برین ڈرین
کارلے فیورینا مشہور امریکی بزنس وومین ہیں۔ یہ کمپیوٹر ہارڈ وئیر اور سوفٹ وئیر بنانے والی مشہور کمپنی ایچ پی کی سی ای او رہی ہیں۔ ماضی میں کارلے کی 2001 میں کی گئی ایک تقریر بہت مشہور ہوئی تھی جس میں اس نے ایک عظیم الشان تہذیب کا حوالہ دیا تھا۔ اس تقریر میں کارلے نے کہا تھا: "ایک زمانے میں دنیا میں ایک ایسی تہذیب تھی جو دنیا کی سب سے ترقی یافتہ تہذیب کہلاتی تھی۔ یہ اس لیے ترقی یافتہ تھی کہ اس کے فرزندوں نے دنیا کو نئی ایجادات عطا کی تھیں۔ یہ لوگ ایسی عمارتیں ڈیزائن کرتے تھے جو کشش ثقل کے اثر سے آزاد تھیں۔ اس کے ریاضی دانوں نے الجبرا اور الگورتھم تخلیق کیے جو کمپیوٹر کی ایجادکا باعث بنے۔ اس کے ڈاکٹروں نے انسانی جسم کا معائنہ کیا اور بیماری کے نئے علاج دریافت کیے۔ اس کے ماہرین فلکیات نے آسمانوں پر کمندیں ڈالیں، ستاروں کو نام دیے اور خلائی سفر اور تلاش کی راہ ہموار کی۔ میں جس تہذیب کی بات کر رہی ہوں وہ 800 سے 1600 عیسوی تک کی اسلامی دنیا تھی"۔
کارلے کی طرح دنیا کے ہر حقیقت پسند مؤرخ، تجزیہ کار اور مصنف نے اسلامی تہذیب کو اپنے عہد کی عظیم الشان تہذیب تسلیم کیا ہے اور اسلامی تہذیب اپنے عہد کی عظیم الشان تہذیب کیوں بنی اس کی وجہ صرف اور صرف ذہین دماغوں کی قدر دانی تھی۔ بادشاہ ذہین دماغوں، فلکیات دانوں، ریاضی اورطب کے ماہرین کو اشرفیوں میں تولتے تھے۔ کسی غیر مسلم کے بارے میں بھی معلوم ہوتا کہ وہ غیر معمولی ذہانت کا حامل ہے تو اسے بہترین معاوضہ پیش کرکے ہائیر کر لیا جاتا تھا۔ عباسی خلافت اور خصوصاً اندلس میں بہت سارے غیرمسلم ماہرین سرکاری مناصب پر فائز رہے۔
یہ سب کیا ظاہر کرتا ہے؟ یہ ظاہر کرتا ہے کہ قومیں اور تہذیبیں ذہین دماغوں کی قدر کرنے اور ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے سے ترقی کرتی ہیں۔ لاکھوں کروڑوں انسانوں میں کوئی ایک جینئس اور عبقری پیدا ہوتا ہے اور وہ لاکھوں کروڑوں انسانوں کی زندگیوں کو بدل دیتا ہے۔ ہم بحیثیت امہ جس زوال کا شکار ہیں اس کی ایک وجہ ذہین دماغوں کی بے قدری اور ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کی بجائے انہیں غیر مسلم ممالک کے حوالے کرنا ہے۔ اس کی سینکڑوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں لیکن میں یہاں صرف ایک مثال پیش کرنا چاہتا ہوں۔
ناسا امریکی خلائی تحقیق کا ادارہ ہے، جولائی 2021 کے شروع میں ناسا کی ٹیم نے خلائی تحقیق کے باب میں ایک اہم پیش رفت کی۔ اس ٹیم نے بجلی کی مدد سے چلنے والے ایک چھوٹے ہیلی کاپٹر کو مریخ کی سطح پرکامیابی سے لینڈ کروایا۔ مریخ کا زمین سے فاصلہ تقریباً 225 ملین کلومیٹر دورہے اور یہ انسانی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ اتنی دور کسی دوسرے سیارے پر کامیابی سے لینڈنگ کروائی گئی۔ اس سارے پروجیکٹ کو لیڈ کرنے والے انجینئر کا نام لوئے الباسیونی تھا اوریہ اسی غزہ کی پٹی میں پیدا ہوا تھا جہاں آج ہزاروں لوئے الباسیونیوں کو خون میں نہلادیا گیا ہے۔
لوئے الباسیونی کی ابتدائی تعلیم غزہ کی خون آلود گلیوں میں ہوئی تھی لیکن اعلیٰ تعلیم کے لیے وہ امریکہ آ گیا۔ تعلیم کے بعد اس نے ملازمت کے لیے امریکہ کی مشہور انجنیوٹی کمپنی میں ملازمت اختیارکرلی۔ کمپنی نے اسے ناسا کے ایک تجرباتی منصوبے کی آفر کی جس میں مریخ پر پرواز کے لیے ایک طیارہ یا ہیلی کاپٹر ڈیزائن کرنا تھا۔ لوئے نے آفر کو قبول کیا اور جولائی 2021 کے شروع میں دنیا نے دیکھ لیا کہ غزہ کی خون آلود گلیوں میں پرورش پانے والے بچہ ناسا کا عظیم سائنس دان بن گیا۔
ذہین دماغوں کی اپنے ملکوں سے ترقی یافتہ ممالک کی طرف منتقلی کو برین ڈرین کہا جاتا ہے اور بدقسمی سے مسلم دنیا اس برین ڈرین کی عبرت ناک مثال بن چکی ہے۔ مغربی ممالک کی طرف ذہین دماغوں کی منتقلی کا ایک تہائی حصہ عرب ممالک سے ہجرت کرکے گیا ہے۔ عرب ممالک کے 50 فیصد ڈاکٹر، 23 فیصد انجینئر اور 15 فیصد سائنسدان یورپ، امریکہ اور کینیڈا منتقل ہو چکے ہیں۔ برطانیہ میں اس وقت جتنے بھی ڈاکٹرز موجود ہیں ان میں سے 34 فیصد کا تعلق عرب ممالک سے ہے۔
عرب ممالک سے بیرون ملک منتقل ہونے والے لوگوں میں سے 75 فیصد امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ میں سیٹل ہوتے ہیں۔ ماضی میں 2004 سے لے کر 2013 کے دس سالہ عرصہ میں دنیائے عرب سے 450,000 گریجویٹس امریکہ اور یورپ منتقل ہوئے تھے۔ یہ عرب دنیا کی صورتحال ہے، پاکستان کی صورتحال ان سے بھی بدتر ہے۔ پچھلے دس سالوں میں ہزاروں نہیں لاکھوں قابل ترین پاکستانی ملک چھوڑکر دنیا کے مختلف ممالک میں منتقل ہو چکے ہیں۔ صرف 2023 میں تقریباً آٹھ لاکھ پاکستانیوں نے دوسرے ممالک کا رخ کیا ہے۔
2011ء میں ساڑھے چار لاکھ، 2012ء اور 2013ء میں چھ لاکھ، 2014ء میں ساڑھے سات لاکھ، 2015ء میں ساڑھے نو لاکھ، 2016ء میں آٹھ لاکھ، 2017ء میں پانچ لاکھ، 2018ء میں چار لاکھ، 2019ء میں چھ لاکھ، 2020ء میں دو لاکھ اور2021ء میں تین لاکھ لوگ بیرون ملک منتقل ہوئے تھے۔
2022ء میں ملک چھوڑنے والوں میں 92 ہزار سے زائد گرایجویٹ، 5,534 انجینئر، 18 ہزار ایسوسی ایٹ الیکٹریکل انجینئر، 2500 ڈاکٹر، 2000 کمپیوٹر ماہرین، 6500 اکاؤنٹینٹ، 2600 زرعی ماہرین، 900 سے زائد اساتذہ، 12 ہزار کمپیوٹر ایکسپرٹ، 6701 کمپیوٹر آپریٹر اور 6701 دیگر آپریٹر، ایک ہزار سے زائد نرسز اور ہزاروں پی ایچ ڈی کے لیے جانے والے اسٹوڈنٹس تھے۔ امریکہ میں ڈاکٹروں کی سب سے بڑی تنظیم پاکستانی ڈاکٹرز کی ہے اورگلف ممالک میں ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی اکثریت پاکستانی ہے۔
پاکستان ہو یا عالم اسلام ہم من حیث المجموع تب تک آگے نہیں بڑھ سکتے جب تک ہم اپنے ذہین دماغوں کی قدر نہیں کریں گے۔ دنیا کی کوئی تہذیب تب تک عظیم نہیں بن سکتی جب تک وہ دنیا کے ذہین دماغوں کو ہائیر نہیں کر لیتی۔ ہم جتنا جلد اس نکتے کو سمجھ لیں گے ہمارے لیے بہتر ہوگا ورنہ غزہ کی گلیوں میں پرورش پانے والے لوئے الباسیونی جیسے عظیم سائنسدان ناسا کی لیبارٹریوں کی زینت بنتے رہیں گے۔ مسلم حکومتوں اور امت کی نشاۃ ثانیہ کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور افراد کو اس نہج پر بھی سوچنے اور غور کرنے کی ضرورت ہے۔
صرف ترکی ایک ایسا ملک ہے جس نے اس نہج پر کام شروع کیا ہے، ترکی نے 2018 میں"گھر واپسی" یا "معکوس برین ڈرین" کا منصوبہ شروع کیا تھا جس کے تحت بیرون ممالک خدمات سر انجام دینے والے ترک سائنسدانوں، انجینئرز اور ڈاکٹرز کو واپس ترکی لانے اور ان کی خدمات سے استفادہ کرنے پر زور دیا تھا۔ ترک حکومت اب تک 6 ہزار سائنس دانوں اور دیگر قابل افراد کو وطن واپس لا چکی ہے۔ ترکی کے علاوہ افغانستان بھی اس منصوبے پر کام کر رہا ہے اور افغان حکومت نے بیرون ملک مقیم افغان ماہرین، پائلٹس، ڈاکٹرز، انجینئرز اور سائنسدانوں کو واپس آنے پر مختلف سہولتیں دینے کا اعلان کیا ہے اوراب تک ہزاروں قابل افغانی واپس آ چکے ہیں۔
اور آخری بات پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ مذہبی اسکالرز، علماء اور حفاظ پیدا کرنے والے ملک ہے، اگر مذہبی فکر کو موقعہ ملے تو وہ "مذہبی برین ڈرین" اور اس کے اسباب و نتائج پر بھی غور کرلے کہ کتنے ذہین، قابل اور باصلاحیت اہل علم تجدد، غم روزگار اور دیگر عوارض کی بنا پر "برین ڈرین" کا شکار ہو چکے اور ہو رہے ہیں۔