روایت اور جدیدیت
دور جدید میں روایت اور جدیدیت کا سوال اہم ہے۔ اہل تجدد کے نزدیک روایت خالی از معنی اصطلاح ہے۔ استدلال یہ ہے کہ کوئی بھی موجود اور چلی آنے والی روایت کو بعینہ قبول نہیں کرتا بلکہ اصل مآخذ کی روشنی میں موجود روایت کی اصلاح وترمیم یا اضافہ کی بات کرتا ہے۔ اصل مآخذ کیا ہیں اور کیا نہیں ہیں اور روایت کے کس حصے کو لینا ہے اور کس کو چھوڑنا ہے سب کے اپنے اپنے معیارات ہیں۔ نتیجتاً جدید دور میں روایت کا کوئی ایک واضح مفہوم موجود نہیں ہے۔
یہ خالی از معنی اصطلاحات ہیں جو حسب مفاد استعمال کی جا رہی ہیں۔ اس استدلال کا حاصل سوائے تشکیک کے اور کیا ہے۔ تشکیک کسی بھی علمی و فکری گفتگو میں آخری مورچہ ہوتا ہے جس سے بیک وقت دونتائج کشید کیے جاتے ہیں۔ مخاطب کے مؤقف کو خلط مبحث کا شکار کردینا، دوسرا اپنا کوئی واضح مؤقف اور پوزیشن اختیار کرنے کے بجائے بات کو مجہول بنا دینا۔ جہاں تک روایت کا تعلق ہے تو بنیادی اور اصل روایت ایک ہے جس کا نام "دین "ہے۔ پھر اس اصل روایت سے کئی ذیلی روایتیں وجود میں آئی ہیں۔ مثلاً مذہبی روایت، سماجی روایت، سیاسی روایت، علمی روایت اور ادبی روایت وغیرہ۔ ان ذیلی روایتوں میں ہمارا موضوع مذہبی روایت ہے۔
مذہبی روایت کے دو پہلو ہیں، ایک یہ کہ اس سے مرادفہم دین کا وہ منہج ہے جو نسل در نسل اور عہد بعہد ارتقا پذیر ہو کر مستحکم ہوا ہے۔ دوسرا یہ کہ اس سے مراد اسلامی علوم کا وہ مجموعی ذخیرہ یا" تراث" ہے جواب تک اس امت نے تخلیق کیا ہے۔ پہلے مفہوم کے مطابق روایت مخصوصــ نظریات کا نام نہیں کہ انہی کومن و عن آگے منتقل کیا بلکہ یہ فہم دین کاایک منہج ہے۔ اس منہج میں پہلے سے چلی آنے والی روایت کو اپنے عہد سے ہم آہنگ کرنا بھی شامل ہے۔
اگر روایت مخصوص نظریات کا نام ہوتا اور اس میں اپنے عہد سے ہم آہنگی پیدا کرنے کی لچک نہ ہوتی تو یہ روایت اسلام کے ابتدائی عہد سے آگے بڑھ ہی نہ سکتی۔ پھر اس میں عقائد کی تفہیم میں ایک مرکزی منہج ہے اور فروعیات کے باب میں اس کی کچھ ذیلی شاخیں ہیں۔ عقائد کے باب میں اس امت کے فہم دین کا منہج ہمیشہ ایک ہی رہا ہے۔ فروعیات کے باب میں اس مرکزی منہج سے ہر عہد میں مزید شاخیں بنتی رہی ہیں۔ مثلا موجودہ عہدمیں فروعیات کے فہم میں دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث کے عنوان سے الگ الگ روایتیں موجود ہیں۔
ممکن ہے ماضی میں یہ ذیلی روایتیں کسی اور عنوان سے موجود ہوں یا یہ تینوں روایتیں ایک ہی عنوان سے پنپ رہی ہوں۔ اس روایت کے اصل ماخذ ات اصحاب رسول، تابعین، تبع تابعین اور آئمہ اربعہ کا فہم دین ہے۔ پھر ان حضرات کے فہم دین کے پیش نظر بعد میں آنے والوں نے جو منہج اختیار۔ اس منہج کے اصول و ضوابط اصول فقہ اور علم الکلام نے طے کیے ہیں۔ میں دیوبندی روایت کا حصہ ہوتے ہوئے جب روایت کی بات کرتا ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں مرکزی روایت کا حصہ ہوتے ہوئے فروعیات کے باب میں دیوبندی اہل علم کے فہم دین کی بات کر رہا ہوں۔
اسی طرح ایک بریلوی یا اہل حدیث کی حیثیت سے جب میں روایت کی بات کروں گاتو اس کا مطلب بھی واضح ہوگا۔ اس روایت کے اصل ماخذات نہ تو "شذوذ" آراء ہیں نہ ہی اپنے عہد کے تاثر کے زیر اثرفہم دین کا منہج اس روایت میں شامل ہے۔ استعمار کی گود میں بیٹھ کردین کو چیستان بنانا تو ہرگز اس روایت کا منہج نہیں۔ نہ ہی کسی عہد کے حاکم، ذاتی خواہشات یا ثقافتی مظاہر کے کچھ نئے مطالبات کو اصول مان کر دین کوبتکلف ان مطالبات کے سانچے میں ڈھالنے کو یہ روایت قبول کرتی ہے۔
اب ہم روایت کے ددسرے پہلو پر بات کر لیتے ہیں۔ اس پہلوکے مطابق روایت اسلامی علوم کا وہ مجموعی ذخیرہ یا تراث ہے جواب تک اس امت نے تخلیق کیا ہے اور یہ مفہوم جدیدیت کا متضاد ہے۔ روایت کے اس پہلو پر بات کرنے سے پہلے لازم ہے کہ جدیدیت کے مفہوم کو واضح کیاجائے۔ جدیدیت اپنی اصل میں مغربی اصطلاح ہے، اس اصطلاح کے مطابق جدیدیت نئے علوم، تصورات اور ٹیکنالوجی کا نام ہے اور جدیدیت کا یہ تصور مابعد الطبیعات اور مذہب کے انکار پر قائم ہے۔ جدیدیت کے اس تصور کی عمر چند صدیوں سے زیادہ نہیں۔
جدیدیت کے اس مفہوم کو قبول کرنے سے قبل ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ انسانی سماج ہر عہد میں نئے علوم، افکار، تصورات اور نئی ٹیکنالوجی تخلیق کرتا آیا ہے۔ انسانی تہذیب آج ترقی کے جس اوج ثریا پر کھڑی ہے یہ انسانوں کے اجتماعی شعور اور تہذیبوں کی اجتماعی ریاضتوں کا نتیجہ ہے۔ اس اجتماعی شعور اور ریاضتوں میں سب سے زیادہ حصہ مسلم تہذیب اور مسلم شخصیات کا ہے۔ اس لیے نئے علوم، تصورات، افکار اور ٹیکنالوجی کو اگر جدیدیت کے مغربی مفہوم کے بجائے اسے انسانیت کے اجتماعی شعور اور تہذیبوں کی اجتماعی کا وشوں کے تناظر میں دیکھا جائے توہمیں ان سے اتنی وحشت نہ ہو۔
آج ہم نے نئے علوم، افکار اور تصورات کوجدیدیت کا مغربی پیرہن عطا کر اسے روایت کے مقابل لا کھڑا کیا ہے ورنہ اپنی اصل میں نئے علوم، افکار اور تصورات کچھ اتنے برے نہیں۔ اصل مسئلہ ان نئے علوم، تصورات اور افکار کو مخاطب بنانے والے رویے اور طرز فکر کا ہے۔ اگر ہم ان نئے علوم، تصورات اور افکار کو بنیاد بنا کر روایت کی تشریح کرتے ہیں تو یہ غلط رویہ اورغلط طرز فکر ہے اور اگر ہم روایت کو اصل مان کر ان علوم اور تصورات کو روایت کی روشنی میں سمجھنا چاہتے ہیں تویہ قابل قبول رویہ ہے۔
اگر ہم نئے علوم، تصورات، افکار اور ٹیکنالوجی کو مخاطب بناتے ہوئے ان سے تاثر میں ڈوب کر روایت میں بے جا اضافے کرتے چلے جاتے ہیں تو یہ غلط طرز فکر اورغلط رویہ ہے۔ اور اگر ہم ان کا جائز تاثر بھی نہیں لیتے اور انہیں یکسر نظر انداز کرکے محض روایت کو ہی گلے کا ہاربنا نا چاہتے ہیں تویہ بھی اسی شدت کا غلط رویہ اور غلط طرز فکر ہے۔ ان دونوں طرزہائے فکر میں اعتدال ہی روایت اور جدیدیت کا حسن ہے۔
ہمارے ہاں دونوں طرز کے رویے موجود ہیں، اہل تجدد نئے علوم، افکار اور تصورات کو اصل مان کر روایت کو اچکنے کی کوشش کرتے ہیں اور کہیں نئے علوم اور افکار کو سرے سے قابل اعتناء ہی نہیں جانا جاتا۔ اہل تجدد کا رویہ اس لیے زیادہ خطرناک ہے کہ وہ روایت کو ہی مشکوک بنا دیتے ہیں۔ اجتہاد روایت کو اپنے عہد کے علوم، تصورات اور افکار سے ہم آہنگ کرنے کانام ہے۔ روایت جب اپنے عہد کے علوم اور افکار ونظریات سے بعد محسوس کرتی ہے تو اس کے بطن سے ہی ایک نئے وجود کے آثار نمایاں ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
روایت اپنے قدیم پیرہن سے جدید پیرہن کا سفر کچھ اس طرح طے کرتی ہے کہ جدید و قدیم کا فرق کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ روایت کا قدیم ورژن اور اجتہاد دونوں مل کر روایت کے جسم میں نیا خون پیدا کرتے اور اس کی تروتازگی کا اہتمام کرتے ہیں۔ وہ اجتہاد جو روایت کے منہج سے ہٹ کر کیا جائے وہ غیرمتوازن ہوتا ہے اور روایت سے ہم آہنگ نہیں ہو پاتا۔ روایت اسے اپنے وجود سے نکال پھینکتی ہے۔
قصہ مختصر! روایت خالی از معنی اصطلاح نہیں بلکہ یہی اصل اورمعانی کا جہان ہے۔ یہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہے اور کوئی سماج اپنی روایت کو نظر انداز کرکے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ رہی جدیدیت تو یہ مغربی سماج کا پیدا کردہ ایک ظاہرہ ہے جس کی عمر چند صدیوں سے زیادہ نہیں۔ ہمیں نئے علوم، افکار وتصورات اور جدیدیت کے مغربی مفہوم میں امتیاز کرکے ان دونوں کو الگ الگ مخاطب بنانے کی ضرورت ہے۔ نئے علوم اور افکار وتصورات سے تعامل میں اعتدال حسن ہے جبکہ جدیدیت انکار مذہب پر قائم ایک نظریہ ہے جس کا مکمل رد ضروری ہے۔