شہباز شریف کا شکوہ
آجکل کراچی کے کچرے کی سیاست ملکی سیاست کا محور بنی ہوئی ہے۔ کراچی کا کچرا ایک قومی مسئلہ بن چکا ہے۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کہتے ہیں کہ کراچی کا کچرا اٹھانا سندھ حکومت کی ذمے داری نہیں ہے۔ میئر کہتے ہیں ان کے پاس وسائل نہیں ہیں۔ وفاقی وزرا بھی ناکام ہوتے نظر آرہے ہیں۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ کراچی کا کچرا کون اٹھا سکتا ہے اور کون اٹھائے گا؟ بارشوں کے پانی نے کراچی کو قابل رحم بنا دیاہے۔ مراد علی شاہ بارش کا پانی نکالنے کے لیے سڑکوں پر کھڑے نظر آئے لیکن پانی نہیں نکلا۔ جیسے جیسے کراچی کی ابتر حالت قوم کے سامنے آرہی ہے، اہل لاہور کو شہباز شریف کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ اگر دس سال پنجاب میں شہباز شریف کا دور نہ ہوتا تو کوئی بعید نہیں تھا کہ آج لاہور کی حالت بھی کراچی جیسی ہوتی۔
آجکل میاں شہباز شریف اخبارات میں مضمون لکھ رہے ہیں۔ ان کے اب تک تین مضمون شائع ہو چکے ہیں۔ انھوں نے اپنے پہلے مضمون کا عنوان رکھا کہ جانے کس جرم کی پائی ہے سزا۔ یہ مضمون روزنامہ ایکسپریس میں بھی شائع ہوا تھا۔ مضمون میں انھوں نے نیب حراست میں ملنے والی خلوت کا ذکر کیا ہے۔ شہباز شریف نے خواجہ عزیز الحسن مجذوب کے اس شعر کو اپنے مضمون کا محور بنایا ہے۔
ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی ہے
اب تو آجا اب تو خلوت ہو گئی ہے
میں نے شہباز شریف کے مضامین پڑھے ہیں۔ پاکستان کی سیاست کا المیہ یہ بھی ہے کہ یہاں سیاسی قائدین نہ تو آپ بیتی لکھتے ہیں اور نہ ہی واقعات اور حقائق کو قلمبند کرتے ہیں۔ وہ اپنی معلومات کا خزانہ اپنے ساتھ ہی لیجاتے ہیں۔ شہباز شریف کی جانب سے مضامین کا سلسلہ ایک اچھی روایت ہے۔ میری رائے میں باقی سیاسی قیادت کو بھی اس کی پیروی کرنی چاہیے۔
بہر حال شہباز شریف کے مضامین کہیں نہ کہیں شکوہ ہیں۔ مجھے ان کی مضامین سے ایک ایسے شخص کی جھلک نظر آئی ہے جو سمجھ رہا ہے کہ کہیں نہ کہیں اس کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔ مجھے شہباز شریف کے مضامین پڑھ کر علامہ اقبال کا شکوہ اور جواب شکوہ یاد آگئے۔ مجھے لگا کہ شہباز شریف کہہ رہے ہیں کہ :
ہے بجا شیوہ تسلیم میں مشہور ہیں ہم
قصہ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
ساز خاموش ہیں ؛ فریاد سے معمور ہیں ہم
نالہ آتا ہے اگر لب پہ ؛ تو معذور ہیں ہم
اے خدا: شکوہ ارباب وفا بھی سن لے
خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ شہباز شریف نے یہ کوئی پہلی دفعہ لکھنا شروع نہیں کیا۔ اس سے پہلے جب وہ مشرف کی قید میں تھے تب بھی انھوں نے جیل سے ایک کتاب لکھی تھی۔ جس میں اپنے خاندان کے کاروبار کی کہانی لکھی تھی۔ اس لیے یہ شہباز شریف کی عادت ہے کہ جب بھی وہ خلوت میں جاتے ہیں تو قلم کا سہارا لیتے ہیں۔
شہباز شریف نے پاکستان کو اندھیروں سے نکالنے کے لیے انقلابی کام کیا ہے۔ انھوں نے پنجاب میں چھ ہزار میگاواٹ کے بجلی کے پلانٹ لگا کر ناممکن کو ممکن کیا ہے۔ اگر وہ یہ پلانٹ نہ لگاتے تو پاکستان آج بھی اندھیروں میں ہوتا۔ آج جب عمران خان یہ ٹوئٹ کرتے ہیں کہ ملک میں بجلی پوری ہے تو اس کے پیچھے شہباز شریف کی انتھک محنت موجود ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ شہباز شریف کو ان کی محنت کا کوئی صلہ نہیں ملا ہے۔ جس اسپیڈ سے انھوں نے یہ پلانٹ لگائے اس پر چینی حکومت بھی حیران رہ گئی۔ اور انھوں نے شہباز شریف کے کام کرنے کی اسپیڈ کو شہباز اسپیڈ کہا۔ یہ الگ بات ہے کہ شہباز شریف نے بعد میں اس کو پنجاب اسپیڈ کہا۔ لیکن آج ثابت ہو گیا ہے کہ وہ شہباز اسپیڈ تھی۔ اور شہباز کے ساتھ ہی غائب ہو گئی۔ شہباز شریف کی جانب سے بجلی کے پلانٹ لگائے جانے کی کہانی کوئی جھوٹ نہیں ہے۔ یہ حقیقت ہے۔ آج یہ بجلی کے پلانٹ پوری آب وتاب سے کام کر رہے ہیں۔ البتہ شہباز شریف کو نیب کی خلوت ملی ہے۔
آج جب کراچی میں کچرا اٹھانے کا مسئلہ قومی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ سب اسٹیک ہولڈر ناکام ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ وہاں شہباز شریف لاہور کو کچرا سے صاف کرنے اور یہاں کچرا اٹھانے کا ایک مربوط نظام لانے کی سزا بھگت رہے ہیں۔ گو کہ شہباز شریف نے اپنی کمر درد کی وجہ سے تمام سیاسی مصروفیات معطل کی ہوئی ہیں۔ وہ بیڈ ریسٹ پر ہیں۔ لیکن نیب ان سے بستر علالت پر بھی تفتیش کر رہا ہے۔ میں نے میڈیا پر دیکھا کہ شہباز شریف سے لاہور ویسٹ منجمنٹ کمپنی کے معاملہ پر نیب تفتیش کرنے ان کے گھر گئی ہے۔
میں سوچنے لگا کہ کہیں نہ کہیں سندھ کے تمام اسٹیک ہولڈرز نے کراچی کا کچرا نہ اٹھا کر اچھا ہی کیا ہے۔ کم از کم اگر کچرا پڑا رہے تو نیب تفتیش تو نہیں کرتی۔ یہاں تو کچرا اٹھانے پر تفتیش ہوتی ہے۔ شہباز شریف نے لاہور کو ہی نہیں پنجاب کو صاف کیا۔ آج مراد علی شاہ اور تحریک انصاف کے وزیر کراچی میں بارش کے پانی میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ تو میڈیا میں بہت داد دی جاتی ہے۔ لیکن آج سے دس سال پہلے جب شہباز شریف لاہور کے لکشمی چوک کے پانی میں لانگ بوٹ پہنے کھڑے تھے تو میرے دوستوں نے اس کو ایک ڈرامہ قرار دیا تھا۔ لیکن آج سب کو علم ہو گیا ہے کہ جب تک حکمران خود گندے پانی میں کھڑا نہیں ہو گا۔ تب تک پانی کے نکلنے کا راستہ بھی نہیں نکلے گا۔
شہباز شریف نے اپنی بات شروع ہی یہاں سے کی ہے کہ جانے کس جرم کی پائی ہے سزا۔ میرے خیال میں شہباز شریف کے جرائم کی فہرست بہت طویل ہے۔ بجلی کے یہ تمام پلانٹ ان کے سب سے بڑ ے جرائم ہیں۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان پلانٹس سے پاکستان کے قومی خزانہ کو گیارہ ارب روپے کی بچت ہوئی۔ شہباز شریف کے یہ جرائم نا قابل ترید ہیں۔ کراچی میں گرین لائن نہیں بن سکی۔ پشاور میں بی آر ٹی نہیں بن سکی۔ لیکن پنجاب میں میٹرو بن گئیں۔ یہ شہباز شریف کا جرم ہے۔
ان میٹروز میں کوئی کرپشن نہیں ملی۔ وزارت اعلیٰ کے دوران شہباز شریف نے تمام سرکاری دورے اپنی جیب سے کیے، یہ اس سے بڑا جرم ہے۔ ڈینگی کو کنٹرول کیا اس کی تو معافی ممکن نہیں۔ پل بنائے سڑکیں بنائیں۔ یہ بھی کوئی چھوٹے جرائم نہیں ہیں۔ اورنج لائن شروع کی جو آج حکمرانوں کے گلے کی ہڈی بن چکی ہے۔ پنجاب کو باقی صوبوں کے لیے رول ماڈل بنا دیا، یہ بھی نا قابل معافی جرم ہے۔ صاف پانی کیس کی کرپشن خود پکڑی۔ یہ بھی جرم ہے۔
اداروں سے مفاہمت کی پالیسی بھی آج جرم ہی بن گئی ہے۔ ایک طرف نواز شریف خاندان ان سے ناراض رہتا ہے کہ وہ مزاحمت نہیں کرتے۔ دوسری طرف ادارے ناراض رہتے ہیں کہ وہ بغاوت نہیں کرتے۔ کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ انھوں نے جہاں مفاہمت کا علم بلند کیا ہوا ہے۔ وہ کتنا مشکل کام ہے۔ شہباز شریف کو ان کے جرائم کی اور سزا ملنی چاہیے۔ شہباز شریف کیوں گلہ کر رہے ہیں۔ کیا ہم نے ملک کے باقی محسنوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک نہیں کیا ہوا۔ جو ان کو اپنے ساتھ ہونے والے سلوک پر پر گلہ ہے۔