Saturday, 21 June 2025
  1.  Home
  2. Najam Wali Khan
  3. Fateh e Hindustan Se Mulaqat

Fateh e Hindustan Se Mulaqat

فاتح ہندوستان سے ملاقات

معرکہ حق اور دس مئی کے آپریشن بنیان مرصوص کے بعدیہ ہماری فاتح ہندوستان، کے ساتھ پہلی ملاقات تھی۔ کوئی مانے نہ مانے، پاکستان نے وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں بہت سارے قرض ایک ساتھ اتار دئیے ہیں جیسے اکہتر کے سانحے اور ناکامی کا قرض، جیسے کارگل کی مہم جوئی میں سیز فائر کی درخواست کا قرض۔

ہمارے پاس اب اڑتالیس میں کشمیر کا ایک حصہ آزاد کروانے اور پینسٹھ میں دشمن کو واپس دھکیلنے کے بعد ایک اور شاندار تاریخ موجود ہے کہ صرف چار گھنٹوں میں دشمن کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا گیا۔ آپ کیسے نہیں مانیں گے کہ بائیس اپریل کے پہلگام فالس فلیگ کے بعد جو نریندر مودی پاکستان کے خلاف بڑھکیں لگا رہا تھا وہ دس مئی کے بعد پکا سا منہ بنا کے کہہ رہا تھا پاکستان نے ہم پر ہی حملہ کر دیا۔۔ ہم پرائم منسٹر ہاؤس میں اس فتح مبین کی شاندار کہانی وزیراعظم شہباز شریف سے سن رہے تھے، وہ بتا رہے تھے کہ پاکستان نے بھارت کے تین نہیں چار رافیل گرائے۔

نو، دس مئی کی رات ایک ڈیڑھ بجے وہ میٹنگ ختم ہوئی جس میں فیصلہ کیا گیا کہ بھارت کو ضرور جواب دیا جائے گا مگر رات اڑھائی بجے ایک مرتبہ پھر بھارت نے حملہ کر دیا جس پر آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے انہیں کال کی اور کہا کہ اب جواب زیادہ بھرپور اور سخت ہوگا، وزیراعظم نے بتایا کہ انہوں نے اس کی منظوری دے دی جس کے بعد بھارت کے طیارے ہی نہیں گرے بلکہ اس کی چوکیاں بھی گریں، سائبر اٹیکس اپنی جگہ تھے، بھار ت میں بلیک آؤٹ ہوگیا، اس کی ٹرینیں ایک دوسرے سے ٹکرانے کے خطرے سے روک دی گئیں، ان کے ڈیم تک خطرے میں آ چکے تھے اور جنگ کی دھمکیاں دینے والوں امریکہ سے رابطہ کیا کہ سیز فائر کیا جائے۔

وزیراعظم شہباز شریف واضح ہیں کہ جب پہلگام فالس فلیگ پر پاکستان غیر جانبدارانہ تحقیقات کی پیش کش کر رہا تھا تو بھارت کی طرف سے حملہ بنتا ہی نہیں تھا۔ انہوں نے اب بھی بھارت کو مذاکرات کے لئے چار نکاتی ایجنڈا پیش کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے مسئلہ کشمیر ہے کہ جب تک یہ حل نہیں ہوگا تنازع اور دشمنی برقرار رہے گی۔

دوسرے نمبر پر پانی کا ایشو ہے مگر وزیراعظم مطمئن ہیں کہ بھارت دریائے چناب پر کچھ رکاوٹیں پیدا کرنے کے سوا عملی طور پر کچھ نہیں کرسکتا مگر وہ اس کا مستقل حل چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ان دونوں مسائل پر بات ہو، یہ حل ہوں تو پھر تجارت میں کوئی حرج نہیں۔ چوتھے نمبر پرانسداد دہشت گردی ہے اور اس ایجنڈے پر ہم سعودیہ، قطر، یواے ای سمیت کسی بھی جگہ بات کرنے کے لئے تیار ہیں۔ یہ باتیں تو آپ نئی بات، کی گذشتہ روز کی لیڈ سٹوری میں بھی پڑھ چکے ہیں اور کالم کو بہرحال خبر سے کچھ الگ ہی ہونا چاہئے۔

فاتح ہندوستان کا خیال ہے کہ اب بھارت دوبارہ حملے کی جرأت نہیں کرے گا اوراس کی تین وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ دنیا بھارت کے ساتھ نہیں ہے اور دوسری یہ کہ امریکی صدر ٹرمپ اس میں براہ راست دلچسپی لے رہے ہیں اور تیسری یہ کہ جنگ کے بارے یہ علم نہیں ہوتا کہ وہ کس طرف چلی جائے، وزیراعظم کے سامنے ہمارے کچھ سینئر صحافیوں اور اینکرز نے یہ معاملہ بھی رکھا کہ ہمیں متلون مزاج ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی پر اعتماد نہیں کرنا چاہئے اور وزیراعظم کا جواب بہت متوازن تھاکہ پاکستان خارجہ پالیسی میں بہتری کے کسی بھی موقعے کو ضائع نہیں کرے گا۔ ان سے یہ بھی پوچھا گیا کہ خبر آئی تھی کہ پاکستان نے ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کے لئے متعلقہ فورم کی میٹنگ طلب کر لی تھی جس پر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان ایٹمی ہتھیاروں کے حوالے سے ایک ذمے دار ملک ہے، خبریں تو آتی رہتی ہیں، ہم نے الفتح کی بوچھاڑ کی۔

کیا آپ یقین کریں گے کہ ڈیڑھ دو گھنٹے کی گفتگو میں جس میں معیشت سے جنگ تک سب کچھ ڈسکس ہوا، پی ٹی آئی زیر بحث نہیں آئی۔ یہ میرا سوال تھا کہ آپ نے پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی میں اپنے خطاب میں مذاکرات کی دعوت دی مگر اس کے بعد کچھ پیش رفت نہیں۔ آپ نے بیرونی محاذ پر جنگی اور سفارتی کامیابی تو حاصل کر لی مگر اندرونی محاذ کا کیا کریں گے جس میں کچھ لوگ دشمن کابیانیہ بول رہے ہیں اور کوئی شیخ مجیب بننے کے خواب دیکھ رہا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ پی ٹی آئی نے ان کی پیشکش کا اب تک کوئی جواب نہیں دیا اور وہ ہمارے ذریعے مذاکرات کی اس پیشکش کا اعادہ کرتے ہیں۔ میں نے محسوس کیا کہ حقیقی مسائل کے سامنے تحریک کا اعلان کرتی پی ٹی آئی تیزی سے غیر متعلقہ ہوتی جار ہی ہے یعنی ڈیڑھ دو گھنٹے کی گفتگو میں ڈیڑھ دو منٹ بھی یہ زیر بحث نہیں آسکی۔ پی ٹی آئی سے ہٹ کر وزیراعظم اب معاشی محاذ پر کامیابیوں کے لئے پرعزم نظر آئے۔

انہوں نے دس جون کو آنے والے بجٹ کے حوالے سے بھی گفتگو کی مگر دو اہم اقدامات کو آف دی ریکارڈ قرار دے دیا کہ اس پر آئی ایم ایف سے بات چل رہی ہے سو اس حوالے سے کوئی دعویٰ نہیں کرنا چاہتے مگر وہ عوام کو بالخصوص کسانوں اور تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دینے کے لئے کمٹڈ نظر آئے۔ انہوں نے بھارت کے ساتھ پانی کے تنازعے پر کہا کہ اب ہمیں پانی کی سٹوریج کے انتظامات کرنے ہوں گے اورا س کے لئے وہ تمام صوبوں اور سٹیک ہولڈرز سے بات کریں گے تاکہ وسائل پیدا کئے جا سکیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ وہ کسی متنازع منصوبے کی نہیں بلکہ پانی کے ذخائر کی تعمیر کی بات کر رہے ہیں اور ان کے لئے وسائل کی۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ قومی یکجہتی کے حوالے سے بہت زیادہ حساس ہیں جیسے بلوچستان کا معاملہ، انہوں نے اس پر متعدد سوالوں کے جواب دئیے مگر بہت ساری باتیں پہلے ہی شائع ہوچکی ہیں۔

آپ سوال کر سکتے ہیں کہ وزیراعظم شہباز شریف کو فاتح ہندوستان کا نام اور اعزاز کس طرح دیا جاسکتا ہے تو اس سوال کا جواب موجود ہے۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ بھارت کو شکست ہوئی ہے تو پھر آپ پاکستان کے چیف ایگزیکٹو سے فاتح کہلوانے کا اعزاز بھی نہیں چھین سکتے۔ جب جنگ ہوتی ہے تو ایک کو شکست ہوتی ہے اور دوسرے کو فتح۔ اس وقت خود ہندوستان کے عوام، دانشور اور فوجی تک کہہ رہے ہیں کہ انہیں نقصان ہوا، وہ گھاٹے میں رہے۔

آرمی چیف کو فیلڈ مارشل کا اعزاز مل چکا، اب وزیراعظم سے یہ تاریخی مقام کون چھین سکتا ہے۔ میں پہلے کہہ چکا کہ اگر آپ شہباز شریف کو انڈرایسٹیمیٹ کرتے ہیں، جنہوں نے بدترین مخالف کو ایوان وزیراعظم سے نکلوایا اور اڈیالہ پہنچا دیا، اپنے ملک کو دیوالیہ پن کے واضح ترین خطرے سے بچایا اور اس کے بعد بھارت کی بھی ایسی تیسی کردی تو انہیں انڈر ایسٹیمیٹ کرنا آپ کے فہم، تجربے، شعور اور علم کی کجی کے سوا کچھ نہیں۔

Check Also

Mushtarka Khandan Aur Jadeed Samaj

By Javed Ayaz Khan