کاروباری طبقہ کاروبار کیسے کرے؟
عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ایسی اصلاحات کریں گے کہ ملک میں لوگ خود بخود ٹیکس دینے کے لیے تیار ہو جائیں۔ لیکن باقی تمام وعدوں کی طرح اس میں بھی اب تک مکمل ناکام ہوئے ہیں۔ شبر زیدی کو لائے لیکن وہ بھی اصلاحات کے آدمی نہیں نکلے۔ انھوں نے موجودہ نظام کو بہتر کرنے کی کوشش ضرور کی لیکن وہ ناکام ہو گئے کیونکہ وہ تحریک انصاف کی اندرونی سیاست اور اقتدار کے ایوانوں کی سازشوں کا شکار ہو گئے۔ یوں انھوں نے بیمار ہونے میں ہی عافیت جانی۔
عمران خان پہلے ہمیں سمجھاتے تھے کہ سابق حکمران چور ہیں۔ اس لیے لوگ ٹیکس نہیں دیتے۔ جب ملک میں ایماندار قیادت کا راج آئے گا تو لوگ خود بخود ٹیکس دینے لگیں گے۔ جب لوگوں کو یہ یقین آجائے گا کہ ان کی ٹیکس کی رقم چوری نہیں ہو گی تو لوگ ٹیکس دیں گے۔ سننے میں یہ باتیں بہت اچھی لگتی ہیں۔ ایک دفعہ تو ان پریقین کرنے کو بھی دل کرتا ہے۔
شاید ان پر پاکستان کے عوام نے یقین بھی کرلیا۔ دلائل دیے گئے کہ جب لوگ اس قدر چندہ دیتے ہیں، فراخدلی سے لوگوں کی مدد کرتے ہیں تو حکومت کو ٹیکس کیوں نہیں دیں گے۔ عوام کا اعتماد بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ ٹیکس لوگوں کی جیبوں سے نکل کر خود بخود قومی خزانہ میں پہنچ جائیں گے۔
لیکن عمران خان کے پہلے سال میں ایسا نہیں ہوا بلکہ ٹیکس کی رقم بہت کم ہو گئی۔ گزشتہ حکومتوں میں جو ٹیکس اکٹھا ہو رہا تھا عمران خان کی حکومت اتنا بھی اکٹھا کرنے میں ناکام ہو گئی۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ لوگ جتنا ٹیکس دے رہے تھے نئی حکومت کو انھوں نے اتنا دینا بھی مناسب نہیں سمجھا۔ محصولات کی شرح میں خطرناک حد تک کمی نے حکومت کو بند گلی میں پہنچا دیا۔
بجلی گیس پٹرول مہنگا کرنے کے سوا کوئی حل ہی نہیں تھا۔ آخر حکومت بھی تو چلانی ہے۔ جس کے نتیجے میں مہنگائی ہو گئی۔ آج کل حکومت سارا ملبہ کورونا وباء پر ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یعنی جو بھی ہوا ہے کورونا وباء کی وجہ سے ہوا ہے۔ معیشت گری ہے توکورونا کی وجہ سے ہے۔ ٹیکسوں میں کمی آئی ہے کورونا کی وجہ سے لیکن حقیقت یہ ہے کہ سب کچھ کورونا وباء کی آمد سے پہلے ہی گر چکا تھا۔ اب تو کورونا کے پیچھے چھپنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اب پاکستان میں ایک ماحول بن گیا ہے کہ کورونا ختم ہو گیا ہے۔ میں اس بحث میں نہیں جانا چاہتا کہ ختم ہوا کہ نہیں۔ کیسے ختم ہوا۔ لیکن بہر حال حکومتی بیانیہ یہی ہے کہ کورونا ختم ہو گیا ہے۔ اس لیے معمولات زندگی دوبارہ شروع کرنے کا وقت آگیا ہے۔ کاروبار کھولے جا رہے ہیں۔ زندگی کا پہیہ دوبارہ چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایسے میں پتہ نہیں کیوں لیکن ٹیکس حکام بھی اپنی چھریاں کانٹے تیز کر کے مارکیٹ میں آگئے ہیں۔
محکمہ ٹیکس کے اندر ایک غیر معمولی تیزی نظر آرہی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ کورونا کی وجہ سے وہاں بھی چھ ماہ بہت مندی کا رحجان رہا ہے اس لیے افسرشاہی نے فوری ریکوری کے لیے ٹیمیں مارکیٹ میں نکال دی ہیں۔ ابھی لوگوں نے کاروبار زندگی شروع ہی نہیں کیا ہے اور ٹیکس والا پہنچ گیا ہے۔
جب ان سے پوچھا جائے کہ بھائی ملک کے حالات دیکھیں۔ تو وہ کہتے ہیں آپ کو نہیں معلوم حکومت کا بہت دباؤ ہے ٹیکس اکٹھا کرناہے۔ اگر ہم نے ٹارگٹ پورے نہ کیے تو آئی ایم ایف قرضے کی قسط نہیں دے گا۔ اس لیے ہم پر بہت دباؤ ہے۔ آپ کو مشورہ ہے کہ بس بچ کر رہیں، کہیں آپ زد میں آگئے تو بہت ٹیکس پڑ جائے گا۔ ایک تو حکام کے پاس تین سال تک کے ٹیکس ریٹرن کھولنے کا اختیار موجود رہتا ہے۔
انھیں سمجھائیں کہ اس سال تو کورونا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس سال نہیں پچھلے سال والی ریٹرن پر بہت اعتراض ہیں۔ آپ کا ٹیکس دوگنا بن رہا ہے۔ آڈٹ میں کیس جا رہا ہے۔ افسران پر بہت دباؤ ہے۔ جلدی سے نذرانہ پیش کریں۔ ورنہ لمبا چوڑا ٹیکس دینا ہو گا۔ لوگوں کو ڈرایا جا رہا ہے۔ ان کی جیبوں سے مال نکلوانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کوروناکے بعد لوگ جونہی اپنے اپنے کاروباروں پر پہنچے ہیں۔ ٹیکس حکام کی شکل میں ایک اور مشکل ان کے سامنے کھڑی ہے۔
میرے ایک دوست جو ایک درمیانے درجے کے کاروباری ہیں۔ ان کے ساتھ ایسا ہی ہوا ہے۔ کورونا کے بعد ایک بڑی رقم کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ انھوں نے اپنی حسب استطاعت رقم پیش بھی کی ہے لیکن سرکاری بابو کا موڈ خراب ہو گیا اور غصیلہ پیغام بھجوایا ہے کہ اتنا کم "یہ یہ"پیش کر کے آپ نے میری توہین کی ہے۔ اب اس توہین کی بھی سزا ملے گی۔ دوست بہت پریشان ہے۔ اس کی تین سال قبل کی ریٹرن تین سال ختم ہونے سے دو دن پہلے مسترد کر کے اسے کئی گنا ٹیکس ڈال دیا گیا ہے۔ اور خبردار کیا جا رہا ہے کہ ابھی دو سال صاحب کی میز پر موجود ہیں۔ دیکھ لیں۔ ابھی وقت ہے ورنہ بہت مشکل میں پھنس جائیں گے۔ ہم تو بینک اکاؤنٹس سے بھی رقم نکال کر وصول کر سکتے ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ ٹیکس گزار کے لیے سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ کسی افسر یا اہلکار کی زیادتی کے خلاف اپیل بھی ایف بی آر ہی سنتا ہے۔ کئی بار تو سینئر افسر کے خلاف اپیل ایک جونئیر افسر سن رہا ہوتا ہے۔ ایسے معاملات کے بارے میں ہی پنجابی زبان میں ایک ضرب المثل ہے کہ بھینسیں بھینسوں کی بہنیں ہوتی ہیں۔ ویسے تو ملک میں ایک ٹیکس محتسب موجود ہے۔ لیکن ٹیکس محتسب ٹیکس معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتا۔ آپ وہاں تب ہی درخواست دے سکتے ہیں جب تک آپ یہ نہ کہیں کہ ایف بی آر کا فلاں افسر مجھ سے رشوت مانگ رہا ہے۔ میں نے تو ابھی تک کوئی ایسا کیس نہیں دیکھا جس میں ٹیکس محتسب نے جن افسران کے خلاف لکھ کر ایف بی آر کو بھیجا ہے ان پر کبھی کوئی ایکشن ہوا ہو۔ اس لیے عملی طور پر ٹیکس محتسب کا دفتر بھی بے اثر ہو چکا ہے۔ جب تک اس کو طاقت اور اختیارات نہیں دیے جاتے۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
ایک خبر آئی ہے کہ ایف بی آر میں خود احتسابی کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ اور مختلف شکایات پر 72افسران کے خلاف کارروائی شروع کر دی ہے۔ میں سمجھتا ہوں یہ کچھ بھی نہیں ہے۔ صرف حکومت کو افسر شاہی کی جانب سے گمراہ کرنے کی ایک اور کوشش ہے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ نیب نے بھی آج تک ایف بی آر کے کسی افسر کو نہیں پکڑا ہے۔ کیا آمدن سے ز ائد اثاثوں کا کیس اس محکمہ کے افسران کے خلاف نہیں بن سکتا۔
یہ خود ہی اپنی ریٹرن جائز قرار دیتے رہتے ہیں۔ کس کو نہیں معلوم کہ کسی افسر کا بیٹا باہر کہاں پڑھ رہا ہے۔ کون فارم ہاؤس بنا رہا ہے۔ کس نے باہر کیا سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ یہ سب باتیں زبان زد عام ہیں۔ لیکن ٹیکس افسر شاہی کی خوبصورتی یہی ہے کہ یہ اپنے اوپر بات آنے ہی نہیں دیتی۔ اس حکومت نے متعدد ایف بی آر کے چیئرمین تبدیل کیے ہیں۔ لیکن کچھ نہیں ہوا۔ ہر دفعہ چیئرمین کی ہی قربانی ہو جاتی ہے۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوگا۔ کیونکہ افسر شاہی حکومت کو بیوقوف بنانے میں اب بھی کامیاب ہے۔ اور یہ کامیابی جاری ہے۔