صدیوں کی سزا
مادی دنیا کا نظام محکم و مربوط نظام ہے جب کہ انسانی دنیا کا نظام غیر متوازن اور منتشر نظام ہے۔ مادی دنیا میں ہر طرف بناؤ کا سلسلہ ہے تو دوسری جانب انسانی دنیا میں ہر سمت پستی، بگاڑ اور زوال دکھائی دیتا ہے۔ اس توازن و عدم توازن کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مادہ اپنے قوانین کا پابند ہے جب کہ انسان اپنے قانون اور اصولوں کو توڑنے کا عادی ہے۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ کوئی بھی طاقتور نظام اور ایک اچھا، مہذب، باوقار اور قابل تقلید معاشرہ اس وقت بنتا ہے جب کہ اس کے تمام انسان حقیقی معنوں میں انسانی عظمتوں کے امین ہوں۔ جہاں پختگی کی ضرورت ہو وہاں وہ لوہے کی طرح سخت جان بن جائیں۔ جہاں نرمی کی ضرورت ہے وہاں وہ روئی کے گالوں کی طرح نرم و ملائم ثابت ہوں۔
جہاں چپ رہنے کی ضرورت ہے وہاں وہ پتھر کی طرح خاموش ہو جائیں اور جہاں ٹھہرنے کی ضرورت ہے وہاں وہ پہاڑ کی طرح جم کر کھڑے ہوجائیں۔ جہاں اقدام کی ضرورت ہے وہاں وہ سیلاب کی رواں دواں ہو جائیں اور ہر موقع پر وہی بات کریں جو حق و سچ ہو اور ہر موقع پر وہی ثابت ہوں جو انھیں ثابت ہونا چاہیے۔
تاریخ شاہد ہے کہ ایسے صاحب کردار انسان پاکیزہ معاشرے اور مہذب اجتماعی زندگی کے لیے اسی طرح اہم ہیں جس طرح لوہا اور پٹرول تمدنی زندگی کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ پختہ کردار لوگوں کے بغیر باوقار اجتماعی زندگی کا تصور ممکن ہی نہیں۔ لازم ہے کہ ایک انسان کو جہاں وعدہ پورا کرنا چاہیے وہاں وہ عہد شکنی نہ کرے۔
اگر کوئی شخص کہ جہاں اس کو شرافت کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے وہاں وہ کمینے پن کا مظاہرہ کرے، جہاں اس کو فیاضی دکھانا چاہیے وہاں وہ تنگ ظرفی کا ثبوت دے، جہاں اس کو بڑے پن کا مظاہرہ کرنا چاہیے وہاں وہ اپنا گھٹیا اور چھوٹا پن دکھائے، جہاں اس کو معاف کر دینا چاہیے وہاں وہ انتقام لینے لگے، جہاں اس کو اطاعت کرنی چاہیے وہاں سرکشی کرنے لگے، جہاں اس کو زمینی حقیقت اور سچائی کا اعتراف کر لینا چاہیے وہاں وہ ضدی پن اور ہٹ دھرمی دکھانے لگے، جہاں اس کو اپنے بھائیوں کے عیبوں کی پردہ پوشی کرنی چاہیے وہاں وہ پردہ دری پر تل جائے اور جہاں اس کو ایثار و قربانی سے کام لینا چاہیے وہاں وہ مفاد پرستی اور خود غرضی سے کام لینے لگے تو اس کا صاف اور سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ انسان نے اپنا کردار کھو دیا۔
اخلاقی اصولوں کو پامال کردیا اور وہ اس امید اور توقعات کو پورا کرنے میں ناکام رہا جو مہذب و باوقار اور پاکیزہ معاشرے کی تشکیل کا لازمی جز ہے جس معاشرے میں لوگ اپنا انفرادی کردار کھو دیتے ہیں وہاں عدل و انصاف کا گزر ممکن نہیں رہتا وہاں صرف بدعنوانی اور انتشار کا راج ہوتا ہے۔
انفرادی کردار ہی سے اجتماعی کردار اور مہذب معاشرہ تشکیل پاتا ہے، کردار اپنے اندر ایک طاقت رکھتا ہے اگر آدمی صاحب کردار ہو تو اس کی زبان میں یقین اور عمل میں عزم صمیم کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور جہاں یقین و عزم آجائے وہاں کامیابی اس طرح آتی ہے جس طرح سورج کے بعد روشنی اور پانی کے بعد سیرابی۔ یہی وہ کردار ہے جو مغربی قوموں کی ترقی کا راز ہے۔ تاریخ کے اوراق یاد دلاتے ہیں کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران میں جب 1945میں اتحادی طاقتوں نے جرمنی کو بالکل تباہ کردیا تھا تو محض 25 سال بعد جرمنی پہلے سے زیادہ طاقتور بن گیا۔ کیوں؟
اس لیے کہ وہاں ہر فرد اپنی ذمے داری کو ایمان داری سے ادا کرتا ہے۔ وہ اپنی ذات کو اپنی قوم کے تابع سمجھتا ہے۔ وہ قومی مفاد کو ذاتی و انفرادی مفاد پر ترجیح دیتا ہے یہی جرمنی کی ترقی کا راز ہے۔ فرد کی اصلاح کے بغیر قوم کی اصلاح کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا، مہذب و باوقار معاشرہ تشکیل نہیں پا سکتا، عدل کا نظام نافذ نہیں ہو سکتا، کرپشن، بدعنوانی، عہد شکنی کا خاتمہ نہیں ہو سکتا اور قابل فخر اخلاقی، سیاسی، معاشرتی و سماجی اقدار کی جڑیں مستحکم نہیں ہو سکتیں۔
بدقسمتی سے وطن عزیز میں گزشتہ سات دہائیوں کی جدوجہد کے بعد بھی ہم من حیث القوم انفرادی و اجتماعی ہر دو حوالوں سے ایک صاحب کردار معاشرے کی تشکیل میں آج تک کامیاب نہ ہو سکے۔ وہ لوگ جنھیں کردار سازی کا فریضہ انجام دینا تھا، جنھیں اپنی ذات کو قوم کے سامنے مثال بنا کر پیش کرنا تھا، جنھیں عدل کے ایوانوں میں اور اقتدار کی راہداریوں میں "عہد عمرؓ" کے نظام کو رائج کرنا تھا، جنھیں اپنے قول و عمل سے اپنے حلف کی پاسداری کرنا تھی۔ افسوس صد افسوس کہ "وہی پتے ہوا دینے لگے" جس طرح ایک استاد اپنے طالب علموں کے لیے رول ماڈل ہوتا ہے، ماں باپ اپنی اولاد کے لیے مثال ہوتے ہیں اسی طرح قوم کے رہنما عوام کے لیے رول ماڈل ہوتے ہیں۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح، جنھیں ہم بڑے فخر سے بابائے قوم کہتے ہیں، ان کی پوری سیاسی زندگی اس ملک کے لیڈروں کے لیے رول ماڈل کا درجہ رکھتی ہے۔ شرم اور افسوس کا مقام ہے کہ قوم کے لیڈر بڑے دھڑلے سے قائد اعظم کے نظریے، فلسفے اور اصولوں کے مطابق وطن عزیز کو عظیم ملک بنانے کے دعوے تو کرتے ہیں لیکن ان کے عمل کا خانہ خالی ہے۔ آپ بدعنوانی، عہد شکنی اور ہارس ٹریڈنگ (لغوی معنی گھوڑوں کی خرید و فروخت) کی تازہ ترین مثال اراکین سینیٹ کے انتخابات اور پھر چیئرمین سینیٹ کے انتخابات میں دیکھ لیجیے۔
حفیظ شیخ جو پی ٹی آئی کے امیدوار تھے قومی اسمبلی میں واضح اکثریت رکھنے کے باوجود ہار گئے اور پی ڈی ایم کے امیدوار یوسف رضا گیلانی ووٹوں کی عددی کم تری کے باوجود سینیٹر منتخب ہو گئے۔ چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں "ایکشن ری پلے" دیکھنے کو ملا جب یوسف رضا گیلانی 52 ووٹوں کی واضح اکثریت رکھنے کے باوجود صرف 42 ووٹ حاصل کر سکے اور ان کے مخالف صادق سنجرانی 48 ووٹ لے کر چیئرمین سینیٹ منتخب ہوگئے۔
سینیٹ میں 48 ووٹ رکھنے کے باوجود پی ٹی آئی امیدوار مرزا محمد آفریدی 54 ووٹ لے کر ڈپٹی چیئرمین سینیٹ منتخب ہوگئے جب کہ 52 ووٹ کی اکثریت رکھنے کے باوجود پی ڈی ایم کے امیدوار عبدالغفور حیدری صرف 44 ووٹ حاصل کر سکے۔ گیلانی صاحب کے سات ووٹ اسٹیمپ ان کے نام کے اوپر لگنے کی وجہ سے مسترد ہوئے۔ پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کے ناشتے اور لنچ میں تو ان کی "نفری" پوری پوری تھی اور کامیابی کے دعوے ہر دو جانب سے تھے۔ عددی برتری کے باعث یوسف رضا گیلانی کی کامیابی یقینی تھی لیکن یہ سات ووٹ ضایع کرنے والے سینیٹر کون تھے؟ بقول ظفر اقبال۔
جھوٹ بولا ہے تو پھر قائم بھی رہ اس پر ظفر
آدمی کو صاحب کردار ہونا چاہیے
کس نے کس کو فون کرکے وفاداریاں تبدیل کرنے کے لیے دباؤ ڈالا؟ پی ڈی ایم پردہ اٹھائے، وعدہ پورا کرے۔ حفیظ شیخ کو ہرانے والے اور اپنے ووٹ کی قیمت وصول کرنے والے پی ٹی آئی اراکین اسمبلی کو بے نقاب کیا جائے۔ پولنگ بوتھ میں کیمرے کس نے لگائے تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر لائی جانی چاہیے۔ سیاسی اخلاقیات کا تباہ ہونا المیہ ہے، ہمارے رہنما قوم کے بچوں کو جنھیں کل ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے، کردار کا کون سا سبق پڑھا رہے ہیں؟ ایک لمحے کو ذرا سوچ لیں۔ یاد رکھیں رہنماؤں کی لمحوں کی خطا قوم کے لیے صدیوں کی سزا بن جاتی ہے۔