ایسا ہے پاکستان
ایسا ہے پاکستان، آج ایکسپوسنٹر میں ایسوسی ایشن آف پرائیویٹ سیکٹر یونیورسٹیز آف پاکستان (ایپ سپ) کے زیر اہتمام ہونے والی نمائشسی پاکستان کانعرہ ہے۔ یہ نعرہ ایپ سپ کے چیئرمین چوہدری عبدالرحمان کا ہے جو دنیا کو پاکستان کا ایک ترقی کرتا مثبت چہرہ دکھانا چاہتے ہیں۔ ابھی رات کو گورنر ہاؤس میں اکیڈمک ایکسی لینس ایوارڈ ز کی تقریب ہو رہی تھی جس میں ملک کی پرائیویٹ اور پبلک سیکٹر کی یونیورسٹیوں کو دنیا بھر میں تسلیم کی جانے والی کیو ایس اور ٹائمز ہائیر رینکنگ ایمپیکٹ میں لے جانے والی شعبہ تعلیم کی نمایاں شخصیات کو ایوارڈز دئیے گئے۔
یہ اس امر کا ثبوت تھا کہ پاکستان کی یونیورسٹیاں عالمی درجہ بندی میں تیزی سے جگہ بنا رہی ہیں اور ہماری جامعات کے معیار کے کم ہونے کا پروپیگنڈہ تیزی کے ساتھ دم توڑ رہا ہے۔ میں جانتا اور مانتا ہوں کہ اس وقت پاکستان میں بہت سارے مسائل ہیں، یہاں مہنگائی اور بیروزگاری ہے، یہاں سیاسی اور معاشی عدم استحکام ہے، یہاں مذہبی اور سیاسی انتہا پسندی ہے، یہاں ناامیدی اور مایوسی ہے مگر سوال یہ ہے کہ ہم کب تک گلاس کو آدھا خالی بتا کے حوصلے توڑتے رہیں گے، ہمیں کبھی نہ کبھی تو خود کو بتانا پڑے گا کہ یہ گلاس آدھا بھرا ہوا ہے اوریہ پورا بھی بھر سکتا ہے۔ یہ کام مختلف شعبوں میں وژنری لیڈر شپ ہی کر سکتی ہے، کامیابی کی راہ دکھا سکتی ہے۔
میں نے کہا، میں مانتا ہوں ہمارے سامنے بہت سارے مسائل ہیں مگر مسائل سے بھرے ہوئے اسی معاشرے سے میں غریبوں کے بچوں کو پوزیشنیں لیتے ہوئے دیکھتا ہوں تو دوسروں سے بھی کہتا ہوں کہ وہ بھی مانیں کہ اصل فرق ہمت، حوصلے، کوشش اور محنت کا ہے۔ جو سعی کرتا ہے خدا اسے عطا کرتا ہے۔ ، سی پاکستان میں ایسے سٹارٹ اپ پیش کئے جا رہے ہیں جو ملکی جامعات کے طالب علموں نے تیار کئے۔ ان میں سے بہت سارے آئیڈیاز حیران کردینے کی حد تک زندگی میں آسانیاں لانے والے ہیں جیسے مہنگی ترین بجلی کے اس دور میں سولر سے چلنے والے زرعی آلات اور گاڑیاں، ہیلتھ کئیر کے شعبے میں بہت ساری ایجادات۔
ہم ایک طرف اپنی یوتھ کو یوم آزادی پر موٹرسائیکلوں کے سائلنسر نکال کے ہلڑ بازی کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو دوسری طرف ہمارے پاس ایسی یوتھ بھی ہے جو ٹیلنٹڈ ہے، انوویٹیو ہے، کریئیٹو ہے۔ پاکستان کے پاس اس وقت سب سے بڑی طاقت اس کی نوجوان نسل ہے، پینتیس برس کی عمر تک کی ساٹھ فیصد سے بھی زیادہ آبادی، اسے ایڑھیاں رگڑنے کا طریقہ بتانے کی ضرورت ہے اورپھر چشمہ یہ خود ہی نکال لیتی ہے۔ ان میں جوش اور جذبہ بھرا ہوا ہے ضرورت صرف اسے تخریب کی بجائے تعمیر کا راستہ دکھانے کی ہے۔
جب ہم یہ کہتے ہیں کہ، ایسا ہے پاکستان تو ہمیں اچھا پاکستان دکھانے کے لئے صرف اپنی سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ میں سے بہت سارے اس وقت جڑانوالہ والے واقعے کے بعد خود سے شکوہ کر رہے ہوں کہ ایسے معاشرے میں ہیں جہاں اب بھی انتہا پسند گروہ اٹھتے ہیں اور اقلیتی آبادی پر حملہ کر تے ہیں، ان کی عبادت گاہوں اور گھروں کو گرا اور جلا دیتے ہیں مگر کیا آپ دوسری طرف یہ نہیں دیکھتے کہ دہشت گردوں کے مقابلے میں جڑانوالہ کے مسلمان اپنے مسیحی ہمسائیوں کو بچانے کے لئے انہیں اپنے گھروں میں پناہ دیتے ہیں، بلوائیوں سے ان کی جانیں بچاتے ہیں۔ کیا یہ نہیں دیکھتے کہ ہمارا پورا سوشل میڈیا اپنے مسیحی ہم وطنوں کے ساتھ کھڑا ہوجاتا ہے۔
میں نے آج اپنی مسجد میں تقریرسنی، دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے میرے امام مسجد کہہ رہے تھے کہ یہ اسلام نہیں کہ آپ کسی ایک بندے کی سزا اس برادری کے دوسرے بندوں کو دیں، رسول اللہ نے اس سے صریح منع فرمایا ہے اور اس سے بھی کہ بغیر تحقیق کے افواہ پر یقین کیا جائے۔ میں نے جڑانوالہ کے چرچ میں پنجاب کی کابینہ کا اجلاس ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ میں نے نگران وزیراعظم اور نامزد چیف جسٹس کو وہاں جاتے ہوئے دیکھا ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر برادرم سراج الحق کو مسیحی بیٹی کو دلاسہ دیتے ہوئے دیکھا ہے کہ تمہارا گھر جلا دیا گیا ہے، بیٹی غم نہ کرو، تم ہماری بیٹی ہو، ہم تمہیں گھر بنا کے دیں گے، جی ہاں، ایسا ہے میرا پاکستان۔
شکوے شکایتیں کرنے والے اوردوسروں پر الزام تراشیاں کرنے والے بہت ہیں مگر مجھے آپ سے پوچھنا ہے کہ مہنگی بجلی اور مہنگا پٹرول اپنی جگہ مگر کیا آپ کا رہن سہن اور معیار زندگی آپ کے باپ، دادا سے بہت، بہت بہتر نہیں ہے۔ وہ عیدین پر ہی کپڑے بنایا کرتے تھے اور آج کی مائیں برینڈز کی دکانوں پر باقاعدہ حملہ آور ہوتی ہیں۔ وہ بس پکڑنے کے لئے میلوں پیدل چلا کرتے تھے اور اب بہت ساروں کے پاس کئی گاڑیاں نہیں تو کم از کم ایک گاڑی یا موٹرسائیکل ضرور ہے۔ وہ اچھے کھانے مہمان کے آنے پر ہی کھایا کرتے تھے اور اب کئی کئی ہزار پر ہیڈ والے ریستورانوں میں بھی ہاؤس فل کے بورڈ لگے ہوتے ہیں۔ مجیب الرحمان شامی صاحب جب ملتے ہیں وہ سڑکوں پر کاروں کی لمبی قطاروں کی طرف توجہ دلاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ کیا یہ سب آج سے چالیس، پچاس برس سے پہلے بھی تھا۔ اس کا صاف اور سیدھا مطلب یہی ہے کہ پاکستان نے ترقی کی ہے، اس نے سہولت دی ہے لیکن اگر کسی نے نہیں ماننا، اس کا برا چہرہ ہی دکھانا ہے تو اس کی اپنی مرضی ہے۔
ابھی ایک دو روز پہلے بھارت نے چاند پر اپنی گاڑی چندریان اتاری ہے اوراس کے ساتھ ہی بہت سارے ایسے ہیں جو اپنے ہی وطن پر حملہ آور ہو گئے ہیں۔ میں بلاخوف تردید انہیں کہتا ہوں کہ اگر وہ واقعی سمجھتے ہیں کہ بھارت زیادہ بہتر ملک ہے تو وہ یہاں سے ہجرت کرکے وہاں جاسکتے ہیں۔ میں انہیں عمر کوٹ کے بہت سارے ہندو خاندان بھی دکھا سکتا ہوں جو وہاں سے بارڈر پار کرکے انڈیا اس امید کے ساتھ گئے کہ وہاں ہندووں کے اکثریتی ملک میں وہ زیادہ عزت، سکون، امن اور خوشحالی کے ساتھ رہ سکیں گے اور میں نے ان سے ملا ہوں جو پھر واپس آئے ہیں اور گواہی دی ہے کہ ہندو ہوتے ہوئے بھی ان کی جنم بھومی ان کے لئے زیادہ شاندار ہے۔ ابھی چند روز پہلے بھی بٹگرام میں چئیرلفٹ کے پھنسنے پرسوشل میڈیا ئی فتنہ کھڑا کیا گیا او ر کہا گیا کہ پاک فوج کی بجائے وہاں کے مقامی لوگوں نے پھنس جانے والوں کو بچایا۔
مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ یہ میرا ہی وطن تھا جس کے میڈیا نے ان کی خبروں کو ہائی لائیٹ کیا اور یہ میر ی ہی فوج تھی جس کے ہیلی کاپٹر اورجوان ان لوگوں کو بچانے کے لئے وہاں پہنچے۔ بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ بڑا خرچہ کیا اورمیں کہتا ہوں کہ اسے مقدس اوراہم خرچہ کوئی ہو ہی نہیں سکتا جو بٹگرام میں فوج اور انتظامیہ نے کیا۔ مجھے یہ بتانے میں بھی عار نہیں کہ علی سواتی اور صہیب ہوں جنہوں نے چھ لوگوں کو بچایا یا صاحب خان ہو جس نے ایک کی جان بچائی سب کو فوج ہی وہاں لے کر آئی۔
اسی نے انہیں ائیرلفٹ کیا۔ اسی نے سامان اور سپورٹ دی ورنہ ہم نے سیلاب میں پانچ جوانوں کو ڈوبتے دیکھا تھا مگر فتنہ پھیلانے والوں کا ہیلی کاپٹر مدد کرنے کی بجائے بنی گالہ کی ٹیکسی بنا ہوا تھا، سو مان لیجئے، میرا پاکستان بہت بہتر ہے اور میری نوجوان نسل بہت باصلاحیت، کسی کو شک ہو تو وہ آج ایکسپو سنٹر میں اس پاکستان کو دیکھ سکتا ہے۔