سالِ نو کی امیدیں
لیل و نہار کا سفر جاری ہے، ماہ و سال اپنی متعین راہوں پر غیر محسوس طریقے سے فطری اصولوں کے مطابق آگے بڑھ رہے ہیں۔ سال گزشتہ یعنی 2020 اپنے دامن میں حضرت انسان کی تمام تر حشر سامانیوں کو سمیٹے ایک سبق بن کر رخصت ہو گیا۔
نئے سال 2021 کا سورج نوع انسانی کے مستقبل کو تابناک بنانے کی امیدوں کے چراغ روشن کرنے کے لیے طلوع ہو چکا ہے۔ عالم فانی میں جشن طرب کا ساماں ہے۔ تاریخ انسانی کا مسلمہ اصول ہے کہ یہ دنیا عمل اور مسابقت کی جگہ ہے۔ ہمیں سال کے اول دن سے آخر دن تک خود سارا کام کرنا ہے، دوسروں کا مقابلہ کرنے کے لیے زندگی کا ثبوت دینا ہے۔ اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوگا کہ اسباب و عمل کے اس کارخانۂ حیات میں ہم کو اپنی مطلوبہ جگہ مل سکے۔
ہر آدمی کو یہ حقیقت جان لینی چاہیے کہ اگر وہ جنوری سے اپنے سفر کا آغاز کرے گا تو دسمبر تک پہنچنے کے لیے اسے پورے 12 مہینے انتظار کرنا پڑے گا جس طرح زمین اپنے محور کے گرد 360 بار گھومے گی، اس کے بعد ہی یہ ممکن ہے کہ ایک سال پورا ہو۔ یہی امن دنیا کی انتہائی معلوم حقیقت ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ اسی معلوم حقیقت کو ہمارے اکابرین ملت کی تعمیر کے معاملے میں بھول جاتے ہیں، وہ عملاً تو پہلے مہینے میں ہی ہوتے ہیں لیکن خواہش یہ رکھتے ہیں کہ چھلانگ لگا کر آخری مہینے میں جا پہنچیں۔
وہ قوم کی بنیاد کی تعمیر نہیں کرتے اور چاہتے ہیں کہ اپنے خالی محل کی بالکونی میں کھڑے ہو کر کامیابی کے دعوے کرتے نظر آئیں اور عوام الناس کو سبز باغ کی سیر کرائیں، حالانکہ زمینی واقعہ کے مطابق وہ اپنے سفر کے آغاز میں ہوتے ہیں اور جذبات کی رو میں بہہ کر ایسے انتہائی بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں کہ گویا وہ سال کے 11 ماہ کا درمیانی راستہ طے کیے بغیر ہی اپنی منزل مقصود پر پہنچ گئے ہیں۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ہمارا سب سے پہلا کام یہ ہونا چاہیے کہ ہم اپنے ایک مقصد پر نظر رکھیں اور قوم کے افراد کو وہ تعلیم دیں کہ جس سے وہ اپنے ماضی سے سبق حاصل کریں، حال کو پہچانیں اور مستقبل پر گہری نظر رکھیں۔ ان کے اندر وہ شعور بیدار کریں کہ اختلافات کے باوجود مقصد کے حصول کے لیے پوری طرح متحد رہیں اور شخصی مفادات اور وقتی جذبات سے اوپر اٹھ کر قربانی دے سکیں۔ جب یہ تمام کام قابل لحاظ حد تک مکمل ہو چکے ہوں تو ہی کوئی ایسا قدم اٹھایا جاسکتا ہے جو فی الواقع قوم کے لیے کوئی نئی تاریخ رقم کرنے والا ہو۔ اس سے پہلے قدم اٹھانا موت کی خندق میں چھلانگ لگانا ہے نہ کہ کامیابی کے گلستاں میں داخل ہونا۔
اس پس منظر میں آپ سال گزشتہ قومی زندگی کے نشیب و فراز پر نظر ڈالیے تو مایوسی کا تاثر گہرا ہوتا نظر آتا ہے۔ حکومت سے لے کر اپوزیشن تک مقصدیت کا فقدان اور حکمت عملی کا بحران نت نئے مسائل کو جنم دے رہا ہے۔ گزرے پورے سال میں وبائی مرض کورونا نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ نئے سال میں بھی کورونا کے کاری وار کا سلسلہ جاری ہے۔
تادم تحریر اس وائرس نے دنیا کے 18 لاکھ انسانوں کو نگل لیا ہے، صرف امریکا میں ساڑھے تین لاکھ لقمہ اجل بن گئے جب کہ متاثرہ افراد کی تعداد 8 کروڑ 25 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ پاکستان میں کورونا وائرس سے اب تک 10 ہزار سے زائد لوگ موت کے منہ میں چلے گئے۔ مہلک وائرس کی دوسری لہر کی شدت تاحال برقرار ہے۔ اس موذی مرض کے باعث عالمی اور قومی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے۔ لوگوں کے احتیاطی تدابیر پر عمل نہ کرنے کے باعث مرض کی شدت میں امسال بھی اضافے کا خدشہ ہے۔
کورونا کی وبا نے ہر شعبہ زندگی کو شدید متاثر کیا البتہ حکومت اور اپوزیشن کے مزاج اور رویوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ تمام احتیاطی تدابیر کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حکومت اور اپوزیشن دونوں نے گزشتہ سال جلسے جلوس کا سلسلہ جاری رکھا۔ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم نے دو قدم آگے بڑھ کر جلسے، جلوس اور ریلیوں کا بازار گرم رکھا اور اب نئے سال میں لانگ مارچ اور دھرنے کے تانے بانے بنے جا رہے ہیں۔ عوام کی زندگیوں کی کسی کو پرواہ نہیں۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں اپنے اپنے موقف پر ڈٹی ہوئی ہیں۔
باہمی مذاکرات اور افہام و تفہیم سے مسائل حل کرنے میں سنجیدہ اور آمادہ نہیں۔ وزیر اعظم عمران خان این آر او اور اپوزیشن کے احتساب کے دائرے سے باہر نکلنے پر تیار نہیں تو پی ڈی ایم وزیر اعظم کے استعفے تک کسی قوت سے بات چیت پر آمادہ نہیں۔ اس ضمن میں فنکشنل لیگ محمد علی درانی کی اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے ملاقاتوں کا فی الحال کوئی ٹھوس نتیجہ نکلتا نظر نہیں آتا۔ چوہدری شجاعت نے بجا کہا کہ کریڈٹ کی دوڑ میں بعض ارکان ایسی باتیں کر جاتے ہیں جو قابل قبول نہیں ہوتیں۔
انھوں نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپوزیشن کی تجاویز کا جواب بیان بازی سے نہیں دے بلکہ ان پر سنجیدگی سے غور کرے۔ آصف زرداری بھی کہہ رہے ہیں کہ ان کے تجربے سے فائدہ اٹھایا جائے۔ انھوں نے جنرل پرویز مشرف کو نکالا اور اب وہ عمران خان کو بھی مناسب طریقے سے نکال سکتے ہیں۔ پی پی پی سینٹرل کمیٹی نے ضمنی اور سینیٹ الیکشن لڑنے کا فیصلہ کرکے (ن) لیگ اور پی ڈی ایم کو امتحان میں ڈال دیا ہے۔
پی پی پی، پی ڈی ایم کی اہم سیاسی قوت ہے اس نے اپنے راستے الگ کیے تو پی ڈی ایم کی بنیادیں ہل جائیں گی۔ لانگ مارچ اور وزیر اعظم عمران خان کے استعفے کے مطالبے کے غبارے سے ہوا نکل جائے گی۔ کاش کہ نئے سال میں ملک میں سیاسی استحکام آجائے، کورونا کا خاتمہ ہو جائے، ہمارے اکابرین سیاست تدبر اور فراست کا مظاہرہ کریں اور عوام کو سبز باغ دکھانے کے بجائے قائد اعظم کے سیاسی فلسفے اور نظریے کے مطابق ملک کی ترقی، خوشحالی اور استحکام کے لیے اپنا تعمیری کردار ادا کریں عوام کی امیدیں پوری کریں۔