تو مجھ پہ ٹوٹ پڑا سار ا شہر نابینا
سورئہ بقرہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور کی کہانی کا ایک واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک دولت مندآدمی تھا جس کے وارث اس کی دولت ہتھیانے اور اُس کے مرنے کا انتظار کررہے تھے حتیٰ کہ اسے قتل کردیا۔ مقتول کے وارث ایک دوسرے پہ شک کا اظہار کرتے ہوئے اس معاملے کو حل کروانے حضرت موسیٰ ؑ کے پاس گئے۔ حضرت موسیٰ ؑنے اُنھیں اللہ کے حکم سے گائے ذبح کرنے کو کہا کہ ذبح کرنے کے بعد اس کاکوئی عضو اُٹھا کر مقتول کو مارا جائے تو وہ زندہ ہوکر قاتل کا نام بتا دے گا۔ وہ کہنے لگے آپ ہمارا مذاق بناتے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا میں اس بات سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ میں ایسے نادانوں میں شامل ہوجاؤں جو مذاق میں جھوٹ بولیں۔ پھر اُنھوں نے پوچھا کہ وہ گائے کیسی ہو؟ اس کا رنگ کیسا ہو؟ موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ گائے نہ بوڑھی ہو نہ بالکل بچی ہو بلکہ درمیانی ہواور تیز زرد رنگ کی ہو۔ یعنی اُنھوں نے خواہ مخواہ کھود کرید شروع کردی۔ اس واقعے سے پتہ چلتا ہے کہ بات جتنی ساد ہ ہواس پر سادگی سے عمل کر لینا چاہیے۔ یہ کہانی مجھے وزیراعظم عمران خان کے احساس ٹیلی تھون میں مولاناطارق جمیل کے بیان سے یاد آئی کہ مولانا نے جب کہا کہ ہمار امیڈیا بلکہ پورا عالمی میڈیا جھوٹا ہے۔ سب اینکر غصہ کھا گئے۔ جب اُنھوں نے کہا کہ پوری قوم جھوٹی ہے اور غلط کاموں میں پڑ گئی ہے تو ساری عوام روٹھ گئی۔ آج سے کوئی پندرہ سولہ سال پہلے مجھے کسی نے مولانا کی CDs سُننے کو دیں تو میں نہ تو متاثر ہوئی اور نہ ہی سن سکی۔ لیکن چند برس پہلے جب ٹی وی اور یوٹیوب پر سُننا شروع کیا تو میں متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ حیران بھی رہ گئی کہ مولانا ہمارے دلوں میں اللہ کی محبت اس طرح پیدا کرتے ہیں کہ اندازہ ہوتا ہے اللہ کی محبت اس شفاف پانی کی طرح رواں ہے جو اُجڑے دلوں میں حیران کن بہار لے آتی ہے۔ دوسرے ان کی خوبی یہ ہے کہ وہ فرقہ واریت کی تقسیم کی ممانعت کرتے ہوئے اُمت کو جوڑتے ہیں۔
اب کچھ بات کرتے ہیں میڈیا کی، تو صاحب کیا میڈیا اینکرز دانہ پھینک کر لوگوں اور سیاسی پارٹیوں کو آپس میں لڑوانا نہیں جانتے؟ یہ خوب جانتے ہیں پروگراموں کے بھاؤ کیسے بڑھانے ہیں۔ کسی کے پا س مخبر ہیں کسی کے پاس ذرائع، کسی کے پاس چڑیا، کسی کے پاس چڑیل تو کسی کے پاس جن ہے۔ ہماری قوم کب سے جھوٹ، رشوت خوری، بدعنوانی اور منافقت کا شکار ہوچکی ہے۔ ہمارے ہاں ریاست اور عوام دونوں صرف سیاست، تجارت، منافقت اور جھوٹ کی جنگ کی دھند میں لپٹی ہوئی ہے۔ اگر لمحے بھر کو یہ دھند چھٹ جائے تو ہم یہ دیکھ کر کانپ اُٹھیں گے کہ ہماری قوم کن کن جرائم کی دلدل میں دھنس چکی ہے۔ کیا یہاں صحت کے نام پر لیبارٹریوں میں لوگوں کو لُوٹا نہیں جاتا؟ کیا نجی ہسپتالوں میں ایک پلڑے میں مریض اور دوسرے میں پیسہ رکھ کے تولا نہیں جاتا؟ کیا یہاں اچانک سے زندگی بچانے والی دوائیں ذخیرہ اندوزی کی بھینٹ نہیں چڑھ جاتیں؟ میں خود پچھلے پانچ دنوں سے اپنی انتہائی اہم دوا کےلئے لاہور کا کونہ کونہ گھوم چکی ہوں مگر دوا ندارد۔ جواب میں جھوٹ کہا جارہا ہے کہ دو تین ماہ سے یہ دوا مہیا نہیں ہے جبکہ میں نے اپریل کے آغاز میں خریدی تھی۔ میڈیا نے جہاں پچھلے چند سالوں میں لوگوں کو شعور دیا ہے وہیں سماج میں چیزوں کو گڈ مڈ کر کے جو ابتری پھیلائی ہے وہیں اس نے لوگوں کو تجریدی دکھوں سے دوچار کیا ہے۔ جب سے وطن عزیز میں نجی سکولوں کی بھرمار ہوئی ہے وہیں بچوں کو ایسے طالبعلم بنایا جارہا ہے جو علم کی پیاس سے عاری ہیں۔ ہماری حکومت میں بیوروکریسی کی غرض انسانوں کی بجائے generalization یعنی چند لوگوں کےلئے موزوں حالات پیدا کرنے سے ہے۔ جب مولانا نے کہا کہ معاشرے میں بے حیائی پھیلنے کی وجہ سے وبا نازل ہوگئی ہے تو سب چیخ پڑے۔ یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ بے حیائی دراصل ہے کیا؟ بے حیائی کی بہت سی قسمیں ہیں۔ جھوٹ بولنا بھی بے حیائی ہے۔ یتیم کا مال کھانا بھی بے حیائی ہے۔ وراثت میں عورت کے حقوق مارنا بھی بے حیائی ہے۔ رشوت لےکر ناجائز کام کرنا بھی بے حیائی ہے۔ مذہب کے بارے میں غلط فہمیاں پالنا بھی بے حیائی ہے۔ سماج میں ناچ گانوں کی محفلوں کا بڑھ جانا بھی بے حیائی ہے۔ کیا سماج میں ترقی ہونے کے باوجود کسبی عورتوں کی تعداد گھٹنے کی بجائے اضافہ نہیں ہورہا؟ کیا ہم سب مل کر اسکے ذمہ دار ٹھہرائے نہیں جائیں گے؟ خیرات کے پیسے غربا پر خرچ کرنا ہی نیکی کمانے کا ذریعہ ہے۔ لیکن خیرات کا پیسہ بھی خرد برد ہوجاتا ہے۔ پہلے تو کہا جاتا تھا جیسی عوام ہوگی ویسے حکمران ہوں گے۔ لیکن اب کہا جارہا ہے جیسی عوام ہوگی ویسی دعاہوگی۔ تو صاحب دعائیں اس لیے ایسی ہیں کہ ہم بدعنوانی کے سیاہ گھوڑے پر اپنے پاؤں رکاب میں پھنسا ئے خود کو رگیدے چلے جارہے ہیں۔ اس رو ز سے سوشل میڈیا پہ ایک یلغار جاری ہے جسے پڑھتے پڑھتے میرے خس و خاشاک بھی بہہ گئے ہیں۔
کیا ہم اپنی برائیوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں؟ لگتا ہے نہیں! کیوں کہ ہم ایک Passivity یعنی جمود کی مسلسل حالت میں زندگی کرتے جارہے ہیں۔ جمہوریت پسند اور free will کے داعی ترقی کی سنہری پوستین حاصل کرنے میں اضطراری کیفیت کا شکار ہوجاتے ہیں، مگر سزا و جزا کی ذمہ داری قبول کر کے فلاح کے راستے پر چلنا نہیں چاہتے۔ میڈیا، فیشن انڈسٹری اور انٹرنیٹ نے ہر انسان کو جکڑ کر ترقی کے پنجرے میں قید کر دیا ہے۔ جہاں سے اپنی خواہشات کو دبانا شاید دقیانوسی کہلانے کے مترادف ہے۔ خواہشات کو اُبھارنے کےلئے بازاروں اور ذرائع ابلاغ کی پیچیدہ گلیاں موجو د ہیں۔ مذہب کی پیروی اور روحانی ترقی کرنے والے لوگ بنیاد پرست کہلاتے ہیں۔ کیا ہمارے نظام کے اندر سفارش، رشوت اور دھاندلی چھپی ہوئی نہیں ہے؟ کیا ہمارا سماج تفرقے پر نہیں چلتا ہے؟ ہم یہاں سے لسانی، جغرافیائی، نسلی، تعلیمی اور مذہبی تغیرات کو مٹا کیوں نہیں دیتے۔ ہم اپنی اقدار، رسم و رواج اور مذہب کے پھولوں سے اپنے گلشن کو کیوں نہیں سجاتے۔ لوگ بہت خوش ہیں کہ مولانا نے غیر مشروط معافی مانگ لی ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ آپ کے سچ نے سارے ملک کو آزار میں مبتلا کر دیا ہے۔ لوگوں کی پُتلیاں خوف سے پھیل گئی ہیں۔ لیکن سچ تو سچ ہے۔ ایک اینکر نے سوال داغا کہ حضور وہ اداکارائیں جن کو آپ بیٹی یا بہن کہتے ہیں کیا وہ بے حیائی پھیلا رہی ہیں۔ صاحب آپ کےلئے جواب ہے کہ سب کو یکساں عزت دینا عزت والے ہی کا کام ہے۔ آخر میں احمد فراز کا شعر پیشِ خدمت ہے۔
یہی کہا تھا میری آنکھ دیکھ سکتی ہے
تو مجھ پہ ٹوٹ پڑا سارا شہر نابینا