انتقال پر ملال!
انتہائی افسوس کے ساتھ اعلان کیا جاتا ہے کہ اپوزیشن جو پچھلے دو سال سے حالت نزع میں تھی، بجٹ کے دن انتقال کر گئی، انا للہ و انا الیہ راجعون۔
قیادت جو محلات میں جنم لے اور حادثاتی طور پر منظر عام پر آئے اس سے رومانس جوڑنے کا نتیجہ وہی نکلتا ہے جو گزشتہ دو سال سے نکل رہا ہے۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اپوزیشن کا موجودہ رویہ کس امر کا شاخسانہ ہے، یہ ان کی فطری صلاحیت اور محلاتی لیڈر شپ کا امتحان ہے یا یہ کسی ڈیل اور این آر او کی کارفرمائی ہے۔ اگر اول الذکرسبب ہے تو قابل فہم ہے کہ جاتی عمرہ کے فارم ہاؤس او ر ساحل سمندر پر واقع بلاول ہاؤس کے محلات سے سکندر اعظم اور نیلسن منڈیلانہیں نکلتے۔ اگرسبب ثانی الذکر ہے تو یہ اول الذکر سے زیادہ قرین قیاس ہے اور اس سے زیادہ باعث شرم بھی۔
لیڈر شپ اور قیادت محلات میں جنم نہیں لیتی، یہ سادہ اور غریب گھروں میں پرورش پاتی ہے، جھونپڑیوں میں پروان چڑھتی اور حوادث زمانہ کی بھٹی سے گزر کر کندن بنتی ہے۔ یہ محض دو چار دن کاکھیل نہیں بلکہ طویل اورکٹھن سفر ہے، راستے میں نشیب و فراز سے گزرنا پڑتا ہے، ہر روز ایک نئی مصیبت اور ہر شب ایک نیا طوفان۔ برسوں کی ریاضت اور تجربات سے کشید کی گئی دانش ایسی قیادت کااصل جوہر ہوتا ہے۔ جس قیادت نے محلات میں جنم لیا ہو اور اقتدار کی غلام گردشوں میں پروان چڑھی ہو اس سے ان صفات کی توقع رکھنا اور عزیمت کی امیدیں وابستہ کرنا ضرورت سے زیادہ خوش فہمی ہے۔ ایسی قیادت کے جو ہر اصلی میں ڈر، خوف، احتیاط، خاموشی، بے بسی اور بے حسی کے اوصاف نمایاں ہیں۔ ایسی قیادت سے جرائت، شجاعت اور بیانیے پر استقامت کی توقعات عبث ہیں، یہ حوادث زمانہ کے دو چار تھپیڑوں سے ہی سہم جاتی ہے، اسے دو چار دن جیل میں محبوس رکھا جائے تو مرجھا جاتی ہے۔ جب تک یہ ایوان اقتدار میں رہے ہنستی مسکراتی اور لہلاتی نظر آتی ہے، جیسے ہی آزمائش کا موسم شروع ہوتا ہے یہ چور دروازوں سے بھاگ نکلتی ہے۔ ایسی قیادت کی ترجیح عوام نہیں بلکہ اقتدار اور مفادات ہوتے ہیں۔ محترم خورشید ندیم اور میرے جیسے خوش فہم ایسی قیادت سے عزیمت کے توقعات وابستہ کر لیتے ہیں، سادہ لوح عوام بھی انہیں اپنا مسیحا مان لیتے ہیں مگر امتحان کے دنوں میں یہ قیادت نظر نہیں آتی۔ اس میں اتنا دم خم نہیں ہوتا ہے کہ نت نئے طوفانوں کا مقابلہ کر سکے، اقتدار کے نشیب وفراز کو سہہ سکے، غیر جمہوری رویوں کے خلاف ڈٹ جائے اور بیانیے پر استقامت دکھا سکے۔ محلاتی قیادت اور اصل قیادت میں حد فاصل یہی ہے۔
سکندر اعظم کے باپ فلپ نے بیٹے میں لیڈر شپ کی سپرٹ پیدا کرنا چاہی تو اس کی پرورش مقدونیہ کے محلات میں نہیں بلکہ شہر کے گلی محلوں میں کی، اس کی والدہ اولمپیاس نے ایتھنز شہر کے نو بہترین دانشوروں کا انتخاب کیا اور انہیں اسکندر کا اتالیق مقرر کر دیا۔ یہ سب مختلف میدانوں کے شاہسوار تھے، لا نیڈس جو نظم و ضبط کے حوالے سے مشہو ر تھا، اس کے ذمہ تھا کہ وہ اسکندر کو وقت کی پا بندی اور نظم وضبط سکھائے، وہ اسکندر کو صبح بیدار کر تا اور ایک تیز اوربہادر غلا م کے ساتھ دوڑ لگواتا، اس کی جاسوسی کے لیے خفیہ مخبر مقرر کیے گئے تھے، ذرا ہوش سنبھالا تو باپ نے ارسطو کی اکیڈمی میں بھیج دیا۔ اسکندر نے تین چیزوں کے ساتھ عملی زندگی میں قدم رکھا تھا، خنجر، پالتو گھوڑا اور قدیم یونانی شاعر ہو مر کی کتاب۔ عملی زندگی میں قدم رکھا تو ابتداء میں اسے فو ج کے ایک حصے کی کمان دی گئی، اس نے بہادری کے جو ہر دکھائے تو پوری فوج کی کمان اس کے سپرد کر دی گئی۔ جب قیادت کی تیاری شعوری طور پر کی جائے تب سکندر جنم لیتے ہیں اور اگر قیادت حادثاتی طور پر جنم لے یا موروثی طور پرکسی کے حصے میں آ جائے تو ایسی قیاد ت بلاول بھٹو اور شہباز شریف کے نام سے مطعون ہوتی ہے۔ کالم کی شروعات اپوزیشن کے انتقال سے ہوئیں تھیں بات لیڈر شپ کی طرف نکل گئی۔ آمدم بر سر مطلب، جمہوری ممالک میں اپوزیشن کا کردار حزب اقتدار سے زیادہ اہم ہوتا ہے، یہ اپوزیشن ہی ہوتی ہے جو حکومت کی غلط پالیسیوں کی نشاندہی اور عوامی امنگوں کی ترجمانی کرتی ہے، مضبوط اپوزیشن کے بغیر حکومتی پالیسیوں میں توازن برقرا ر نہیں رہتا۔ عوام پچھلے دو سالوں سے نت نئے طوفانوں کی زد میں ہیں، مہنگائی کا طوفا ن، آٹے کا طوفا ن، چینی کا طوفان، پٹرول کا بحران اور نہ جانے کیا کیا، ان اہم مواقعوں پر عوام اپوزیشن کو ڈھونڈتے رہے مگر اپوزیشن حالت نزع میں رہی، نزع کا عالم طویل ہوتا گیا اور بجٹ کے دن اپوزیشن طویل علالت کے بعدا نتقال کر گئی۔ اللہ مرحومہ کی مغفرت فرمائے اور اس ملک و قوم کو اس کے آثار اور باقیات صالحات سے محفوظ فرمائے۔
اللہ مغفرت فرمائے اس اپوزیشن میں کیسے کیسے نام تھے، شہباز شریف جو اکثر جوش خطابت میں مائیک توڑ دیا کرتے تھے، جو زرداری اور اس کے حواریوں کو گلیوں میں گھسیٹنے کے دعوے کیا کرتے تھے، آج کسی کونے کھدرے میں دبکے بیٹھے ہیں۔ ایک بطل جلیل رانا ثناء اللہ ہوا کرتے تھے، کیا طنطنہ تھا ان کی آواز میں، روایتی راجپوتوں کی سی گھن گرج، بڑی بڑی مونچھیں ان کے رعب و دبدبہ میں اضافہ کا باعث تھیں، وہ بھی راہی ملک عدم ہوئے۔ ایک اہم نام جبل استقامت اور صاحب عزیمت بزرگ حضرت العلام نواز شریف کا تھا، کسی دور میں ان کے بیانیے کا بڑا چرچا تھا، ملک کا دانشور طبقہ ان کے بیانیے اور عزیمت کی مثالیں دیا کرتا تھا، لوگ ان کے حق میں لکھتے تو محسوس ہوتا تھا امام احمد بن حنبل کی یاد تازہ ہو رہی ہے، آج مرحوم سات سمندر پار حوروں کے دیس میں انجوائے کر رہے ہیں، کیا عجب شخص تھے، اللہ ان کی باقیات صالحات سے اس ملک و قوم کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔
جرائت کی ایک عظیم نشانی محترمہ مریم نواز ہوا کرتی تھیں، مرحومہ اپنے والد کے بعدعزیمت اور استقامت کی آخری علامت تھیں، تن تنہا جلسوں میں کھڑے ہو کر حاکمان وقت کو للکارتی تھیں، ان کا بھی آخری وقت قریب آیا اور وہ راہی ملک رائیونڈ ہوئیں۔ طلال چوہدری، خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق، حنیف عباسی، حمزہ شہباز، احسن اقبال اور نہ جانے کیسے کیسے نام تھے۔ پیپلز پارٹی میں بھی بلاول بھٹو، رحمان ملک، قمر زمان کائرہ اور دیگر سرکرہ افراد تھے، سب مرحوم ہوئے۔ جمعیت کے مولانا فضل الرحمان جرائت، استقامت اور اپوزیشن کا آخری استعارہ تھے، کچھ عرصہ سے وہ بھی علیل ہیں، شاید حالت نزع میں ہیں، اللہ سے ان کی صحت یابی کی دعا ہے، سیاست میں ان کانقصان اور کمی صدیوں پوری نہیں ہو سکے گی۔
اپوزیشن کے انتقال کی خبر سے حزب اقتدار اور حواریوں کو مطمئن ہونے کی ضرورت نہیں، نہ انتقال کا یہ مطلب ہے کہ اقتدار کا ہما ان کے سر پر ہی تشریف فرما رہے گا، نہ ہی یہ خبر اس بات کی سند ہے کہ حزب اقتدار میں لیڈرشپ کی صلاحیتیں موجود ہیں۔ حز ب اقتدار کی" قائدانہ" صلاحیتوں کو لانے والے بھی مان گئے ہیں اور بیزار بیٹھے ہیں۔ اپوزیشن کے انتقال سے کم از کم یہ ہوا کہ لیڈر شپ کا خلا واضح ہو گیا، اب عوام کو نئے بت گھڑنے ہیں، نئے راستوں کا انتخاب کرنا ہے اور نئے سرے سے سفر کا آغاز کرنا۔ سو اپوزیشن پر فاتحہ پڑھ لیجئے، حزب اقتدار پر تعوذ کا ورد جاری رکھیے اور نئے سفر کے لیے دعا گو رہیے۔