اپوزیشن کا اگلا روڈ میپ کیا ہے؟
عمران خان کی حکومت کو بظاہر کوئی مشکل نظر نہیں آرہی ہے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز ان کے ساتھ ہیں۔ اپوزیشن بھی انھیں اقتدار سے الگ کرنے کے کسی موڈ میں نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی راوی چین نہیں لکھ رہا ہے۔ عمران خان ملک کے ایک طاقتور وزیر اعظم ہیں۔
ان کے اقتدار کو کہیں سے بھی کوئی خطرہ نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی خطرے کی دھڑکن سنائی دیتی ہے۔ تمام معاملات ان کے کنٹرول میں ہیں لیکن پھر بھی معاملات ان کے کنٹرول میں نظر نہیں آتے۔ اقتدار میں آنے سے پہلے وہ ایک مقبول لیڈر بھی تھے لیکن اب ان کی مقبولیت پر بھی سوال اٹھنے لگ گئے ہیں۔
اس صورتحال میں جب ملک کی اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں ابھی عمران خان کو اقتدار سے الگ کرنے کے کسی موڈ میں نہیں ہیں۔ پھر بھی یہ بھی حقیقت ہے کہ اپوزیشن اب یہ محسوس کر رہی ہے کہ آرام سے مزید گھر میں نہیں بیٹھا جا سکتا۔ یہ درست ہے کہ مولانا فضل الرحمن جو چاہتے ہیں وہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن پھر بھی اپوزیشن کو کوئی درمیانہ راستہ تلاش کرنا ہوگا تاکہ اپوزیشن کا ایک فعال کردار نظر آئے۔ یہ درست ہے کہ مولانا ایک دفعہ پھر ایک بڑا شو لگانے کے حق میں ہیں مگر پیپلزپارٹی اور ن لیگ دونوں ہی بڑے شو کے حق میں نہیں ہیں۔
اپوزیشن کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ عمران خان غیر مقبول ہو رہے ہیں، ان کی رائے میں عمران خان ابھی مزید غیر مقبول ہونگے۔ اور انھیں اس کا بھر پور موقع ملنا چاہیے۔ اس صورتحال میں مولانا فضل الرحمٰن اور اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے کیسے ممکن ہے۔
بظاہر مولانا یہ گلہ کرتے ہیں کہ جب انھوں نے آزادی مارچ کیا، اسلام آباد میں دھرنا دیا تو اپوزیشن کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ جب کہ دوسری طرف موقف ہے کہ مولانا نے جتنی مدد مانگی تھی اتنی کی گئی۔ لیکن اسلام آباد پہنچ کر انھوں نے چوہدریوں کے گھر پر مذاکرات کا جو سلسلہ شروع کیا۔
تب انھوں نے کسی کو اعتماد میں نہیں لیا اور اپنا مارچ ختم کرتے وقت بھی کسی کو اعتماد میں نہیں لیا، ان کے اور اپوزیشن کے درمیان جو کچھ طے تھا اس پر سب نے عمل کیا۔ تاہم آخر میں مولانا نے سولو فلائٹ کی۔ تب بھی ن لیگ اور پی پی پی نے مولانا سے کہا تھا کہ ابھی اس طرح کے مارچ کا وقت نہیں ہے۔ لیکن مولانا نہیں مانے۔ اور اسلام آباد پہنچ کر انھیں اندازہ ہوا کہ ساری ٹائمنگ غلط ہو گئی ہے۔ اس کے بعد مولانا نے لمبی خاموشی رکھی۔ اب وہ دوبارہ متحرک ہو گئے ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن نے اس صورتحال میں اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے ساتھ ملکر جارحانہ لائحہ عمل بنانے کی کوشش کی اور اپوزیشن کی چھوٹی جماعتوں کا ایک اجلاس بھی بلایا۔ لیکن اس اجلاس میں بھی اکثر جماعتیں مولانا کے ساتھ متفق نہیں ہوئی ہیں۔ مولانا نے گزشتہ انتخابات دینی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے لڑا تھا۔
لیکن اس کے فوری بعد یہ اتحاد ٹوٹ گیا۔ جماعت اسلامی نے مولانا کی پالیسیوں سے علیحدگی اختیارکر لی۔ اس بار بھی جب مولانا نے چھوٹی جماعتوں کو بلایا ہے تو جماعت اسلامی نے مولانا کے ایجنڈے کے ساتھ چلنے سے انکار کر دیا۔ جماعت اسلامی نے بھی یہی رائے دی کہ ابھی کسی فائنل راؤنٖڈ کا وقت نہیں ہے اس لیے انتظار کریں۔
اسی طرح اے این پی بھی کسی محاذ آرائی کے موڈ میں نہیں۔ ساجد میر تو کبھی محاذ آرائی کی سیاست نہیں کرتے۔ شیر پاؤ کی سیاسی طاقت بھی ایسی نہیں ہے کہ وہ محاز آرائی کی سیاست کر سکیں۔ بلوچ جماعتوں کے پاس بلوچستان سے باہر سیاسی طاقت نہیں ہے۔ اور بلوچستان میں سیاسی محاذ آرائی ممکن نہیں ہے۔ اسی طرح دیگر جماعتیں بھی ایسی نہیں ہیں جن کے ساتھ مل کر مولانا کوئی کھیل کھیل سکیں۔ جماعت اسلامی اور اے این پی کے سوا کسی اور سیاسی جماعت کے پاس ایسی سیاسی طاقت نہیں ہے۔ اطلاعات یہی ہیں کہ سب نے مولانا کو یہی کہا ہے کہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملائیں پھر ہی کھیل بنے گا۔ ان کے بغیر کھیل بنانا ممکن نہیں ہے۔
دوسری طرف دونوں جماعتیں مولانا کی گیم کھیلنا نہیں چاہتی ہیں۔ لیکن وہ مولانا کو ہاتھ سے جانے دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ کسی نہ کسی طرح مولانا کو ساتھ جوڑے رکھیں اور وقت گزاریں۔ مولانا کو سمجھائیں کہ وہ بے شک سخت باتیں کرتے رہیں لیکن وقت بھی گزاریں۔ حکومت کو غیر مقبول ہونے کا وقت دینے میں ہی سب کا فائدہ ہے۔
ابھی اسلام آباد پر چڑھائی کا کوئی وقت نہیں۔ ابھی حکومت گرانے کی ہر کوشش کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوگا۔ عمران خان کو ہیرو بننے کا موقع ملے گا۔ اگر ایمپائر ساتھ مل بھی جائیں تو عمران خان سیاسی شہید بن جائیں گے۔ اس طرح دوبارہ ایک میوزیکل چیئر شروع ہو جائے گی۔ اپوزیشن کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی رائے ہے کہ اس کا فائدہ عمران خان کو ہونے کے زیادہ امکانات ہیں۔
اب ایسا لگ رہا ہے کہ مولانا اور اپوزیشن کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان انڈر اسٹینڈنگ ہو گئی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ سب نے بیچ کا راستہ تلاش کر لیا ہے۔ اسی لیے رہبر کمیٹی کا اجلاس ہو گیا ہے۔ اور اپوزیشن کی مشترکہ اے پی سی کی تاریخ بھی آگئی ہے۔ کوئی نہ کوئی انڈر اسٹینڈنگ تو ہوئی ہے جس کے بعد بات آگے چلی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا انڈر اسٹینڈنگ ہوئی ہے۔ میری رائے میں اب جب کورونا کا زور ٹوٹ گیا ہے اور معمولات زندگی واپس آگئے ہیں۔ اب اپوزیشن کے پاس عوامی رائے عامہ کی مہم چلانے کا آپشن موجود ہے۔ ملک کے بڑے شہروں میں مشترکہ اپوزیشن بڑے بڑے عوامی اجتماعات کر سکتی ہے۔ مہنگائی، حکومتی نا اہلی اور دیگر ایشوز پر لوگوں کو باہر آنے کی دعوت دی جا سکتی ہے۔ اگر اس کوشش میں ایک دو بھی بڑے جلسہ اور ریلیاں ہو جاتی ہیں، جیسے لاہور کراچی پشاور میں بڑے جلسے ہو جاتے ہیں تو کھیل آگے چل سکتا ہے۔ پر امن جلسوں پر اپوزیشن کے درمیان بات طے ہو سکتی ہے۔
مولانا بھی اس پر مان سکتے ہیں اور ن لیگ اور پی پی پی کو بھی اس پر اعتراض نہیں ہے۔ رائے یہ بھی ہے کہ ان جلسوں اور ریلیوں میں اگر عوام کی تعداد زیادہ ہو گئی تو حکومت خود بخود دباؤ میں آتی جائے گی۔ ان جلسوں کا جواب دینے کے لیے عمران خان کے پاس ایک ہی راستہ ہوگا کہ وہ بھی عوامی اجتماعات کریں لیکن شاید ان کے لیے اس وقت ممکن نہیں ہوگا۔ ان کے لیے جوابی جلسے ممکن نہیں ہونگے۔ اس طرح دو تین جلسوں کے بعد عمران خان دباؤ میں آجائیں گے۔ اور کھیل بدل جائے گا۔