سی سی ڈی کے جعلی مقابلے

سوشل میڈیا پر اگر سو میں سے ننانوے بھی کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ کے مقابلوں کی حمایت کریں، اس پر تالیاں بجائیں، اس کے جواز دیں تو میں واحد سوواں ہوں گا جو ان کی مخالفت کروں گا، انہیں آئین اور قانون ہی نہیں بلکہ سماجی دانش اور اخلاقی اصولوں کے بھی منافی قرار دوں گا۔
میں دو باتوں پر بہت زیادہ کلیئر ہوں، پہلی یہ کہ یہ مقابلے جعلی ہیں اور دوسری یہ کہ میں جعلی مقابلوں کے اسی طرح مخالف ہوں جس طرح میں سانحہ ساہیوال کا مخالف تھا جس میں کائونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ نے ماں، باپ کو محض اپنی کارکردگی ظاہر کرنے کے لیے ان کے بچوں کے سامنے گولیاں مار کے ہلاک کر دیا تھا اور چونگی امرسدھو کے رہائشی اس خاندان کی زبان بعد میں عمران خان کی حکومت کی طرف سے ایک، ایک کروڑ روپے دے کر بند کرائی گئی تھی مگر کیا اللہ کی عدالت میں بھی ان کا مقدمہ بند ہوگیا ہوگا۔
مجھے پورا یقین ہے کہ میرے رب کی عدالت یہاں کے کسی چیف جسٹس کی عدالت جیسی نہیں ہے۔ مجھے وہ سانحہ آج بھی یاد ہے جس کی آئی جی آفس سے اس وقت کی پی آر او نبیلہ غضنفر نے ایک جعلی پریس ریلیز جاری کر دی تھی اور تمام میڈیا نے اس کو چلا بھی دیا تھا مگر حقیقت اس وقت سامنے آئی جب دیدہ دلیر قاتلوں کی ایک بس میں سے بنی ہوئی ویڈیوز سامنے آئیں۔ وہ سڑک پر گاڑی کھڑی کرکے انہیں گولیاں مار رہے تھے۔
جو لوگ سی سی ڈی کے مقابلوں کی حمایت کر رہے ہیں وہ بھی مانتے ہیں کہ یہ مقابلے جعلی ہیں۔ ایک ہی کہانی ہر مرتبہ سنا دی جاتی ہے کہ زانی، ڈاکو یا قاتل اپنے ساتھیوں کو چھڑانے کے لیے آئے اور وہ اپنے انہی ساتھیوں کی فائرنگ سے مارے گئے۔ ننانوے فیصد واقعات میں پولیس والوں کو خراش آتی ہے اور نہ ہی ان کی گاڑیوں کو۔ اس مرتبہ تو لکھنے والے نے شلوار کی جیب سے پستول چلوا کے مجرم کا عضو ہی اڑا دینے کا سکرپٹ لکھ دیا۔
مقابلوں کی حمایت کرنے والے جواز دیتے ہیں کہ معاشرے سے سنگین جرائم ختم کرنے کا یہ واحد طریقہ ہے اور جب وہ یہ کہتے ہیں تو وہ بنیادی طور پر پولیس کی تفتیش، وکلا کے پروفیشنلزم اور عدالتوں کے انصاف فراہم کرنے کے تمام دعوؤں کی نفی کر رہے ہوتے ہیں اور مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ اگر آپ نے مجرموں کو اسی طرح ہی سزائیں دینا ہیں تو پھر پولیس، وکلا، جج سب ختم کر دیں۔
کچھ لوگ بیٹھ کر فیصلہ کریں کہ کس کس کو قتل کرنا ہے اور قاتلوں کا ایک سکواڈ جا کے انہیں گولی مار دے بلکہ اس سے بھی بہتر یہ ہے کہ آپ ہر مظلوم کو حق دے دیں کہ جب اسے یقین ہو جائے کہ اس پر ظلم ہوا ہے تو وہ خود ہی ظالم کو گولی مار دے۔ جعلی مقابلے سب سے پہلے حکومت کی ناکامی کا اعلان ہیں کہ وہ کریمنل جوڈیشل سسٹم کی اصلاح کرنے میں ناکام ہوگئی ہے اور دوسرے ہر اس چیف کی ناکامی کا اعلان جو کسی سیشن کورٹ کا چیف ہے، کسی ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کا۔
یہاں حکومت کے ناکام ہونے کا ایک جواز موجود ہے کہ جو بھی حکومت عدلیہ میں اصلاحات کرنا چاہتی ہے اس پر الزام لگا دیا جاتا ہے کہ وہ عدلیہ کی آزادی سلب کرنا چاہتی ہے مگر دوسری طرف یہ امر بھی حقیقت ہے کہ کچھ ترامیم بہر صورت ہو جاتی ہیں اور کچھ اصلاحات کسی بھی قیمت پر نہیں ہوتیں۔ ہماری ماتحت عدالتوں کی ایک ایک اینٹ رشوت مانگتی ہے اور اس بات کا اگر مجھ جیسے عام صحافی کو علم ہے تو کیا وہاں سارا دن گزارنے والے چھوٹے اور بڑے لیول کے معزز عدالتی سربراہان کو نہیں ہوتا؟
میرا یہ کالم ہرگز ظالموں، قاتلوں، ڈاکووں اور زانیوں کے حق میں نہیں ہے مگر ان کے حق میں ضرور ہے جیسے میں نے سٹی فارٹی ٹو میں پروگرام کرتے ہوئے ستوکتلہ کے ایک نوجوان کے پولیس مقابلے، کا معاملہ اپنے پروگرام میں کور کیا۔ وہ نوجوان جناح ہسپتال سے کسی عزیز کی عیادت کے بعد اپنی ماں کو سائیکل پر بٹھا کے واپس آ رہا تھا کہ اس تھانے کے لگے ہوئے ناکے پر کسی بدمست اہلکار نے اسے روکا اور پوچھا کہ ساتھ کون ہے۔ اس نے بتایا کہ اس کی ماں ہے مگر اس کا کہنا تھا کہ اتنی جوان ماں، یہ ماں نہیں لگتی، تو کسی کو دھندے کے لیے لے جا رہا ہے جس پر تلخ کلامی ہوگئی اور اس اہلکار نے ماں کے سامنے بیٹے کو گولی مار کے ہلاک کر دیا۔
میرے پروگرام کرنے کے بعد اس پر ڈی ایس پی لیول تک کی گرفتاریاں بھی ہوئیں مگر پھر اس ماں نے بیٹے کے قاتلوں سے صلح کر لی کیونکہ وہ بااثر پولیس والے تھے۔ میں نے اس دن ہی اس نظام پر لعنت بھیج دی تھی۔ یہ نظام اتنا گندا ہے کہ اس پر تھوکنے کو بھی دل نہیں کرتا اور جب آپ پولیس کو اجازت دے دیتے ہیں کہ وہ خود ہی ملزموں کو عدالت بن کے مجرم قرار دے اور خود ہی انہیں جلاد بن کے مار دے تو پھر وہ بے گناہوں کو بھی مارتی ہے، ستوکتلے کے اس نوجوان کی طرح، سانحہ ساہیوال میں بچوں کے سامنے قتل ہونے والوں کی طرح۔
مان لیجئے کہ میں ایک کمزور اور بزدل شخص ہوں اور میں اس لیے بھی اس نظام کا مخالف ہوں کہ کل کوئی پولیس والا مجھے بھی ماورائے عدالت مار سکتا ہے اور کسی حکمران کو بھی۔ جب آپ پولیس کو انصاف کی فراہمی کے ادارے کی بجائے قتل کرنے والی مشین بنا دیتے ہیں تو پھر وہ کرائے پر بھی قتل کرنے لگتے ہیں۔ کیا ہی بہتر ہو کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز پنجاب کی حد تک اور وزیراعظم شہباز شریف اپیل کی حد تک قانون بنا دیں کہ سلیکٹڈ کیسز میں تیس دنوں کے اندر اندر تفتیش اور فیصلہ ہوا اور اس کے بعد سات، سات دنوں میں اپیلوں کا فیصلہ مگر جو بھی ہو وہ آئین اور قانون کے مطابق ہو۔
میں نے پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ کو ایک مخالف حکومت آنے پر پنجاب کے پولیس مقابلوں پر انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں مقدمے بھگتتے ہوئے دیکھا ہے اور موجودہ وزیراعلیٰ کے دشمن تو بہت ہی گھٹیا اور کم ظرف ہیں وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔
میں نے سی سی ڈی کے قیام پر تالیاں بجائی تھیں، اسے سراہا تھا اور اب میں انتہائی خلوص کے ساتھ مشورہ دوں گا کہ اسے تحقیق اور تفتیشں کا مثالی ادارہ بنایا جائے ماورائے عدالت قتل کرنے کا نہیں کہ اگر معاملات اسی طرح چلانا ہیں تو پھر پولیس اور عدالتوں کے مقابلے میں، اس کام میں، بلوچستان کا وہ جرگہ زیادہ بہتر ہے جس کا سربراہ خود گولی مار دیتا ہے مگر میں مریم نواز کے ترقی کرتے، آگے بڑھتے، پروگریسو پنجاب کو بلوچستان بنتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتا۔ حکمران جماعت ہرگز ان مقابلوں کا کریڈٹ نہ لے، نہ ہی ان پر فخر کرے۔ اس تاثر کی واضح، دوٹوک نفی ہونی چاہیے کہ یہ مقابلے کسی اعلیٰ سطحی پالیسی یا اوپر کیے گئے فیصلوں پر ہو رہے ہیں۔

