ہجر ت کا عمل، ریاست مدینہ (دوسرا اورآخری حصہ)
مغربی بنگال کے لوگ جس میں بہار، اڑیسہ، کلکتہ وغیرہ کے ساتھ دیگر علاقے بھی شامل تھے تو وہ لوگ مشرقی پاکستان منتقل ہوئے، جب کہ مشرقی ہندوستان کی پنجابی آبادی مغربی پنجاب یعنی موجودہ پاکستان میں آکر اس کے مختلف حصوں میں آباد ہوئی۔ 1947 کے بعد دو سری بڑی ہجر ت1971 میں پا کستا ن کے دو لخت ہو جا نے کی صورت میں معرض وجو د میں آ ئی۔
اسے ہجرت در ہجرت اس لیے کہنا پڑ تا ہے کہ یہ تمام خاندا ن مغر بی بنگا ل سے مشرقی پا کستا ن آ ئے اور تقریبا24 برس بعد جب پا کستا ن دو لخت ہوا تو وہ مشرقی پا کستا ن جو بنگلہ دیش بن چکا تھا وہا ں سے مغربی پا کستا ن کے لیے ر خت سفر با ندھا، جن لوگو ں نے بنگلہ دیش کو قبو ل نہیں کیا، وہ آج تک پاکستانی پرچم سینے سے لگا ئے کیمپو ں میں محصور بغیر شنا خت کے بیٹھے ہو ئے ہیں اور جو ہجر ت کر کے مغر بی پاکستان چلے آ ئے، انھیں دا نستہ یا نا دانستہ نادرا کے پیچیدہ مسائل نے شنا خت سے محروم ر کھا ہوا ہے۔
بد قسمتی سے آ ج اپنی اصل شناخت " پا کستا نی" کہلا نے کے بجا ئے "بہاری" کے نا م سے جا نے جا تے ہیں۔ جو انتہائی دکھ کی بات ہے میر ے خیا ل میں تما م آنے اور جا نے والی حکومتیں اور ہم بھی، ہم سے مراد وہ سیا سی پارٹیا ں جو اپنے منشو ر میں تو ان سے محبت کے دعوے کر تی ر ہیں، نعرے بھی لگاتی ہیں لیکن عمل ندارد۔ جب کہ ان کی بے بسی اور بے کسی اس بات کی متقا ضی ہے کہ 1971 کے بعد حکومت پا کستا ن اور بنگلہ دیش کے درمیان ہونے والے معا ہدے کے مطا بق وہ جا ئیدا دیں اور زمینیں جو یہا ں سے جا تے ہو ئے بنگا لی چھو ڑ گئے تھے وہ وہا ں سے آ نے والے لو گ ہی اس کے حقدار تھے۔
اس تقسیم کے لیے ایک اداراہ APO (abandoned properties organization) بھی تشکیل دیا گیاجو کا فی عرصہ قائم ر ہنے کے با وجو د ان حقدارو ں کو توحق نہیں دیا گیا ( یا د ر ہے فروری 2006 میں بنگلہ دیش کی وزیر اعظم خا لدہ ضیاء جب پا کستا ن کے دورے پر آئیں تو انہو ں نے مطیع الرحمان جو پا کستا ن میں مد فو ن تھا اس کی باقیات کی واپس بنگلہ دیش لے جا نے کی درخواست کی تھی یو ں بنگلہ دیشی وفد نے اس گمنا م ا حا طے سے پائلٹ کی با قیا ت سمیٹ لیں گو یادنیا میں ایسے بھی ملک ہیں جو اپنے انسان کی ہڈیاں تک نہیں چھو ڑتے) جب کہ ہما رے ملک میں بنگالیو ں کی چھو ڑ ی ہو ئی املاک پر آج بھی نا جا ئز قا بضین برا جما ن ہیں اور اب اس ادارے کو تحلیل کر نے کا حکم جا ر کرنے تیا ر ی کی جارہی ہے جو بین الاقوامی انسانی حقوق کی پا ما لی کے مترادف ہے۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس ادارے کو قائم رہنے دیا جا ئے اور سپر یم کو رٹ کے سابق ریٹا ئرڈ جسٹس کی سربراہی میں پا نچ ایسے ممبران پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جائے جس میں متا ثر ہ خا ندا ن کے افراد بھی شامل ہو ں۔ میں سمجھتی ہو ں کہ متاثرہ خا ندا نو ں کو جلد انصا ف فرا ہم کر نے کا یہ ہی وا حد طر یقہ ہے۔
اب اس تیسری ہجر ت کی طر ف آ تی ہو ں جسے خو د ساختی کہا جا ئے؟ مجبو ر ی سمجھا جا ئے؟ یاکم نصیبی میں شما ر کر یں، کیو نکہ اس کی و جہ جانوں کے تحفظ کے ساتھ وقت کی ضرورت بھی ر ہے گی، ملک میں مستحکم اور غیر مستحکم نظا م آ تے اور جا تے ر ہے لیکن پھر بھی غیرمعیار ی تعلیم کی و جہ سے لو گ بہترعلم حاصل کر نے کی تلا ش میں با ہر نکلے۔
بے روزگاری کی وجہ سے روزگار کی تلا ش میں دوسرے ملکو ں کا ر خ کیا اور ہماری قوم میں اتنا ہنر تھا کہ مشر قی وسطی کے ملکو ں نے ہمارے مزدور اور انجینئرز سے بھر پو ر فا ئدہ اٹھا تے ہوئے اپنے اپنے ملک اور شہرو ں کو فن تعمیر کا نمو نہ بنالیا اور یہ مزدور، کا ریگر اور انجینئیراپنے وطن کو تو تعمیر نہ کر سکا البتہ اپنے گھر والو ں کی رو ٹی کے انتظا م کے ساتھ زر مبا دلہ بھیج کر ملکی خزا نے کا بھی سہا را بنا ر ہا لیکن امریکا و افغا ن جنگ سے قوم کو جو تحفہ ملا، اس میں کلاشنکوف کے ساتھ مذ ہبی منافرت ملی جس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی فر قہ واریت میں جوق در جوق لوگ ما ر ے جا نے لگے جن میں بڑی تعداد ڈاکٹرز، انجینئرز اور دانشور جو اس ملک کا بیش بہا سر ما یہ تھے پھر جنھیں زندگیاں محفوظ کر نی تھیں۔
انہو ں نے بھی رخت سفر باندھے اور یو ں صلا حیت بھر ے ذہن سے پاکستانیوں کا انخلاء شروع ہو گیا۔ جا نے والے چلے گئے، وہا ں جا کر بس بھی گئے لیکن آ ج کورونا کے سبب دنیا جو ایک نئے ڈھنگ سے ابھر تی نظر آ ر ہی ہے اور اس محاورے کے مصدا ق کہ " دنیا گو ل ہے" کے مطابق کہیں بھی ر ہنے والے شخص کو اپنے وطن کا رخ کر نا پڑ ے گا کیو نکہ ہر وہ ملک جس نے اپنی ضرورت کے مطابق ہما ر ے اس اثاثے کو اپنے اپنے اندر سمیٹ لیا تھا وہ اب صرف واپس جا نے کے لیے سر حدیں کھول ر ہا ہے۔
لہذا ضرورت اب اس امر کی ہے کہ ملک کے وسیع تر مفا د میں انصا ف کی فرا ہمی کو یقینی بنا یا جا ئے اور جو اعلی دما غ جن میں ڈاکٹر، انجینئیر، آئی ٹی ماہرین، دا نشور طبقہ کے علا وہ محنت کش مزدور جو اس ملک سے چلے گئے تھے، اب وہ دنیا کے بدلتے ہوئے حا لا ت کے تحت اپنے ملک میں واپس آ ر ہے ہیں، اس عمل کو خو ش آ یند تسلیم کیا جا ئے، یہ ہما را قو می قیمتی اثا ثہ ہیں اس لیے حکو مت کو چا ہیے کہ ان کے لیے نئے پرو جیکٹ تیا ر کر ے تا کہ ان کی صلا حیتو ں کو ملک کی تعمیر و تر قی کے لیے استعما ل میں لا تے ہو ئے ر یا ست مد ینہ کی تکمیل کی جا سکے۔