کھوکھلے انسان یا سیاسی ناخْدا
آج ٹی۔ ایس ایلیٹ کی نظم Men Hollow The یاد آ رہی ہے جس کا ترجمہ میں نے چند برس پہلے کیا تھا۔ وہ ترجمہ کچھ یوں تھا:
ہم ہیں کھوکھلے انسان
بْھس بھرے ہوئے انسان
سیکھتے ہیں اِک دْوجے سے ہم
مگر افسوس! سروں میں ہے بھْوسہ بھرا ہوا
آوازیں بھی ہوتی ہیں بے اثر
جب آپس میں کرتے ہیں سر گوشیاں
جو ہوتی ہیں مسکین اور بے اثر
جیسے خشک گھاس میں ہوا کی سر سراہٹ
یا چوہوں کے پاؤں چلتے ہوں شکستہ شیشوں پر
ہمارے سوکھے ہوئے گوداموں میں
صورتیں بغیر شکل کے اک بے رنگ سا سایہ ہے
مفلوج سی اک طاقت ہے اور اشارے کنائے بے اثر
اس نظم میں شاعر کہتا ہے کہ انسان اپنی تخلیق کا مقصد بھول گیا۔ انسان کٹھ پتلیوں کی طرح بْھس بھرا ہوا ہے۔ ہم یوں تو ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں لیکن دوسروں کے ساتھ سچ نہیں بولتے۔ ہماری گفتگو سوکھی گھاس میں سر سراتی ہوا کی طرح یا چوہوں کے پیدا کردہ شور کی طرح ہے جو سنائی بھی نہیں دیتی۔ انسان کی کوئی شکل اور رنگ نہیں۔ انسان صرف "کھاؤ پیو خوش رہو" کے اصول پر عمل کرتا ہے۔ خدا نے انسان کو دنیا پر حکومت کرنے کے لیے پیدا کیا ہے۔ مگر انسان بدلے اور جھوٹ کی وجہ سے اپنی حقیقت بھول گیا۔ ہم سب کہتے تو خود کو جمہوری روحیں ہیں لیکن اصل میں سب بے روح ہیں۔
آئینِ پاکستان کے مطابق پر امن احتجاج کا حق سب کو حاصل ہے۔ تقریباً چھ ماہ جلسے کرنے کے بعد عمران خان نے لانگ مارچ شروع کیا۔ چھٹے روز جب مارچ وزیر آباد، اللہ والا چوک میں پہنچا تو پی ٹی آئی کے کنٹینر پر فائرنگ ہوتی ہے۔ اس حملے کو عمران خان پر قاتلانہ حملہ قرار دیا جاتا ہے جس میں ٹانگوں پر گولیاں لگنے سے وہ زخمی ضرور ہوتے ہیں مگر بال بال بچ جاتے ہیں۔ اس وقت پورا ملک ایک اضطرابی کیفیت میں ہے۔
25مئی کو بھی جب پی ٹی آئی نے لانگ مارچ کا فیصلہ کیا تو رانا ثنا وفاقی وزیر داخلہ نے دھمکیاں دیں۔ پی ٹی آئی کے کارکنوں پر تشدد کیا گیا، لوگوں کے گھروں پر تلاشی کے لیے بے جا دھاوے بولے لیکن اب 3نومبر کے اس پر تشدد واقعے کے بعد ملک و قوم میں انتشار پھیل چکا ہے۔ عمران خان کو فوری طور پر شوکت خانم ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں آپریشن کر کے ان کی ٹانگ سے گولی نکال دی گئی ہے۔ اب وہ خطرے سے باہر ہیں۔ عمران خان نے آج ہسپتال سے ہی قوم سے خطاب کیا اور مطالبہ کیا کہ ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک میں امن و امان قائم رکھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ای۔ وی۔ ایم مشین بھی الیکشن کمیشن نے نہیں آنے دی۔
مزید انہوں نے کہا: مجھے توشہ خانہ کیس میں نا اہل کروایا جاتا ہے۔ اب عمران خان اپنے حامیوں سے کہتے ہیں کہ نا انصافی کا مقابلہ کرنا آپ کا فرض ہے۔ آئین اس کا حق دیتا ہے آپ کو۔ دوسری طرف مریم اورنگزیب کہتی ہیں کہ عمران خان نے معاشرے میں شدت پسندی پیدا کی ہے۔ عمران خان نے سیاسی مخالفین کو جیلوں میں ڈالا۔ جو گڑھا عمران خان نے کھودا اس میں خود گر گیا۔
احسن اقبال صاحب کہتے ہیں کہ بے نظیر صاحبہ کے قتل کے بعد آصف زرداری نے اس واقعے کو ہوا نہیں دی بلکہ ٹھنڈے جذبات سے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا۔ یہ ہے سیاسی وژن۔ ذرا وزیرِ دفاع خواجہ آصف کے الفاظ جو کابینہ میں بولے گئے ان پر غور کیجیئے۔ کہتے ہیں عمران خان کا سیاپا ایک شخص کی تعیناتی ہے۔ یعنی اس وقت جب سخت ترین حالات ہیں تو ایسے الفاظ جلتی پر تیل چھڑکنے کے مترادف ہیں۔ گولیاں کھانے کے بعد بھی عمران خان نے اپنے کارکنوں کو مسکرا کر دیکھا اور ہاتھ سے مکے کا نشان بناتے ہوئے ان کا حوصلہ بڑھایا۔
عمران خان جب بھی حادثے کا شکار ہوئے تو ان کی ماں شوکت خانم نے ہمیشہ انہیں اپنے ہسپتال میں بلایا اور وہ صحت یاب ہو کر وہاں سے واپس آئے۔ سوچیے! جس شخص کو ماں کی اتنی دعائیں ہوں اس کا برا کیسے ہو سکتا ہے۔ ہم پہلے ہی محترمہ بے نظیر بھٹو کو عوامی اجتماع میں کھو چکے ہیں۔ اب اور گنجائش نہیں۔ آخر جمہوریت میں، عوامی احتجاج میں پر تشدد حملے کیوں ہوتے ہیں۔
دنیا بھر کے لیڈران اس حملے کی مذمت کر رہے ہیں۔ ہمارا کیا تاثر جا رہا ہے اس وقت پوری دنیا میں۔ صوبائی اور وفاقی حکومت کو مل کر تحقیقات کرنے کی ضرورت ہے۔ الزام تراشی کی سیاست میں سیاسی ناخدا ہر چیز کو دھول میں اڑا دیں گے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ تھریٹ الرٹ ہونے کے باوجود لانگ مارچ کو فول پروف سکیورٹی فراہم نہیں کی گئی۔
دوسری طرف عمران خان صاحب کو چاہیئے کہ اپنے حفاظتی انتظامات میں دلچسپی لیں۔ زیادہ بہادری دکھانے کی ضرورت نہیں۔ ایک قیمتی لیڈر کی زندگی پر اس کے سپورٹر پروانوں کی طرح جل مرنے کو تیار ہوتے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھی بہادری دکھاتے ہوئے شہید ہو گئیں۔ ٹی ایس ایلیٹ کے مطابق یہی لگتا ہے کہ ہم کھوکھلے انسان ہیں۔ صرف اور صرف اپنی اناؤں کی گھپاؤں کے حصار میں قید ہیں۔ ملک و قوم کا کچھ خیال نہیں۔ تحریکِ انصاف اس وقت ملک گیر احتجاج کر رہی ہے۔
عمران خان نے بلا شبہ پاکستانی سیاست کا رْخ موڑا اور بہت ہی جارحانہ انداز میں جلسے اور لانگ مارچ کا آغاز کیا۔ بہت سے سوالیہ نشانوں میں رہتے ہوئے اب قوم اپنے حقوق جاننے لگی ہے۔ عوام اپنے سیاسی ناخداؤں سے پوچھتے ہیں کہ ہمیں کیوں کھوکھلا کیا جا رہا ہے۔
آخر کو یہ پر تشدد اور بدلے کی سیاست کا خاتمہ کب ہوگا۔ کیا اس کو جمہوریت کہتے ہیں؟ لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو کے بعد آج کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کا سب سے مقبول سربراہ پھر سے تشدد کا نشانہ بن رہا ہے۔