آپ کو کیسا حکمران چاہئے؟

ہمیں پٹرول کی قیمت میں حالیہ اضافے سمیت بہت ساری باتوں پر ردعمل دیتے ہوئے ایک بنیادی اصول طے کرنا ہوگا کہ ہمیں کس قسم کا حکمران چاہیے۔ ہمارے پاس اب تک اس کے دو ہی ماڈل موجود ہیں۔ ایک حکمران وہ ہیں جو ٹیکس ضرور لگاتے ہیں مگر اس کے ساتھ میگا پراجیکٹس دیتے ہیں۔ موٹرویز کا جال بچھاتے ہیں۔ غریبوں کے بچوں کے لئے دانش سکول بناتے ہیں۔ ہمارے پڑھائی میں اچھے بچوں کو مفت قیمتی لیپ ٹاپ دیتے ہیں۔ شہروں کو صاف ستھرا رکھتے ہیں۔ یہ وہی حکمران ہیں جنہوں نے کینسر کے ہزاروں مریضوں کے لئے مفت ادویات کی فراہمی شروع کی تھی اور آج بہت سارے امراض کی ادویات گھروں تک پہنچ رہی ہیں، جو غریبوں اورکسانوں کو مفت سولر دینے کی بات کرتے ہیں۔ یہ وہ حکمران ہیں جو بھارت کے سامنے سرنڈر کرنے کی بجائے اسے شکست فاش دیتے ہیں۔
یہ سب سہولیات دینے کے دو ہی طریقے ہیں پہلا یہ کہ آپ ٹیکس لگائیں اوراس ٹیکس کو عوامی فلاح کے لئے استعمال کریں۔ فنڈز کی فراہمی کا دوسرا طریقہ قرضے ہیں اور ایک حکومت ایسی بھی آئی ہے جس نے ملکی تاریخ کے ستر برس کے قرضوں کا ستر فیصد صرف ساڑھے تین برس میں لیا اورملک کو ایک بھی میگا پراجیکٹ نہیں دیا، جی ہاں، ہمارے پاس حکمرانی کا دوسرا ماڈل بھی موجود ہے جو یہ دیکھتے ہوئے کہ اس کی حکومت جا رہی ہے جب پٹرول20 روپے لیٹر مہنگا کرنا ہو تو 20 روپے سستا کر دیتا ہے اور جب بجلی کے یونٹ کی قیمت بڑھانی ہوتو کم کر دیتا ہے۔ اس کے نتیجے میں آئی ایم ایف سے معاہدہ ٹوٹ جاتا ہے اور اس کی حکومت ختم ہوتے ہی معیشت کی بنیاد میں لگائی ہوئی بارودی سرنگیں پھٹنے لگتی ہیں۔
ملک تیزی سے دیوالیہ ہونے کی طرف بڑھنے لگتا ہے۔ یہ حکمران نہ ٹیکس لگاتا ہے اور نہ ہی کوئی میگا پراجیکٹ دیتا ہے بلکہ ملک پر قرضوں کا بوجھ بڑھا کے چلا جاتا ہے۔ یہ وہ حکمران ہے جو گیارہ، بارہ بجے سو کے اٹھتا ہے۔ اس کے وزیر بتاتے ہیں کہ وہ جس ہیلی کاپٹر پر ایوان وزیراعظم آتا ہے اس کا خرچ پچپن روپے کلومیٹر پڑتا ہے۔ اس کی مصروفیات میں وہ ٹیلی فون کالز ہوتی ہیں جن پر مخرب اخلاق گفتگوہوتی ہے یا توشہ خانہ سے چوری کے نئے نئے طریقے ہوتے ہیں کہ کس طرح گھڑی بغیر ادائیگی کے لی جائے، اسے سمگل کیا جائے، اس پر منافع کمایا جائے، اس کی جعلی رسید دی جائے اور اس کے بعد اسے اپنی فنانشل سٹیٹمنٹ میں بھی ظاہرنہکیا جائے۔ یہ حکمران توشہ خانہ سے چوریوں، سرکاری پوسٹنگز سے کمیشن لینے والی فرح گوگیوں کے ساتھ ساتھ غیر ملکی ناجائز فنڈنگ اور ملک ریاض وغیرہ سے زمینیں اور اس کی اہلیہ ہیروں کی انگوٹھیاں وغیرہ وصول کرکے ہی اپنا گزارا کرتے ہیں۔
میں مانتا ہوں کہ پٹرول کی قیمت میں اضافہ نہیں ہونا چاہیے، ہر شے سستی ہونی چاہئے مگر یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ ٹیکس بھی نہ دیں اور ملک بھی ترقی کرے۔ ہمارے دوست کہتے ہیں کہ وہ بہت زیادہ ٹیکس دیتے ہیں اور ہر شے پر دیتے ہیں اوراس کی وجہ یہ ہے کہ ہم سب براہ راست ٹیکس نہیں دیتے۔ ملک کی پچیس کروڑ آباد میں سے لگ بھگ پچاس لاکھ فائلرز ہیں اور ان میں سے بھی ایک تہائی زیرو پر یا ایک سو پر فائلنگ کرتے ہیں۔
اب اگر حکومت بجلی اور پٹرول پر ٹیکس نہیں لے گی تو ملک کیسے چلے گا۔ میں اس بجٹ میں کئے گئے اقدامات کو سراہتا ہوں کہ آپ نے ہر اس شخص کے پلاٹ مکان خریدنے یا بیرون ملک سفر کرنے پر پابندی لگا دی جوفائلر نہیں ہے۔ بہت سارے کہتے ہیں کہ ایک عام دیہاتی آدمی فائلر کیسے ہوسکتا ہے تو میرا جواب ہے کہ اگر ایک عام دیہاتی آدمی کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ کے بعد پاسپورٹ بنوا سکتا ہے اور ویزا بھی لگوا سکتا ہے تو وہ فائلر کیوں نہیں ہوسکتا۔
چھوڑیں، پٹرول پر ہی بات کرتے ہیں۔ میرے دوستوں نے کہا کہ حکومت نے چول، ماری ہے۔ میں ان دوستوں کی بات کر رہا ہوں جو ہمیشہ منطق اور حب الوطنی کو بنیاد بنا کے بات کرتے ہیں ان کی نہیں جو میر جعفراور میر صادق ہیں، ہاں، مسلم لیگ نون کو کچھ ایسے دوست، بھی ملے ہوئے ہیں جو ہر مشکل میں دشمن کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ان کی زبان بولنے لگتے ہیں۔ یہ عبداللہ بن ابی اور لارنس آف عربیہ کی سوشل میڈیا پر چھوٹی چھوٹی نقلیں ہیں۔ یہ مسلم لیگ نون کے ہمدرد کے طور پر اپنی شہرت بناتے ہیں اور پھر مسلم لیگ نون کے ہمدردوں کو بغاوت پر اکساتے ہیں۔
میری دلیل ہے کہ پاکستانیوں کی فی کس آمدن کم ہے لہٰذا یہاں پٹرول بجلی کے ریٹ بھی کم ہی ہونے چاہئیں مگر ایک دوست سے بحث کرتے ہوئے کینیڈا میں پٹرول کا ریٹ چیک کیا تو پتا چلا کہ وہ آج کی تاریخ میں 308پاکستانی روپے ہے جبکہ پاکستان میں اس اضافے کے بعد 266 روپے ہوا ہے۔ اب کینیڈا کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی تو 35فیصد کے لگ بھگ ہے اور ہمارا10 فیصد کے لگ بھگ۔ کینیڈا میں تو پٹرول ہم سے سستا ہونا چاہئے کہ ان کی حکومت کی یہ مجبوری نہیں کہ وہ ان ڈائریکٹ ٹیکس وصول کرے مگر انہوں نے بھی ہم سے 40 روپے مہنگا رکھا ہوا ہے اور اسی طرح انڈیا کا ریٹ معلوم کیا تو پتا چلا کہ پاکستان کے 337 روپے لیٹر بنتا ہے اب آپ 266اور 337میں خود ہی فرق معلوم کر لیجئے۔
دوبارہ اس دلیل کی طرف آتا ہوں کہ کینیڈا کی فی کس آمدن زیادہ ہے لہٰذا وہ زیادہ قیمت دے سکتے ہیں تو میراسوال ہے کہ پاکستان کی فی کس آمدن زیادہ ہونے کا کیا طریقہ ہوسکتا ہے سوائے اس کے، کہ ہم معیشت کو بڑھائیں، کاروبار زیادہ سے زیادہ ہوں، جس سے لوگوں کے روزگار زیادہ سے زیادہ بڑھیں۔ اس کے سوا دوسری حکمرانی یہی ہے کہ آپ حکمران بن کے ملک بھر پر عثمان بزدار اور محمود خان جیسی چیزیں مسلط کردیں۔ وہ نہ خود کچھ کریں اور نہ کسی کو کرنے دیں (سوائے کرپشن کے) سو پیارے دوستو، ملک چلانے کا یہی طریقہ ہے کہ ہم نے ٹیکس دینا ہے اور اسی ٹیکس سے ملک نے چلنا ہے۔
آپ کو یاد ہے کہ کچھ لوگ کچھ دن پہلے تک اپنے دفاعی بجٹ پر بھی بکواس کرتے رہے، فوج کو امریکہ کی سڑکوں تک پر رسوا کرتے رہے مگر پتا اس وقت چلا کہ ہماری فوج کا بجٹ 10ارب ڈالر اور ہمارے دشمن کا 88 ارب ڈالر ہے اور ہم نے اس کے ساتھ اسے شکست فاش دی تو فوج کے بجٹ بارے گھٹیا گفتگو بند ہوئی۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم سب مل کر اپنے وطن کے لئے قربانی دیں کہ ہمارے بچے کون سے یہودیوں کے پاس یرغمال ہیں، ہمارے بچوں کا مستقبل اسی ملک سے ہے جسے ہم سب نے مل کر تعمیر کرنا ہے اور یہ تعمیر محبت، خلوص اور قربانی سے ہی ہوسکتی ہے۔ ہم نے یہیں رہنا ہے اور ہر صورت پاکستان زندہ باد کہنا ہے۔