اسے بھی مرجانا چاہئے!
شکیب جلالی اردو شاعری کا بڑا نام ہیں، اصل نام سید حسن رضوی تھا، یکم اکتوبر 1934ء کو علی گڑھ کے قصبے جلال میں پیدا ہوئے، والد بدا یون میں ملازمت کرتے تھے اور یہ کسی ذہنی بیماری کا شکار تھے، گھر کا ماحول اکثر تناؤ کا شکار رہتا تھا، شکیب جلالی کی والدہ ساری زندگی یہ کشمکش برداشت کرتی رہیں لیکن زندگی کے آخری ایام میں یہ جنگ ہار گئیں، وہ گھر سے نکلیں، ریلوے لائن پہنچیں اور ٹرین کے آگے لیٹ کر خود کشی کر لی۔
شکیب جلالی اس وقت دس سال کے تھے، انہوں نے اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ دس سال کی عمر میں یہ صدمہ دیکھا تھا اور یہ صدمہ ہمیشہ کے لیے ان کے ذہن پر نقش ہو گیا تھا۔ وہ ساری زندگی اپنی ماں کی المناک موت کے صدمے سے باہر نہیں نکل سکے، اسی دکھ اور صدمے نے انہیں شاعر بنا دیا تھا۔ یہ پندرہ سال کی عمر میں بڑے دردناک اشعار کہتے تھے اور ان کی شاعری نے بڑے بڑے شاعروں کو حیران کر دیا تھا۔
یہ قیام پاکستان کے بعد راولپنڈی منتقل ہو گئے، کچھ عرصے بعد لاہور شفٹ ہوئے اور یہاں سے جاوید نام کا ایک رسالہ نکالنا شروع کر دیا۔ رسالہ نہ چل سکا تو یہ ایک اخبار میں ملازم ہو گئے اور آخر میں تعلقات عامہ کے محکمے میں ملازمت مل گئی۔ ملازمت کے بعد یہ سردگودھا شفٹ ہوئے، یہ یہاں بھی مطمئن نہیں تھے، والدہ کی خودکشی کا منظر ابھی تک ذہن سے محو نہیں ہوا تھا، یہ ایک دن سرگودھا کی سڑکوں پر نکلے اور ریلوے لائن پہنچ گئے، یہ ٹریک پر بیٹھ کر خاموشی سے ٹرین کا انتظار کرنے لگے، ٹرین آئی اور شکیب جلالی نے ٹرین کے سامنے کود کر خودکشی کر لی۔ ایک باصلاحیت اور ابھرتا ہوا شاعر صرف بتیس سال کی عمر میں زندگی کی بازی ہار گیا۔
ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی اچانک موت بھی سماج کو افسردہ کر گئی، ایک باصلاحیت انسان کی موت شخصی المیے کے بجائے سماجی المیے کی داستان ہوتی ہے۔ ہمارے سماج میں انسان کم اور تماشائی زیادہ ہیں، تماشائی کا کام اپنی تفریح طبع کا سامان فراہم کرنا ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہاں ہجوم کسی "گناہگار" کو ڈھونڈتا ہے، اس پر پتھر اور ڈنڈے برساتا ہے اور پورا مجمع اس صورت حال کو "انجوائے" کرتا ہے۔
المیے کے شکار افراد کو موت کے کنویں کے طرف دھکیلا جاتا ہے اور جب وہ کنویں میں چھلانگ لگا دیں تو سماج مل کر نوحے اور فاتحہ پڑھنا شروع کر دیتا ہے۔ کوئی باصلاحیت انسان غلطی کر لے تو اس کے بارے ایسی فضا پیدا کر دی جاتی ہے کہ زندگی کی طرف واپسی کے راستے مسدود ہو جائیں۔
ہم کسی زندہ انسان کو جینے نہیں دیتے لیکن جب وہ مر جائے تو ہم اچھے، نیک، رحمدل اور خوش اخلاق انسان کی تمام صفات اس سے منسوب کر دیتے ہیں، مرنے کے بعد ہماری نظروں میں اس کے سارے عیب چھپ جاتے ہیں، وہ نیک بھی ہو جاتا ہے، اس کے اخلاق بھی اچھے ہو جاتے ہیں، وہ نماز روزے کا پابند بھی ہو جاتا ہے، اسے معاشرت بھی آ جاتی ہے، وہ صدقہ خیرات بھی کرنے لگتا ہے، اسے بڑے چھوٹوں سے بات کرنے کا سلیقہ بھی آ جاتا ہے اور اسے زندگی گزارنے کا ڈھنگ بھی آ جاتا ہے۔
مرنے کے بعد وہ انتہائی شریف اور سلجھا ہوا انسان بن جاتا ہے، وہ کبھی کسی سے لڑائی جھگڑا نہیں کرتا، کسی کو گالی نہیں دیتا، کسی کو بُرا نہیں کہتا، کسی سے اونچی آواز میں بات نہیں کرتا، بچوں کے ساتھ نرمی سے پیش آتا ہے، گھر میں سب کی آنکھوں کا تارا ہوتا ہے، خاموش مزاج اور اپنے کام سے کام رکھنے والاہوتا ہے۔
وہ بڑوں کے سامنے کبھی اُف تک نہیں کہتا، اپنے سینئرز کے سامنے ہمیشہ خاموش رہتا ہے، ہمیشہ وقت پر پہنچتا ہے، آفس میں بھی اپنے کام سے کام رکھتا ہے، نماز کے وقت فوراً مسجد پہنچ جاتا ہے۔ مرنے کے بعد روزانہ قرآن کی تلاوت اس کا معمول بن جاتا ہے، اس کا اخلاق بہت اچھا ہو جاتا ہے، وہ دوسروں کا ہمیشہ خیال رکھتا ہے، دوسروں کے کام بھی خود کر دیتا ہے اور آفس میں چائے بھی خود بناتا ہے۔
وہ اپنا اکثر وقت کتابیں پڑھنے میں صرف کر تا ہے، ہمیشہ نئی کتابوں کے بارے میں متجسس رہتا ہے، اپنی تنخواہ کا دس فیصد کتابیں خریدنے پر خرچ کرتا ہے، چوری چھپے صدقہ خیرات بھی کرتا رہتا ہے، محلے کے غریب اور یتیم بچوں کا بہت خیال رکھتا ہے۔ غصہ تو اسے آتا ہی نہیں، اس کی زبان بہت میٹھی ہوتی ہے، جھوٹ سے اسے شدید نفرت ہوتی ہے اور وہ شخص جو مرنے سے پہلے ہماری نظروں میں دنیا کا سب سے گناہگار شخص ہوتا ہے مرنے کے بعد وہ کنفرم جنتی بن جاتا ہے۔
افسوس اور دکھ مگر یہ ہے کہ زندہ ہونے کی صورت میں ہم اسے انسان ماننے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے اور وہ دنیا کا بدترین انسان ہوتا ہے۔ دنیا کے سارے عیب اس کی ذات میں جمع ہوتے ہیں، محلے اور گھر کا ہر فرد اس سے تنگ نظر آتا ہے، بہن بھائی اس سے نالاں نظر آتے ہیں، آفس کے سب لوگوں کو اس سے تکلیف ہوتی ہے، اسے زندگی گزارنے کا ڈھنگ بھی نہیں آتا اور وہ انتہا درجے کا بد اخلاق اور خود غرض انسان بھی ہوتا ہے۔
یہ کیا ہے، کیا یہ ثابت نہیں کرتا کہ بنیادی طور پر ہم ایک مردہ پرست قوم ہیں، ہمیں زندہ انسان اچھے نہیں لگتے، جب تک ہمارے عزیز، دوست اور رشتہ دار زندہ ہوتے ہیں ہمیں ان کے اچھے کام بھی بُرے دکھائی دیتے ہیں اور ہماری کوشش ہوتی ہے کہ حتی الامکان اس میں کیڑے نکالے جائیں، ہم میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں ہوتی کہ ان کے اچھے کاموں پر ان کی تحسین کر سکیں لیکن جیسے ہی ان کی وفات ہوتی ہے ہماری ساری ہمدردیاں جاگ اٹھتی ہیں اور تب ہمیں ان کو فرشتہ ڈکلیئر کرنے میں بھی کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔
ہماری منافقت کی انتہا دیکھیں کہ ہمیں چلتے پھرتے اور زندہ انسان اچھے نہیں لگتے لیکن جب یہ چھ فٹ زمین کے اندر چلے جاتے ہیں تب ہماری ساری ہمدردیاں جاگ اٹھتی ہیں اور بالفرض اگر یہ لوگ قبروں سے اٹھ کر دوبارہ آ جائیں ہم پھر ان کے ساتھ وہی رویہ اختیار کریں۔
ہمارا یہ رویہ صرف ذاتی زندگی تک محدود نہیں بلکہ ہم نے اپنے قومی ہیروز کے ساتھ بھی یہی کیا، ارفع کریم سے ڈاکٹر عبدالقدیر تک یہی داستان پھیلی ہوئی ہے، ہم زندہ لوگوں کی قدر نہیں کرتے اور جب وہ مر جاتے ہیں ہم ان کی قبروں پر گنبد اور مزار بنا کر انہیں پوجنا شروع کر دیتے ہیں، کیا یہ ثابت نہیں کرتا کہ ہم ایک مردہ پرست قوم ہیں۔
سوال یہ ہے اگر مرنے والا واقعی اچھا انسان تھا تو ہم اس کی زندگی میں اسے یہ مقام کیوں نہیں دیتے، اس کی تعریف میں دو لفظ کہتے ہوئے ہماری زبان کیوں دکھتی ہے اور ہمارے الفاظ کیوں خاموش ہو جاتے ہیں۔ کیا یہاں خود کو انسان ثابت کرنے کے لیے بھی مرنا ضروری ہے اور کیا سماج میں اپنا جائز مقام ڈھونڈنے کے لیے چھ فٹ زمین کے نیچے دفن ہونا ضروری ہے۔
مرنے کے بعد ہر کوئی تعریف کرتا ہے لیکن سامنے کھڑے عزیز، دوست، کولیگ یا رشتہ دار کی تعریف کرنا اصل کام ہوتا ہے، یہ اصل میں بڑا پن اور انسانیت کا احترام ہوتا ہے۔ اگر ہم یہ نہیں کر سکتے تو پھر مرنے کے بعد بھی ہمیں کسی اعتراف اور منافقت کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے کیونکہ ایسی انسانیت جو کسی کے مرنے کے بعد جاگے اسے بھی مر جانا چاہئے۔