بلوچستان، دھندا ہے پر گندا ہے

اگر میں کالم کا کلائمکس، اوپننگ میں ہی کر دوں تو یہ کوئی حقوق کی جنگ نہیں بلکہ یہ بھارت کے آپریشن سندُور، کا ہی تسلسل ہے جس کے بارے انیل چوہان دو روز پہلے کہہ رہا تھا کہ جاری ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب پاک بھارت جنگ میں سیز فائر ہوگیا، آپریشن بنیان مرصوص میں بھارت کے دانت کھٹے کر دئیے گئے، سرحدوں پرگرجتی توپیں خاموش اور فضائوں میں اڑتے طیارے اپنے اپنے نشیمن میں جا اُترے تو پھر آپریشن سندور کہاں جا ری ہے، ظاہر ہے بلوچستان، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور خیبرپختونخوا میں۔ یہ 82 ارب ڈالر سے 110ارب ڈالر سالانہ جنگی بجٹ لے جانے والی فوج اربوں ڈالر کہاں خرچ کر رہی ہے یقینی طور پر وہ بی ایل اے پر، بی وائے سی پر اوراس کے سیاسی اور قانونی محافظوں پر۔ کچھ سرداروں، صہیب بلو چوں پر نہیں بلکہ ماہرنگ بلوچوں اور ایمان مزاریوں پر۔
آپ پوچھیں گے کہ صہیب، ماہرنگ اور ایمان کے نام کیوں؟ یہ بھی کہیں گے کہ کچھ تو ہے کہ یہ پڑھے لکھے نوجوان جنگجو بن رہے ہیں، یونیورسٹیوں سے نکلی ہوئی خواتین خود کش بمبار، تو آپ کا سوال بجا ہے اور جواب ہے کہ یہ دھندا ہے پر گندا ہے۔ پہلے ہمیں دیکھنا ہوگا کہ بلوچستان کے کروڑ ڈیڑھ کروڑ لوگوں کے لئے جن میں سے اکثریت بلوچوں کی بھی نہیں حکومت کیا کر رہی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ حکومت بلوچستان کو اس کو آبادی سے بھی بڑھ کے شئیر دے رہی ہے، وہاں گوادر پورٹ تعمیر کر رہی ہے جو اسے مستقبل کا دبئی بنا سکتا ہے، وہاں سی پیک لا رہی ہے جس کی سالانہ ٹرانزٹ فیس ہی اس کے بجٹ سے زیادہ ہوگی، وہاں معدنیات کو تعمیر و ترقی کے لئے استعمال کرنا چاہ رہی ہے، وہاں بچوں کو اعلیٰ تعلیم دینے کے لئے بہانے بہانے سے فنڈز اورسکالرشپس دئیے جا رہے ہیں تو یہ صہیب بلوچ جیسے، جو پنجاب حکومت کی سکالرشپ پر پنجاب ہی کی پرائیویٹ یونیورسٹی میں پڑھتے ہیں واپس جا کے دہشت گردکیوں بن جاتے ہیں تواس کا سیدھا سادا جواب ہے کہ یہ ان کا روزگار ہے، اس میں زیادہ بڑی کمائی ہے، اس سے وہ مالدار بھی بنتے ہیں اور لیڈر بھی۔
بھلا ایک عام سا انجینئر بن کے مہینے کے پچاس ساٹھ ہزار سے کیرئیر شروع کرنے میں کیا مزا ہے، کیا تھرل ہے جب آپ کو لاکھوں روزانہ کے ٹاسکس، پر مل رہے ہوں۔ صہیب بلوچ تو پڑھا لکھا تھا اور وہاں سینکڑوں ایسے ہیں جنہوں نے تعلیم حاصل نہیں کی اور بی ایل اے جیسی تنظیموں کی بھرتی ہی ان کے لئے روزگار بھی ہے اور ا نہیں علاقے کا بدمعاش بھی بنا دیتی ہے اور اب آپ یہ مت پوچھئے گا کہ بی ایل اے کے پاس اتنا روپیہ اور جدید ترین اسلحہ کہاں سے آتا ہے، یہ سب وہیں سے آتا ہے جہاں سے انہیں ان کے سیاسی اور قانونی چہرے ارینج کرکے دئیے جاتے ہیں، جی ہاں، آپریشن سندور ابھی جاری ہے۔
آپ پوچھیں گے بلوچستان میں تو مسنگ پرسنز اور مسخ شدہ لاشوں کا بڑا غلغلہ ہے اور اس پر عدالتوں میں بھی بہت باتیں ہوتی ہیں۔ بلوچستان لبریشن آرمی کے ملک سے باہر سے چلنے والے اکائونٹس الزامات لگاتے ہیں کہ یہ سب پاکستان کی فوج کرتی ہے مگراس سوال کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہے کہ پاکستان کی فوج کو اس کا کیا فائدہ ہے کہ وہ اپنے ہی شہریوں کو مارے اور اپنے لئے نفرت پیدا کرے۔
میں اس سوال کا جواب دیتا ہوں مگر اس سے پہلے اس پر بھی غور کیجئے گا کہ یہ بیرون ملک سے چلنے والے سینکڑوں اکاونٹس کا خر چہ کون اٹھاتا ہے، ان میں سے بہت سارے بِلُو ٹِک، والے ہوتے ہیں، ان کی پروموشن بھی لگی ہوتی ہے یعنی تین، تین خرچے، پہلا خرچہ اکاونٹ چلانے والے کی تنخواہ، د وسرا خرچہ بلو ٹک، تیسرا خرچہ پروموشن۔ اب آپ واپس مسنگ پرسنز اور بوری بندلاشوں کے معاملے پر آجائیں تویہ بھی ایک دھندا ہے اور پوری طرح گندا ہے۔
مسنگ پرسنز کی اکثریت وہی ہوتی ہے جو بی ایل اے ہائر کرتی ہے، انہیں پہاڑوں پر لے جا کر بھارتیوں سے تربیت دلاتی ہے اورا یک تیر سے دو شکار کرتے ہوئے انہیں مسنگ پرسنز کی لسٹ میں بھی ڈال دیا جاتا ہے اوریہی وجہ ہے کہ گوادر کمپلیکس پر ہونے والا حملہ ہو یا قلات میں فوجیوں پر، ان میں حملہ آور وہی لوگ نکلتے ہیں جو ماہرنگ بلوچ کے مسنگ پرسنز ہوتے ہیں اور رہ گیا سوال کہ مسخ شدہ لاشوں کی سپلائی کہاں سے ہوتی ہے، یہ کامن سینس رکھنے والے جانتے ہیں، جو بلوچستان کے سرداری نظام کو سمجھتے ہیں، جنہوں نے ابھی ماہ نور اور احسان اللہ کو قتل ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔
مسخ شدہ لاشوں کے دو بڑے ذریعے ہیں اور پہلا ذریعہ بی ایل اے ہی ہے جو چھوڑ کر جانے والوں کو بھی مار دیتی ہے اور اعتراض کرنے والوں کوبھی۔ دوسرا ذریعہ وہ سردار ہیں جن کی وہاں پر اپنی جیلیں ہیں اور وہ لوگوں کو اب تک غلام رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب ان کی جیلوں میں لوگ مر جاتے ہیں یا وہ ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے ہوئے مر جاتے ہیں تو لاشوں کی مارکیٹ لگ جاتی ہے۔ جب ان سرمچاروں کی لاشیں ملتی ہیں جن کے قاتل یہ خود ہوتے ہیں تو یہ اس سے بھی دوہرا فائدہ اٹھاتے ہیں اور اس طرح ماہرنگ بلوچوں اور ایمان مزاریوں کا بزنس بھی چلتا رہتا ہے۔
آپ سوال کر سکتے ہیں کہ کئی لوگوں کو ایجنسیاں اٹھا لیتی ہیں مگر کیا آپ تصدیق کر سکتے ہیں کہ اٹھانے والے، بی ایل اے اور بی وائے سی والے نہیں ہوتے، سردار نہیں ہوتے؟ یہ بلوچستان کے سردار بھی عجیب لوگ ہیں، انہیں رائلٹی چاہئے ہوتو ہے تو یہ اسلام آباد پر چڑھ جاتے ہیں اورجب رائلٹیوں سے ان کے پیٹ نہیں بھرتے تو بھارت سے فنڈنگ کے لئے پہاڑوں پر چڑھ جاتے ہیں۔ ان کے بچے امریکہ، برطانیہ میں پڑھتے ہیں مگر یہ مزارعوں کے بچوں کے لئے سکول اور ہسپتال نہیں بنواتے، انہیں تعلیم نہیں دلواتے، انہیں حقوق کے نام پر بندوق پکڑا دیتے اور پنجاب کی بتی کے پیچھے لگا دیتے ہیں، بے شک سب سے بڑے ظالم یہی ہیں۔
سوچیں، کیا یہ بلوچستان کے رہنے والوں کا مفاد ہے کہ وہاں تعمیر و ترقی نہ ہو، امن اور خوشحالی نہ ہو، ہرگز نہیں، یہ بھارت کے مفاد میں ہے اور اس پر بھارت کے چینلز ہر وقت ہاہا کار مچائے رکھتے ہیں۔ سوچیں، پاکستان اور پاکستان کی فوج کے خلاف ارنب گوسوامی سمیت بھارتی تجزیہ کاروں کی باتیں ماہرنگ اور ایمان مزاری وغیرہ سے اتنی ملتی جلتی کیوں ہیں کیونکہ انہیں فیڈ ایک ہی جگہ سے ملتی ہے۔ ان کی دو نمبر، لچھے دار باتوں پر مت جائیں، میں نے ان میں سے ایک کو چیلنج دیا تھا کہ وہ شناختی کارڈ دیکھ کے بربریت سے قتل کئے جانے والے بے گناہ پنجابیوں کو شہید کہہ دے، بی ایل اے، بی وائے سی کی مذمت کر دے، پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگا دے، کیا اس نے ایسا کیا؟

