے والا اور انہیں دوبارہ غیر آئینی اور غیر قانونی طور پر پہلے جیسا عفریت بنانے والا ہرگز نہیں ہوگا۔
فوج کا کوئی بھی سربراہ نہیں چاہے گا کہ ایسے گروہ کو طاقت دے جو مجیب الرحمان کو ہیرو بناتا ہو، پاک بھارت جنگ میں نریندر مودی کا بیانیہ چلاتا ہو، پاکستان کو ڈیفالٹ کرنے کی ناپاک سازش کرتا ہو کیونکہ، سیاسی اور قومی ایشوز پر رائے کا اختلاف ہو سکتا ہے مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ فوج کا کوئی سربراہ دشمن کے ایجنٹوں کا سہولت کار بن جائے۔ فوج ملک کے بارے میں کسی عام شہری کے مقابلے کہیں زیادہ جذباتی ہوتی ہے کیونکہ اس کے جوان اپنے وطن کے لئے اپنی جانیں قربان کر رہے ہوتے ہیں۔ میں اس وقت ایس سی او کانفرنس بھی دیکھ رہا ہوں اور پاکستان کو ملنے والا اعزاز و اکرام بھی۔ میں حیران ہوں کہ ہمارے یوتھیے، دوستوں نے اپنی ہر خوشی، ہر غم، ہر مفاد کو نریندر مودی کے مفاد کے ساتھ کیوں مشروط کر لیا ہے؟

