ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نیب کی معترف کیوں؟
تحریک انصاف کرپشن کے خا تمے کے مینڈیٹ کے ساتھ آئی ہے۔ لیکن افسوس حکومت اب اس سے بھی پیچھے ہٹ رہی ہے۔ نیب کو بند کرنے اور نیب قوانین میں ترامیم تحریک انصاف کے مینڈیٹ سے انحراف سے کم نہیں ہے۔ حالانکہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ نے واضح کیا ہے کہ اگر نیب نہ ہوتی تو حکومت کی کرپشن کے خلاف تحریک کا اس سے بھی برا حال ہوتا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل سال 2019 کی رپورٹ میں چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں نیب کے اقدامات کی کرپشن کی ر وک تھام کے لیے اقدمات کی تعریف کی گئی ہے۔
چیئرمین نیب کے زیر نگرانی بدعنوانی کے تدارک کے خلاف نیب کی پالیسیاں متاثر کن ثابت ہوئیں جن میں متعارف کرایا گیا کمبائنڈ انویسٹی گیشن ٹیم سسٹم سر فہرست رہا۔ نیب کی جانب سے ملزمان کو سزائیں دلوانے کا تناسب 70 فیصد سے زائد رہا جو قابل ستائش ہے۔ نیب نے 1سال (2019) کے دوران بدعنوان عناصر سے 153 ارب روپے وصول کیے جو نیب کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ایک سال کے دوران نیب کے پراسیکیوشن ونگ کی کارکردگی ماضی سے بہتر رہی اور بدعنوانی کے 530 ریفرنسز احتساب عدالتوں میں داخل کیے گئے۔ بین الاقومی طور پر بدعنوانی میں اضافہ نظر آیا تاہم انسداد بدعنوانی کے دیگر اداروں کے لیے نیب کے اقدامات مشعل راہ کے طور پر نمایاں ہوئے ہیں۔ نیب آگاہی و تدارک ونگ کی بدعنوانی کے پھیلاؤ کے خلاف مہم بھی قابل ستائش تصور کی گئی جس سے عوام کو کرپشن کے خلاف آگاہی ملی ہے۔ رپورٹ کے مطابق نیب سارک ممبر ممالک کے لیے بھی قابل تقلید کردار ادا کر رہا ہے۔ لیکن پھر بھی پاکستان میں نیب کے خلاف ایک ماحول نظر آ رہا ہے۔
ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے قطع نظر اگر صرف نیب لاہور کی کارکردگی پر نظر ڈالی جائے تو نیب لاہور نے سال 2019میں کرپشن و بدعنوانی اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے میں ملوث 138 ملزمان گرفتارکیے۔ نیب لاہور نے 19 سال کا ریکارڈ توڑتے ہوئے مجموعی طور پر ایک سال کے دوران 29ارب 93کروڑ کی ریکوری کی۔ گزشتہ سال کے دوران 100 نئی انکوائریوں کا آغاز کیا گیا۔ جب کہ نئی شروع ہونے والی انویسٹی گیشنز کی تعداد 36 رہی۔ 2019میں مجموعی طور پر نیب لاہور کی طرف سے 55 ریفرنسز احتساب عدالتوں میں دائر کیے گئے۔ پلی بارگین کے 30 ریفرنس احتساب عدالتوں میں داخل کیے گئے۔
صرف نیب لاہور کی جانب سے 2019کے دوران کم و بیش 3 ارب روپے کیش کی صورت میں متاثرین کو واپس لوٹائے گئے۔ 27 ارب سے زائد مالیت کے مکانات و پلاٹ بھی متاثرین کے حوالے کیے گئے۔ ماضی میں نیب لاہور کو اوسط سالانہ 4 ہزار شکایات موصول ہوتی رہیں تاہم 2019کے دوران نیب لاہور کو 13 ہزار سے زائد شکایات موصول ہوئیں۔ شکایات کی تعداد میں اضافہ عوام کا نیب پر اعتماد بھی ظاہر کرتا ہے۔ اور اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ لوگ اب کرپشن کے خلاف کارروائی کے بارے میں پر امید ہیں۔
حکومت نیب کو خر اج تحسین تو دور کی بات ہے نیب کا دفاع کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔ جب عالمی ادارے کرپشن اور بد عنوانی کے خلاف نیب کی کارکردگی کی تعریف کر رہے ہیں ہم اس کو بند کرنے کے لیے اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم نیب کے کام کرنے والے افسران کی کاوشوں کو ملکی سطح پر پذیر ائی بخشنے کے بجائے انھیں تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ نیب لاہور کی اس کارکردگی پر ڈی جی نیب لاہور میجر (ر) سلیم شہزاد کو کوئی تمغہ نہیں مل سکتا۔ بلکہ ان کے لیے پذیر ائی کے دو لفظ بھی مشکل ہیں۔ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے بعد کسی بھی سیاستدان نے نیب کے حق میں بات نہیں کی۔ البتہ ڈی جی نیب لاہور میجر (ر) سلیم شہزاد نے ضرور کہا ہے کہ نیب، احتساب سب کے لیے کی پالیسی پر سختی گامزن ہے۔
آجکل بہت شور ہے کہ کاروباری لوگ نیب کے خوف سے کاروبار نہیں کر رہے ہیں۔ اسی لیے وزیر اعظم نے کاروباری افراد کی ایک محفل میں یہ خوشخبری سنائی کہ کاروباری افراد کو نیب کے دائرہ کار سے نکال دیا گیا ہے۔ اس ضمن میں آل پاکستان انجمن تاجران کے مرکزی سیکریٹری جنرل نعیم میر نے تاجروں کو نیب کارروائیوں سے ریلیف دینے کے آرڈیننس کے حوالہ سے کہا ہے کہ وزیر اعظم پہلے یہ بتائیں کونسے تاجر نیب کارروائیوں کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں؟ کونسے تاجر ہیں جن پر نیب مقدمات قائم ہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ سمجھ سے باہر ہے نیب اور تاجروں کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ حکومت کو اپنے لوگوں کی کرپشن پر پردہ ڈالنے کے لیے تاجروں کا کندھا استعمال نہیں کرنے دیں گے۔ عام تاجر کو نیب سے کوئی خوف نہیں ہے۔ وہی چند بڑے کاروباری جو سیاستدان بھی ہیں اور بڑے بزنس مین بھی ہیں۔ انھیں بطور سیاستدان بھی نیب قبول نہیں ہے اور بطور بڑے بزنس مین بھی نیب قبو ل نہیں ہے۔ پاکستان کل بھی ان کے پاس یرغمال تھا۔ آج بھی یرغمال ہے۔ کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
اگر صرف فراڈ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے معاملات میں ہی نیب لاہور کی کارکردگی کو دیکھا جائے تو نیب لاہور کے ڈی جی سلیم شہزاد نے اس ضمن میں مثالی کام کیا ہے۔ انھوں نے عام آدمی کی ڈوبی ہوئی رقوم انھیں واپس دلائی ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق نیب لاہور نے فراڈ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے خلاف 62 مقدمات میں انکوائری شروع کی۔
ان 52 انکوئریوں میں سے 40 کے خلاف کارروائی مکمل کر لی ہے اور 22 انکوئر یاں ابھی زیر التو ہیں۔ جن 40 مقدمات کی انکوائریاں مکمل ہوئی ہیں۔ ان سے عام لوگوں کی ابھی تک 25 ارب روپے کی ریکوری ہو چکی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو عوام سے فراڈ کرنے کا کاروبار نیب کی وجہ سے شدید بدحالی کا شکار ہے۔ اس لیے میری درخواست ہے کہ اگر ملک کو کرپشن سے پاک کرنا ہے تو نیب کا مقدمہ بھی دیکھنا ہو گا۔ نیب کی بات بھی سننی ہو گی۔ میں یہ نہیں کہ رہا کہ نیب نے کوئی غلطی نہیں کی ہے۔ لیکن ان غلطیوں کا ازالہ نیب بند کر دینے سے نہیں ہے۔ نیب کی بات بھی سننی ہو گی۔ ان کی کارکردگی کو بھی دیکھنا ہو گا۔ اسی میں ملک کا مفاد ہے۔