مسلم لیگ (ن) میں مفاہمت کا بیانیہ
مسلم لیگ (ن) کو توڑنے اور اس میں دراڑیں پیدا کرنے کی بھر پور کوشش کی جا رہی ہے لیکن تاحال ان کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے ہیں۔ ابھی تک جو نام سامنے آئے ہیں، وہ سیاسی لحاظ سے بہت کمزور ہیں۔
اگر کوئی یہ سوچ رہا ہے کہ عبدالقادر بلوچ اور سردار منصب ڈوگر کے اختلافات سے ن لیگ کو کوئی نقصان ہوگا تو اس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ اس سے تو مسلم لیگ (ن) کو نقصان ہونے کے بجائے فائدہ ہو گا۔ اختلاف کے بجائے اتحاد کی بات بنے گی۔
کیا مسلم لیگ (ن) میں نواز شریف کے مزاحمتی بیانیے کے حوالے سے کوئی اختلاف یا تحفظات موجود ہیں؟ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اختلاف اور تحفظات دونوں موجود ہیں لیکن قیادت کے لیے کوئی نام موجود نہیں۔ ڈرائنگ رومز کی بات ڈرائنگ رومز میں ہی ختم ہو جاتی ہے۔ ن لیگی مزاحمت کے بجائے مفاہمت چاہتے ہیں۔ لیکن بلی کے گلی میں گھنٹی کون باندھے کی مصداق مزاحمت کے مقابلے میں مفاہمت کا جھنڈا کون اٹھائے؟
میاں نواز شریف لڑائی کو اس نہج پر لے کر جا رہے ہیں جہاں سے واپسی مشکل نظر آتی ہے لیکن نواز شریف کو اندازہ ہے کہ جہاں سے واپسی نا ممکن ہو جائے وہیں سے کوئی راستہ بنے گا۔ اس سے پہلے راستہ بننا بھی مشکل ہے۔ وہ دن بدن دباؤ بڑھا رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا اس دباؤ کے نتیجے میں دوسرا فریق بات چیت پر رضامند ہو جائے گا؟ ابھی تک تو بات چیت شروع ہوئی ہے اور نہ ہی کوئی امکان نظر آ رہا ہے۔ البتہ عمران خان اور ان کی ٹیم اس ساری صورتحال پر بہت خوش ہے۔ عمران خان اور ان کی ٹیم کو بخوبی اندازہ ہے کہ ن لیگ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان فاصلے جس قدر بڑھتے جائیں گے۔
ان کے لیے اتنا ہی اچھا ہے۔ بات جتنی پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچے گی، اتنا ہی ان کا اقتدار محفوظ رہے گا۔ اس لیے تحریک انصاف کی کوشش ہو گی کہ لڑائی بڑھتی جائے۔ جلتی پر تیل چھڑکا جائے۔ ماحول کو ٹھنڈا نہ ہونے دیا جائے۔ جواب الجواب میں کھیل کو اس نہج پر لیجایا جائے کہ واپسی کے راستے ختم ہو جائیں۔ تحریک انصاف اور عمران خان کی پہلے دن سے یہی کوشش رہی ہے کہ وہ ملک میں ایسا ماحول بنائیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی واحد اور تنہا چوائس بن جائیں۔ ان کے علاوہ کوئی آپشن نہ رہے۔
تا ہم اس وقت حکومت اور مقتدر حلقوں کی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح ن لیگ میں اختلاف کی ایسی دراڑ پیدا کی جائے کہ ایسا لگے کہ ن لیگ نے ہی نواز شریف کے مزاحتمی بیانیہ کو مسترد کر دیا ہے، خواہش تو یہ ہے کہ گلی کوچوں سے بیانیہ مسترد کرنے کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ تما م ارکان اسمبلی بیک زبان نواز شریف اور اس کے بیانیہ سے اعلان لا تعلقی کر دیں۔ ہر طرف بغاوت کا منظر بن جائے۔ ساری مسلم لیگ (ن) ایک طرف ہو جائے اور شریف خاندان اکیلا رہ جائے۔ کاش ایسا ہو جائے لیکن ایسا ہوتا ممکن نظر نہیں آرہا۔
مسلم لیگ (ن) میں مفاہمت کا بیانیہ دو سال حاوی رہا ہے۔ دو سال مفاہمت نے مزاحمت کو ابھرنے نہیں دیا۔ پوری مسلم لیگ (ن) مفاہمت کے ساتھ کھڑی نظر آئی ہے۔ حکومت سے ایسے ایسے معاملات پر تعاون کیا گیا جن کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ حیرانی کی بات یہ بھی تھی کہ اس مفاہمت کی کوئی قیمت بھی نہیں تھی۔ مسلم لیگ (ن) اس مفاہمت کے عوض کچھ نہیں مانگ رہی تھی۔
بس سر تسلیم خم والی مفاہمت تھی۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ کسی کو مفت میں ملنے والی اس مفاہمت کی قدر نہیں تھی۔ حکومت اور اس کے حامی مفاہمت کے فوائد و ثمرات بھی سمیٹ رہی تھے اور مفاہمت کے داعیوں کو نشانہ بھی بنایا جا رہا تھا۔ ووٹ بھی لیے جا رہے تھے اور آنکھیں بھی دکھائی جا رہی تھیں۔ حمایت بھی لی جا رہی تھی اور کیس بھی بنائے جا رہے تھے۔ تعاون لیا جا رہا تھا لیکن تعاون کے جواب میں تضحیک کی جا رہی تھی۔ گالم گلوچ کی جا رہی تھی۔ ایک ماحول بنایا جا رہا تھا کہ مفاہمت والوں کو کسی کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہ چھوڑا جائے۔ فیٹف کی مثال سب کے سامنے ہے، ووٹ بھی لیے ذلیل بھی کیا دیگر بھی کئی مثالیں سب کے سامنے ہیں۔
میاں شہباز شریف نے مسلم لیگ (ن ) کے اندر مفاہمت کے جھنڈے کو بہت اٹھایا ہے۔ وہ مفاہمت کے داعی رہے ہیں۔ لیکن جواب میں ان کے ساتھ بھی اچھا سلوک نہیں کیا گیا۔ ان کو کیسز میں پھنسایا گیا، حمزہ شہباز، سلمان شہباز ہی نہیں ان کے گھر کی خواتین کو بھی کیسز میں پھنسایا گیا۔ جس کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) میں غصے والا ماحول بن گیا۔ ایک رائے بن گئی ہے کہ مفاہمت کا کوئی فائدہ نہیں ہے، آپ جتنی مرضی مفاہمت کر لیں، اس کا جواب مزاحمت سے ہی ملے گا۔ اس لیے اس وقت مسلم لیگ (ن) کے اندر مفاہمت کے حوالے سے شدید شکوک و شبہات موجود ہیں۔
اس لیے اگر اس وقت مسلم لیگ (ن) کے اندر مفاہمت کی آواز کو بلند کرنا ہے تو پھر ان قوتوں کو دوبارہ رابطے میں لانا ہوگا جوپہلے مفاہمت پر کام کرتی رہی ہیں۔ ورنہ مفاہمت کے نئے داعی ڈھونڈنا مشکل ہو گا۔ شاید اسی لیے ابھی تک کامیابی نہیں مل رہی ہے اور چھوٹے چھوٹے غیر سیاسی قسم کے ناموں پر گزارا کرنا پڑ رہا ہے۔
مفاہمت کا بوجھ اٹھانا سیاسی بونوں کا کام نہیں۔ یہ قد آور لوگوں کا کام ہے۔ ماضی میں ن لیگ کو زک اس وقت پہنچی جب چوہدری برادران نے اپنا راستہ الگ کیا۔ میاں اظہر تو اپنی سیٹ بھی نہیں جیت سکے تھے۔ اس لیے کھیل کو سمجھنے والے کھلا ڑی درکا رہیں۔
حکومت نے مفاہمت کے کئی سنہرے مواقعے ضایع کیے ہیں۔ جس کی وجہ سے مفاہمت کے بیانیہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے اور اب حکومت کو مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ آج مزاحمت کو جو پذیرائی مل رہی ہے، اس میں حکومت کی اپنی غلطیوں کا قصور ہے۔ شاید کوئی اب رسک لینے کے لیے تیار نہیں ہے۔