ریاست ماں کیوں نہیں بنتی؟
سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں جب عدلیہ بحالی کی تحریک پورے ملک میں چلی تھی تو تحریک کے ایک رہنما ایک نظم سنایا کرتے تھے کہ ریاست ہوگی ماں کے جیسی، مگر اس تحریک کے بعد پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) کے بعد پی ٹی آئی کی تیسری حکومت آگئی جس نے اپنے سوا دو سال بھی مکمل کر لیے۔
اس دوران تین نگران حکومتیں بھی آئیں مگر کوئی بھی حکومت ماں تو کیا بنتی سوتیلی ماں بھی بن کر نہ دکھا سکی اور تین تین بار باریاں مکمل کرنے والی سابق حکومتوں کے بعد پی ٹی آئی کی پہلی بار قائم ہونے والی موجودہ حکومت سے عوام کو بہت زیادہ توقعات تھیں کہ وہ اپنے بلند و بانگ دعوؤں کے باعث واقعی ماں بن کر دکھائے گی اور عوام دوستی کا پہلا ریکارڈ قائم کرے گی کیونکہ پی ٹی آئی چیئرمین کی شہرت ایماندار رہنما کی تھی جو یہ دعویٰ کرتے تھے کہ سربراہ دیانت دار اور عوام کا خیرخواہ ہوگا تو ہی ملک میں تبدیلی اور خوشحالی آئے گی۔
ملک میں سوا دو سال قبل نئی حکومت تو آگئی تھی جس کا دعویٰ تھا کہ وہ تبدیلی کے لیے آئی ہے اور تبدیلی آگئی ہے مگر تبدیلی صرف یہ آئی کہ حکومتی سطح پر چہرے بدل گئے اور ایک ایسا وزیراعظم منتخب ہوا جسے صادق و امین قرار دیا گیا تھا۔
عمران خان کو صادق و امین قرار دے کر نئی حکومت کا حامی خود تو مدت مکمل کرکے ایسا گیا کہ کہیں ڈیم پر پہرا دیتا بھی نظر نہ آیا مگر پی ٹی آئی والوں کے پاس صادق و امین وزیر اعظم ہونے کا سرٹیفکیٹ ضرور آگیا تھا۔ نئے وزیر اعظم نے عوام کو بتایا تھا کہ ریاست کا سربراہ ایماندار اور ٹھیک ہوگا تو اوپر کرپشن نہیں ہوگی اور نچلی سطح تک کرپشن کا خاتمہ ہو جائے گا۔ حکمران اگر کرپشن کے خلاف ہوگا تو کرپشن کی نذر ہونے والی بہت بڑی رقم بچے گی جو خزانے میں جمع ہوگی تو خزانہ بھرے گا جس سے ملک اور عوام خوشحال ہوں گے اور ملک بھی ترقی کرے گا۔
پی ٹی آئی کے سربراہ بتاتے تھے کہ جب حکمران کرپشن کر کے اپنے خاندانوں کو نہایت دولت مند بنا لیتے ہیں تو عوام غریب رہ جاتے ہیں۔ ملک اور عوام پیچھے چلے جاتے ہیں اور کرپٹ حکمران کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہیں وہ بیرون ملک اپنی جائیدادیں بنا لیتے ہیں اور اپنی کرپشن سے ملک و قوم کو تباہ کرکے رکھ دیتے ہیں اور ماضی کے کرپٹ حکمرانوں کی وجہ سے ہی ملک اور عوام ترقی کرسکے نہ خوشحالی لائی جاسکی جس کی سزا عوام بھگت رہے ہیں اس لیے باریاں لینے والے کرپٹ حکمرانوں کو ہٹانا ضروری ہے اور پھر اگست 2018 میں مبینہ کرپٹ حکمرانوں کی جگہ اچھی شہرت کا حامل حکمران آگیا جس کا شدت سے انتظار تھا۔ عوام کو امید تھی کہ وزیر اعظم کی ایمانداری سے تبدیلی آئے گی۔ قومی خزانہ بھرے گا۔ ا
قربا پروری نہیں ہوگی ملک کی کابینہ چھوٹی ہوگی۔ دوست نوازی کا سلسلہ رک جائے گا۔ سابق حکمرانوں کے شاہی اخراجات ختم ہو جائیں گے۔ حکمرانوں کا پروٹوکول ختم اور ان کی سادگی کا دور دورہ ہوگا۔ ملکی خزانے کی بندربانٹ ختم ہوگی اور قومی خزانے کا صرف قانونی اور سوچ سمجھ کر استعمال ہوگا۔ غیر ترقیاتی اخراجات کے خاتمے سے ملک میں ترقیاتی منصوبوں پر کام ہوگا تو ملک و قوم کی کایا پلٹ جائے گی۔
سوا دو سال گزر گئے مگر ریاست ماں بنی نظر نہ آئی۔ وہی وسیع کابینہ، منصوبوں میں جاری کرپشن، اقربا پروری، جی حضوروں اور خوشامدیوں کی سرکاری عہدوں پر تعیناتی، بیرونی دوستوں کے لیے اہم سرکاری عہدے، ترجمانوں کی فوج کا نیا ریکارڈ، غیر ترقیاتی اخراجات کی بھرمار اور ملک میں پہلی بار مہنگائی اور بے روزگاری کے نئے ریکارڈ سے عوام کو یہ سبق ضرور مل گیا کہ کوئی ریاست ماں جیسی نہیں ہوسکتی۔
کیونکہ ریاست کا سربراہ باپ ہوتا ہے اور اگر باپ ہی نہ چاہے تو ریاست ماں کیوں بنے گی کیونکہ ماں نے گھر چلانا ہوتا ہے جب کہ باپ کو اپنے دوستوں اور پارٹی رہنماؤں کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے۔ باپ کو تو کسی وجہ سے کسی ریٹائرڈ کو 35 لاکھ ماہانہ دینے کا اختیار ہے مگر ماں کو تو دو لاکھ روپے میں گھر چلانا ہوتا ہے۔ ماں خود بھوکی اور نئے کپڑوں کے بغیر بھی رہ کر بچوں پال لیتی ہے۔ بچوں کی ضروریات کو اپنی ضروریات پر ترجیح دے کر ہی ماں بچوں کو خوش رکھ سکتی ہے کیونکہ وہ ماں ہوتی ہے۔
ریاست تب ہی ماں کا کردار ادا کرسکتی ہے جب وہ اپنے اخراجات پر قابو پانے کی صلاحیت کی حامل اور عوام دوست ہو۔ صرف مہنگائی و بے روزگاری کا احساس کرلینے سے ریاست ماں نہیں بن سکتی۔ ماں بننے کے لیے ریاست کو زبانی نہیں عملی طور پر کچھ کرکے دکھانا ضروری ہوتا ہے۔ یہاں تو باپ کے نوٹس لینے پر مہنگائی بڑھ اور اشیا غائب ہو جاتی ہیں جن کے مارکیٹ میں لانے کے لیے ریاست خود مہنگائی نہیں کرتی بلکہ پٹرول، بجلی و گیس کی قیمتوں میں ازخود کمی لا کر ہی ریاست ماں بن سکتی ہے۔ عالمی قیمتوں میں کمی کے باوجود عوام کو ریلیف سے محروم رکھنے والی ریاست کبھی ماں کا کردار ادا نہیں کرسکے گی۔