دینی مدارس کی نصاب سازی
کوئی بھی علم یا فن جب پروان چڑھتا تو وہ اپنے عہدمیں پہلے سے موجود تصورات، علمیات اور سماجی ضروریات کی بنیاد پر پروان چڑھتا ہے۔ کسی علم یا فن کے ارتقا میں سماج کی مجموعی نفسیات اورضروریات جیسے عوامل فیصلہ کن ہوتے ہیں۔ سماج کوئی جامد شے نہیں بلکہ متحرک ادارہ ہے اس لیے اس کے ارتقا کے ساتھ علوم و فنون اورمتون کی تفہیم و تشریح میں بھی ڈویلپمنٹ ہوتی جاتی ہے۔ مثلا ہم دیکھتے ہیں کہ پچھلے چو دہ سو سال کے فقہی ذخیرے میں ہر عہد اور صدی کے مسائل میں ارتقا ہوتا رہا ہے، اسی طرح دیگر علوم میں بھی یہ عمل مسلسل جاری ہے۔ اس لیے لازم ہے کہ دینی مدارس میں پڑھایا جانے والا نصاب اپنے عہد کے تصورات، علمیات، مسائل، نفسیات اور ضروریات کا ادراک کر تے ہوئے مرتب کیا جائے اور اپنے عہد سے Relevant چیزوں کوشامل نصاب کیا جائے۔
ہمارے ہاں درس نظامی کے نصاب میں پڑھائی جانے والی کتب کو ایک مخصوص عہد میں لکھے گئے متون تک محدود رکھا گیا ہے جبکہ موجودہ عہد میں نہ صرف بہت سارے نئے سماجی علوم و فنون دریافت ہو چکے ہیں بلکہ بذات خود اسلامی علوم میں بھی نت نئی تحقیقات سامنے آ چکی ہیں۔
فقہ و کلام میں تو نئی تحقیقات قرین قیاس ہیں مگر قرآن و حدیث جیسے بنیادی مصادرمیں بھی بہت سارا تحقیقی کام ہو چکا ہے جسے سبق پڑھانا اگر ممکن نہیں تو کم از کم اس کا تعارفی مطالعہ اور اس سے طلبا کو روشناس کرانا، انہیں عہد حاضر کی علمیات اور سماجی ضروریات کے قابل بنانے کے لیے لازم ہے۔
دینی مدارس کے طلبا کو اپنے عہد کی زبان، محاورے، سماج میں اپنے مقام اور سماج کی درست راہنمائی کے لیے جن نئے علوم یا پہلے سے موجود اسلامی علوم کے جن نئے پہلوئوں کو مدنظر رکھ کر نصاب سازی کی ضرورت ہے، اس کا ابتدائی خاکہ کچھ یوں ہو سکتا ہے۔
قرآن و علوم القرآن: علوم القرآن کا تاریخی پس منظر اور ارتقا، متن قران سے متعلق علوم جیسے لغات القرآن اورنظم قرآن، تاریخ التفسیرو المفسرون، تفسیر کے جدید رجحانات اورمناہج، قرآن و استشراق، برصغیر میں اردو تفسیر ی ادب، جدید سائنسی انکشافات اورمطالعہ قرآن، جغرافیہ قرآنی۔ حدیث و اصول حدیث: جمع و تدوین حدیث، حجیت حدیث اورحدیث و سنت کی تشریعی حیثیت، اصول حدیث کے ضمن میں احناف کے منہج کا مطالعہ، حدیث کے متعلق جدید ذہن کے شبہات، حدیث و استشراق، برصغیر میں انکار حدیث کی تاریخ اور اسبا ب و عوامل، تلاش حدیث کے جدید وسائل ذرائع (انٹرنیٹ، جدید سوفٹ وئیرز کا استعمال) اس کے علاوہ ذخیرہ حدیث میں متنوع علوم و فنون متعارف ہو چکے ہیں جن کا کم از کم تعارفی مطالعہ لازم ہونا چاہئے۔
فقہ و اصول فقہ:فقہ و اصول فقہ کا تاریخی پس منظر اور ارتقا، چاروں فقہی مکاتب اور آئمہ کا تعارف اور ان کے اصول اجتہاد، فقہی قواعد کا تحقیقی مطالعہ، دور جدید کا فقہی ذخیرہ، جدید فقہی و اجتہادی اداروں کا تعارف، دور جدید کی ممتاز فقہی شخصیات کا تعارف اور ان کا فکر، جدید فقہی مسائل و مباحث، مقاصد شریعت، برصغیر کے فقہی و اجتہادی رجحانات کا جائزہ، اصول فقہ کے جدید اصول اور ان کا عملی اطلاق، فقہ اسلامی کی تشکیل جدید کی ضرورت و اہمیت اور بنیادی اصول، فتاویٰ کی تاریخ، اصول اور آداب سے واقفیت کا اہتمام۔
مزید یہ کہ فقہ و اصول فقہ کی جو کتب شامل نصاب ہیں وہ مخصوص دور کی نمائندگی کرتی ہیں جبکہ فقہی ذخیرہ تیرہ چودہ سو سال پر محیط ہے، اس سارے عہد کے فقہی ذخیرے کا تعارفی مطالعہ لازم ہونا چاہیے۔ مغازی و سیرت: تدوین سیر و مغازی اور تاریخی ارتقا، سیر ومغازی کے مصادر و مراجع، سیرت اور استشراق، سیرت نگاری کے جدید اصول و مناہج، عصر حاضر کے فکری مسائل اور سیرت طیبہ۔
تقابل ادیان و مذاہب: تاریخ مذہب، فلسفہ مذہب، سامی و غیر سامی ادیان، اسلام اور مذاہب عالم، جدید مذاہب کا تعارف، عصر حاضر میں تصور مذہب، توہین مذاہب اور بین الاقوامی قوانین۔ جدید فلسفہ و علم الکلام:مسلم فلسفے کا تاریخی ارتقا، مغربی فلسفے کا تاریخی ارتقا، جدید مغربی فلسفہ و افکار، جدیدیت و مابعد جدیدیت، جدید علم الکلام، اسلام اور جدید سائنس، مذہب و الحاد، الغز والفکری، استشراق۔
علم تاریخ: علم تاریخ کا پس منظر اورارتقا، فلسفہ تاریخ، اسلامی حکومتوں کی تاریخ از عہد خلافت راشدہ تا مغلیہ سلطنت، اسلامی علوم و فنون کی تاریخ، اسلامی تحریکات کی تاریخ، برصغیر کی اسلامی تحریکات کا مطالعہ، تاریخ پاکستان، تاریخ اقوام عالم۔
معاشیات: علم معاشیات کا تعارف اور آغاز و ارتقا، اہم معاشی نظاموں کا تعارف، بینکنگ سسٹم کا تعارف، اسلام اور نیا عالمی اقتصادی نظام، اسلامی معاشی نظام کے امتیازات، اسلام اور جدید معاشی مسائل، غیر سودی بینکاری۔ کریٹیکل تھینکنگ:تنقیدی مہارت /منطقی استدلال (Critical Thinking)کی ضرورت و اہمیت، تنقیدی مہارت/ منطقی استدلا ل کی مہارت کیسے پیدا کی جائے، منطقی مغالطے (Logical Fallacies)، عقلی استدلال کی مہارت پیدا کرنے کے لیے جدید کتب کو شامل نصاب کیا جائے، عقلی استدلال کی تربیت کے لیے علم الاختلاف کو بطور مضمون پڑھایا جائے، ابتدائی درجات سے ہی مختلف فیہ اور جدید مسائل کے بارے تنقیدی نکتہ نظر اور کتب میں غلطیوں کی نشاندہی کامزاج پیدا کیا جائے۔
پولیٹیکل سائنس: اسلام اور سیاست، مسلمانوں کے سیاسی افکار اور ادارے، جدید سیاسی تصورات، مروجہ سیاسی نظاموں کا تعارف، پاکستانی نظام سیاست کا تعارف، عالم اسلام کے وسائل و مسائل، پاکستان اور عالم اسلام۔ تحقیق و اصول تحقیق: فن تحقیق تعارف و اقسام، سوشل سائنسز میں تحقیقی طریقہ کار، خطہ سے مقالہ تک، تدوین مخطوطات، حوالہ جات کے مختلف اسلوب۔
قومی و بین الاقوامی قوانین:اسلام اور بین الاقوامی قوانین، اقوام متحدہ کا چارٹرڈ، بین الاقوامی معاہدے، انسانی حقوق کا فلسفہ، آئین پاکستان، مروجہ عدالتی سسٹم کا تعارف، عائلی قوانین، فوجداری قوانین۔ اردوادب و انشاء: اردو زبان وادب کی تاریخ و ارتقا، اردو ادب کی اہم اصناف منتخب اردو اصناف ادب کا مطالعہ، برصغیر کے نامورادباء کا تعارف، اردو زبان کے تحفظ اور فروغ میں مدارس کا کردار، اردو انشاء کی عملی مشق۔
عربی ادب و انشاء: عربی ادب و انشاء کا نصاب قابل تحسین ہے، بس اسے پڑھانے کے طریقوں میں بہتری اور جدت لانے کی ضرورت ہے۔ روزگار کے مسائل: مدارس کے طلبا کیلئے بعد از فراغت روزگار کا مسئلہ اہم ہوتا ہے، ان مسائل کے حل کیلئے طلبا کو مستقبل کی جدید ٹیکنالوجی اور مہارتوں سے لیس کرنے کیلئے ٹیکنیکل ایجوکیشن اور ایمازون، دراز سمیت آن لائن پلیٹ فارمزکا تعارف، طریقہ کار اور عملی مشق، ڈیجیٹل اسکلز، ڈیجیٹل مارکیٹنگ کا تعارف و طریقہ کار وغیرہ چیزیں اہم ہو سکتی ہیں۔
ان تجاویز کایہ مطلب ہرگز نہیں کہ نصاب میں شامل قدیم متون کو نصاب سے خارج کر دیا جائے بلکہ ان سفارشات کا فوکس اس پر ہے کہ ان قدیم متون کے مطالعہ کے ساتھ ہر متعلقہ فن کا تعارف وارتقا، موجودہ عصر میں اس کی معنویت و مطابقت اور اس علم وفن میں ہونے والی جدید تحقیقات و ڈویلپمنٹ کو بھی شامل نصاب کیا جائے تاکہ طلبا اس علم و فن کو عملی طور پر اپنی ذات اور سماج پر اپلائی کر سکیں۔
متون کے ساتھ عصر حاضر میں ان کی مطابقت، ضرورت و اہمیت اور استناد پر زیادہ فوکس کی ضرورت ہے۔ کسی بھی علم و فن کو اپنے زمانے کے ساتھ relevance بنانا اہم ہوتا ہے اوراپنے زمانے سے مطابقت پیدا کیے بغیر کسی علم و فن کی اہمیت اور اس کے متعلق دلچسپی پیدا کی جا سکتی ہے نہ ہی عملی زندگی میں اس علم و فن سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
اسی طرح عصری اداروں میں اسائنمنٹس کا کردار مسلم ہے، اس سے طلبا میں انشاء کی صلاحیتوں کے ساتھ متعلقہ علم و فن کا ضبط اوراحاطہ بھی آسان ہو جاتا ہے، اس سلسلے کو بھی تدریس کا حصہ بنایا جائے مزید یہ کہ مطالعہ کا شوق پیدا کرنے کیلئے ابتدائی درجات سے ہی کتب، لائبریری اور لائبریری پریڈ کا اہتمام کیا جائے۔ یہ چند طالبعلمانہ گزارشات ہیں، امید ہے دینی وفاقوں کے ذمہ داران ان پر سنجیدگی سے غورفرمائیں گے اور مدارس کے نصاب و نظام کی بہتری کے لئے مناسب اقدامات اٹھائیں گے۔