عوامی اسمبلیوں کے فیصلے
میں کسی بڑے ٹی وی چینل کے بڑے سے سٹوڈیو کے ٹھنڈے سٹوڈیو میں کوٹ پینٹ پہن کے رائے نہیں دے رہا۔ میں نے شاہ عالمی، رنگ محل، انارکلی سمیت دیگر جگہوں تاجروں اورعوام کے ساتھ عوامی اسمبلیاں منعقد کیں۔ میں یہ اچھی طرح جانتا ہوں کہ عوام مہنگائی سے بری طرح پریشان ہیں مگر مجھے یہ علم نہیں تھا کہ ان کا سیاسی جماعتوں پر عدم اعتماد اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ انہیں اب ان سے کوئی امیدیں ہی نہیں رہیں، وہ بہتری کے لئے ایک مرتبہ پھر پاک فوج کی طرف دیکھ رہے ہیں، جی ہاں، نوے فیصد سے زیادہ تاجروں اور عوام کو انتخابات سے بہتری اور بھلائی کی توقعات نہیں ہیں۔ بات میری لگائی ہوئی عوامی اسمبلیوں سے بہت پہلے شروع ہوئی تھی۔
اسلام آباد میں ملک بھر کے چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے منتخب نمائندوں نے اکٹھے ہو کر ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں انہوں نے کہا کہ انہیں الیکشن نہیں چاہئیں، وہ انتخابات سے پہلے چارٹر آف اکانومی چاہتے ہیں۔ پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی نے کور کمانڈر ہاؤس میں جب تاجروں اور صنعتکاروں کی آرمی چیف کے ساتھ ملاقات کروائی تھی تو وہاں لاہور چیمبر کے صدر کاشف انور نے وفد کی قیادت کرتے ہوئے دوٹوک انداز میں یہ مطالبہ پاک فوج کے سپہ سالار کے سامنے رکھ دیا تھا۔
نعیم میر، انجمن تاجران پاکستان کی سپریم کونسل کے چیئرمین ہیں اور انہوں نے بھی برملا پہلے احتساب پھر انتخاب کا نعرہ لگایا۔ تاجر برادری سہیل بٹ راڈو والے کو بہت اچھی طرح جانتی ہے اور انہوں نے مطالبہ کیا کہ نگران حکومتوں کی مدت ایک برس کی جائے اور اس ایک برس میں کرپٹ عناصر کا احتساب کیا جائے، بجلی اور گیس کے چوروں کو پکڑا جائے، ڈالر کی قیمت میں نمایاں کمی لائے جائے اور یہ کام جنرل عاصم منیر ہی کر سکتے ہیں۔
میں نے انجمن تاجران لاہور (رجسٹرڈ) کے صدرمجاہد مقصود بٹ سے پوچھا، وہ میرے ساتھ شاہ عالم مارکیٹ کے فوارہ چوک میں اپنے سیکرٹری انفارمیشن حافظ علاؤالدین اور دیگر بہت ساروں کے ساتھ موجود تھے۔ مجاہد مقصود بٹ، اپنے وقت کے معروف ترین تاجر رہنما حاجی مقصود بٹ کے صاحبزادے اور اس وقت خالد پرویز کی انجمن تاجران کے ساتھ ہیں۔ وہ برملا کہہ رہے تھے کہ انہیں انتخابات نہیں چاہئیں۔ وہ کہہ رہے تھے کہ عمران خان کے بعد شہباز شریف کے دور سے بھی مایوسی کا اظہار کر رہے تھے اور نگرانوں پر بھی برس رہے تھے۔
جب میں انارکلی گیا تو وہاں حاجی نعیم خان بھی انتخاب کی بجائے احتساب کے حق میں تھے اورمجھے بہت ساری جگہوں پر بہت ساروں سے ملاقات کرتے ہوئے صرف انارکلی بازار سے اپنی انجمن تاجران پاکستان کے صدر اشرف بھٹی ملے جو کہہ رہے تھے کہ احتساب سے پہلے انتخاب ہونا چاہئے۔ ان کی تشریح تھی کہ اگر منتخب حکمران ہوں گے تو ان سے پوچھا جا سکے گا کہ تم اپنے انتخابی وعدے کیوں پورے نہیں کر رہے، یہ سوال نگرانوں سے نہیں کیا جا سکتا لیکن دلچسپ یہ تھا کہ ان کے ساتھ کھڑے ہوئے انارکلی بازار میں ان کے اپنے جنرل سیکرٹری خواجہ ندیم ان کے ساتھ متفق نہیں تھے، وہ پہلے احتساب چاہ رہے تھے۔
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ عوام سیاسی جماعتوں سے ناامید کیوں ہیں تو اس کے لئے ہمیں اس رجیم چینج آپریشن کی طرف جانا پڑے گا جس میں عوام کو پرانی سیاسی جماعتوں سے ناامید کیا گیا اور چیئرمین پی ٹی آئی کو ایک امید کے طور پر پیش کیا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب پرویز مشرف کے دور میں تیزی سے معاشی ترقی ہورہی تھی۔ جہاں تیزی سے آبادی بڑھ رہی تھی وہاں اسی تیزی سے پرائیویٹ تعلیمی ادارے اور کارپوریٹ کلچر کے حامل کاروباری ادارے بھی فروغ پا رہے تھے۔ ان میں پڑھنے اور نوکریاں کرنے والوں کو قائل کیا جا رہا تھاکہ پرانی سیاسی جماعتیں اور قیادتیں خاص طور پر مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی مسترد ہوچکی ہیں۔
المیہ یہ ہوا کہ جسے حل کے طور پر پیش کیا گیا وہ خود ایک بہت بڑا مسئلہ نکلا۔ نومئی کے واقعات نے ثابت کر دیا کہ موصوف اقتدار کی ہوس میں پاگل ہیں اوراس کے لئے وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ میں نے ابھی آپ کے سامنے تاجروں کے نام لے کر ان کی باتیں پیش کیں۔ تاجر بہت سیانے ہوتے ہیں اور انہیں علم ہوتا کہ کس سودے میں اتنے کتنی بچت ہوگی۔ وہ جان گئے کہ پی ٹی آئی گھاٹے سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔
پیپلزپارٹی عشروں پہلے ہی پنجاب سے فارغ ہو چکی، رہ گئی نواز لیگ تواس کے بارے میں حتمی بات اسی وقت کہی جا سکتی ہے جب نواز شریف واپس آجائیں کیونکہ سابق حکومت عوام کو بتانے میں ناکام رہی کہ انہوں نے اتنی مہنگائی کیوں کی۔ پہلی مرتبہ نواز شریف نے عوامی انداز میں کہا ہے کہ اگر ملک ڈیفالٹ ہو جاتا تو اس وقت پٹرول ہزار روپے لیٹر بھی نہ مل رہا ہوتا اور ڈیفالٹ کی طرف پی ٹی آئی لے کر گئی تھی۔ عوامی لیڈر ہی عوام کو عوامی انداز میں بات سمجھا سکتے ہیں۔ نواز شریف ایک مرتبہ پھر عوام کی امید بن سکتے ہیں مگر اس کے لئے نواز لیگ کو ایک بڑی عوامی رابطہ مہم چلانی ہوگی۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ عوام (اور تاجروں کی اکثریت)نے اپنی امیدیں جنرل عاصم منیر سے کیوں لگا لی ہیں تواس کا جواب حالیہ اقدامات ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ وہ ڈالر جسے اسحق ڈار بھی نیچے نہ لا سکے وہ کہاں سے نیچے آ رہا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ چینی چوروں کی فہرستیں کہاں بنی ہوئی ہیں، بجلی چوروں کو نتھ کہاں سے ڈالی جا رہی ہے، گھروں اور پلازوں سے ڈالر کس کی چلائی ہوئی مہم کے نتیجے میں برآمد ہو رہے ہیں، پٹرول کی سمگلنگ کون روک رہا ہے۔
لوگ یقین رکھتے ہیں کہ اس وقت آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے اور اسے کوئی ڈنڈے والا ہی ٹھیک کر سکتا ہے۔ ان کے سامنے مثال موجود ہے کہ جمہوریت نے سولہ ماہ حالات کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی مگر اس کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ میری رائے ہے کہ عوام کو یقین ہے کہ انتخابات ہوئے تو موجودہ صورتحال میں ا یک مرتبہ پھر ہنگ پارلیمنٹ وجود میں آئے گی۔ میں سابق وزیراعظم شہباز شریف کی بہت ساروں سے کی ہوئی بات اوپن کر دیتا ہوں کہ انہیں مخلوط حکومت میں اس پارٹی نے بھی بلیک میل کیا جس کے پاس ایک آدھ ہی رکن تھا۔ ایسے میں سب کی امیدیں جنرل عاصم منیرسے ہیں کہ وہ اپنی امانت، دیانت اور قیادت سے بہت کچھ کر سکتے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ جو ان کی تقریر سن کر نکلتا ہے وہ ان کے لہجے کی سچائی اور عزم کی پختگی کی گواہی دیتا ہے۔ میں تاجروں کے ساتھ مل کر یہ تو نہیں کہتا کہ انتخابات ملتوی کر دئیے جائیں، مجھے جنوری کے آخر یا فروری کے شروع میں انتخابات نظر آ رہے ہیں اور یہ بھی نظر آ رہا ہے کہ قاضی فائز عیسی کے آنے کے بعد پرائم منسٹر، چیف جسٹس اور آرمی چیف کا پاکستان کی تعمیر و ترقی کے لئے دی بیسٹ کمبی نیشن، بننے جا رہا ہے جس میں بڑا کردار پاک فوج کے سپہ سالار کا ہوگا۔