کراچی کا مقدمہ ؟
حالیہ بارشوں کے بعد کراچی کے حالات سب کے سامنے ہیں۔ کراچی ڈوب گیا۔ بجلی کا نظام درہم برہم ہوگیا۔ لوگوں کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہو گیا۔ میں مان لیتا ہوں کہ کراچی میں بہت بارش ہوئی ہے۔ کراچی اتنی بارش کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں 200ملی میٹر بارش ہوئی ہے۔ اور ان کی حکومت اب ایسے منصوبوں کے بارے میں سوچ رہی ہے جن سے ایسی طوفانی بارشوں کے پانی سے کراچی کو محفوظ کیا جا سکے۔
مراد علی شاہ نے اعتراف کیا ہے کہ کراچی کے پاس ایسی طوفانی بارشوں سے نبٹنے کے لیے نالے اور دریا موجود تھے۔ تاہم گزشتہ سالوں میں ان نالوں اور دریاؤں پر رہائشی کالونیاںبن گئی ہیں۔ ان پر ناجائز قبضے ہو چکے ہیں۔ حالانکہ قبضہ تو ہوتا ہی ناجائز ہے۔ جائز قبضہ کی کوئی مثال نہیں ہے۔ تاہم پھر بھی ان قبضوں کی وجہ سے آج کراچی میں بارش کے پانی کا نکاس ایک بہت بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ مراد علی شاہ کا موقف ہے کہ ان کے پاس ایک حل تو یہ ہے کہ وہ ایک بلڈوزر پکڑیں اور یہ تمام رہائشی کالونیاں اور قبضے ختم کر دیں۔ لیکن ان کو فکر ہے کہ اس سے بہت بڑی تعداد میں لوگ بے گھر ہو جائیں گے۔ اس لیے وہ بلڈوزر چلانے کے حق میں نہیں ہیں۔
انھیں یہ بھی ڈر ہے کہ اس سے ان قبضوں والی جگہ پر ہونے والی بڑی سرمایہ کاری بھی ڈوب جائے گی اور سرمایہ کاروں کا بھی نقصان ہو جائے گا۔ مراد علی شاہ کا موقف ہے کہ ان قبضوں اور سرمایہ کاری کو برقرار رکھتے ہوئے بارش کے پانی کو نکالنے کے لیے نئے نالے بنانے کے منصوبوں پر کام کیا جائے گا۔ پرانی ناجائز سرمایہ کاری کو تحفظ دیتے ہوئے نئی جائز سرمایہ کاری کی جائے گی۔
یہاں یہ بات بھی حقیقت ہے کہ بارش کے اس پانی کو نکالنے کے لیے سندھ حکومت نے بہت کام کیا ہے۔ اس پانی سے ہونے والی تباہی اپنی جگہ۔ اس پانی کا کھڑا ہونا اپنی جگہ۔ لیکن اس پانی کو نکالنے کے لیے مراد علی شاہ نے جس طرح دن رات محنت کی ہے اس کے لیے ان کی تعریف کی جانی چاہیے۔ باقی گزشتہ دس سال میں نہیں بلکہ گزشتہ بیس سال میں کراچی کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے وہ اپنی جگہ ہے۔ لیکن اگر مراد علی شاہ اس پانی کے آنے کے بعد اپنے دفتر میں بیٹھے رہتے تو شاید دس دن بھی پانی کھڑا رہتا۔ اس لیے مراد علی شاہ کے دور وزارت اعلیٰ اور پی پی پی کے مجموعی دور میں کراچی کے ساتھ ہونے والی زیادتیاں اپنی جگہ لیکن اس طوفانی بارش کے پانی کو نکالنے کے لیے ان کی ٹیم کی محنت اپنی جگہ۔
کراچی آج جس حالت میں ہے یہ ایک دن میں نہیں ہوا۔ اس کے لیے کوئی ایک ذمے دار نہیں ہے۔ سب لوگ کہہ رہے ہیں کہ دس سال سے پی پی پی کی سندھ میں حکومت ہے۔ دیکھیں دس سال میں پی پی پی نے کراچی کا کیا حال کر دیا ہے۔ یہ دلیل غلط نہیں ہے۔ دس سال میں پی پی پی نے جان بوجھ کر کراچی کے ساتھ سوتیلی اولاد کا سلوک کیا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان تمام جرائم سے ایم کیو ایم کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کراچی کے نالوں پر آج جو قبضے ہیں کیا ان سے ایم کیو ایم کی قیادت اور سیکٹرکمانڈرز کو بری الذمہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ پی پی پی کے دس سالوں میں کتنے سال ایم کیو ایم شریک اقتدار رہی ہے اور پھر ایم کیو ایم تو مشرف دور میں بھی کراچی میں شریک اقتدار رہی ہے۔ کیا مشرف دور میں سندھ کا وزیر اعلیٰ بننے کے لیے نائن زیرو کا آشیر باد ناگزیر نہیں تھا۔ کیا مشرف دور میں کراچی پر ایم کیو ایم کی بلا شرکت غیرے حکومت نہیں تھی۔
کیا ایسا کوئی فرانزک آڈٹ کیا جا سکتا ہے کہ کراچی کے ان نالوں اور دریاؤں پر کتنے قبضہ پی پی پی کے دورمیں ہوئے اور کتنے قبضے مشرف دور میں ہوئے۔ لیکن ایسا فرانزک آڈٹ کیونکہ کسی بھی سیاسی مفاد میں نہیں ہے اس لیے ممکن بھی نہیں ہے۔ اسی طرح کیا یہ فرانزک آڈٹ بھی ممکن ہے کہ ان قبضوں میں کتنے کس کس سیاسی سرپرستی کی وجہ سے ممکن ہوئے۔ ایم کیو ایم نے کتنے قبضے کروائے ہیں۔ لیکن یہ بھی شائد ممکن نہیں ہے کیونکہ ایم کیو ایم آج پھر مرکز میں شریک اقتدار ہے۔ ایم کیو ایم کے لیڈر اکثر گیدڑ بھبھکیاں لگاتے ہیں کہ اگر وہ حکومت سے نکل جائیں تو حکومت ختم ہو جائے۔ حالانکہ زبان زد عام ہے کہ نہ تو وہ اپنی مرضی سے حکومت میں شامل ہوئے ہیں اور نہ ہی اپنی مرضی سے حکومت سے نکل سکتے ہیں۔ لیکن پھر بھی کہنے میں کیا حرج ہے۔
ایم کیو ایم نے کراچی کے وسیع تر مفاد میں تحریک انصاف کی حکومت سے اتحاد کیا تھا۔ کہاں ہے وہ وسیع تر مفاد۔ وفاقی وزیر علی زیدی کی تمام تر کاوشیں اپنی جگہ۔ لیکن کراچی کی صفائی کے لیے جس طرح وہ چندہ مانگ رہے تھے اس سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ کراچی کی صفائی کوئی وفاقی حکومت کی نہیں بلکہ علی زیدی کی ذاتی کاوش ہے۔ ویسے تو جہانگیر ترین ایم کیوایم سے معاملات طے کرنے کے لیے فوری کراچی پہنچ جاتے ہیں لیکن کراچی کی صفائی کے لیے انھوں نے بھی ایک روپیہ چندہ نہیں دیا ہے۔ علی زیدی کی چندہ مہم بھی مصنوعی ہی لگ رہی ہے۔
علی زیدی کراچی کی صفائی کے لیے وفاقی حکومت سے ایک مناسب گرانٹ اور وسائل حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن بغیر وسائل کے جس طرح وہ کراچی کی صفائی کے لیے نکل پڑے ہیں وہ یا تو ایک سیاسی اسٹنٹ ہے یا ایک ننھے وزیر کی ذاتی کاوش ہے۔ تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی عالمگیر خان بھی وزیر اعلیٰ سندھ کے دفتر پر کوڑا پھینک کر شہرت حاصل کرنے کے لیے تو بے تاب ہیں۔ لیکن ان میں بھی اپنی قیادت سے سوال کرنے کی جرات نہیں ہے کہ کراچی کے لیے جس بڑے پیکیج کے اعلانات کیے گئے تھے وہ کہاں ہیں۔ کہاںگئے وہ اعلانات جو تحریک انصاف نے کراچی کے مسائل حل کرنے کے لیے کیے تھے۔
اس وقت کراچی کی حالت پر بین کرنے اور ماتم کرنے کے لیے ایم کیو ایم اور تحریک انصاف میں کمال انڈر اسٹینڈنگ نظر آرہی ہے۔ دونوں میں تال میل بھی کمال ہے۔ دونوں پی پی پی پر پوائنٹ اسکورنگ کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے۔ گورنر سندھ عمران اسماعیل اور میئر کراچی وسیم اختر دونوں بارش میں اکٹھے شہر کے دورہ پر نکلتے ہیں اور پی پی پی کو کوسنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ کبھی کبھی تو شک ہونے لگتا ہے کہ وسیم اختر ایم کیوایم کے میئر ہیں یا تحریک انصاف کے۔ لیکن میئر وسیم اختر وسائل کی کمی اور اختیارات میں کمی کا نوحہ تو خوب پڑھتے ہیں۔ لیکن کبھی ان کے منہ سے یہ نہیں نکلا اگر پی پی پی کی صوبائی حکومت انھیں وسائل نہیں دے رہی تو وفاقی حکومت انھیں براہ راست گرانٹ دے دے۔
پی پی پی کو کراچی سے ووٹ نہیں ملتے۔ اس لیے کراچی کبھی پی پی پی کی ترجیح نہیں رہا۔ جیسے پنجاب میں آج کل جنوبی پنجاب کی حکومت ہے اور لاہور ان کی ترجیح نہیں ہے۔ اسی طرح اندرون سندھ کی حکومت کی کراچی ترجیح نہیں ہے۔ یہ درست نہیں ہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے۔
تاہم آجکل تو کراچی کا مینڈیٹ تو تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے پاس ہے۔ یہ دونوں کیا کر رہے ہیں۔ اس پر بھی تو سوال ہونا چاہیے۔ اگر ایک سال میں کراچی کو پیکیج نہیں ملا جس کا وعدہ تھا تو ایم کیو ایم کیوں ابھی تک حکومت میں بیٹھی ہے۔
کیا جس طرح صرف ماضی میں اقتدار کے لیے اتحادوں میں شمولیت کی جاتی رہی ہے۔ آج بھی تحریک انصاف کی حکومت میں شمولیت اس لیے ہے کہ خالد مقبول صدیقی اور فروغ نسیم کو وزارتیں ملی ہوئی ہیں۔ جیسے ماضی میں فاروق ستار اور بابر غوری کو مل جاتی تھی۔ نہ وہ کراچی سے مخلص تھے نہ یہ مخلص ہیں۔ اسی طرح تحریک انصاف بھی کراچی کے اپنے مینڈیٹ سے انصاف نہیں کر رہی۔ وہ کراچی کے ساتھ ویسے ہی سیاست کر رہے ہیں جیسے باقی سیاسی جماعتیں کرتی ہیں۔ آج تحریک انصاف بھی کراچی کے عوام کو اپنے سیاسی ہتھکنڈوں سے بیوقوف بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ کوئی بھی کراچی سے سنجیدہ نظر نہیں آرہا۔ یہی کراچی کا المیہ ہے۔