حکومت جاتی ہے تو جائے مگر…!
جون ایلیا کہتے ہیں:
غلط بات پر تیری جو واہ کریں گے
وہی لوگ تجھے تباہ کریں گے
اس پر اب غور کرنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر ہمارے پالیسی ساز بڑوں کو اور خود ہمارے عوامی نمائندوں کو جو کہ عوام کی نمائندگی اور ان کی خدمت کا دعویٰ تو کرتے یں مگر وہ اپنے ذاتی مفادات کی خاطر ہر وہ کام کرتے ہیں کہ جس سے ان کے ذاتی کاروبار میں ترقی ہو اب یہ حقیقت تسلیم کر لینے کی ضرورت ہے کہ ہماری پوری پارلیمنٹ میں ہر طرح کے مافیاز نے اپنی گرفت مضبوط بنا رکھی ہے۔ قومی اداروں میں بھی یہ ہی مافیاز اپنا کلہ مضبوط بنائے ہوئے ہیں تبھی تو پاکستان کی یہ حالت ہے کہ احتساب کا عمل جاری بھی ہے مگر کرپٹ لوگ پھر بھی کلین چٹ لے کر ملکی سیاست میں اپنی حیثیت برقرار رکھے ہوئے ہیں خود اندازہ کر لیں کہ "ہائوس آف شریف" اور "ہائوس آف زرداری" بدستور سیاست میں اپنا کلہ مضبوط بنائے ہوئے ہیں قومی دولت لوٹی بھی گئی، یہ دولت بیرون ملک منتقل بھی ہوئی، بیرون ملک جائیدادیں اور اثاثے بنائے بھی گئے محض خبروں کی حد تک احتساب کا عمل اس احتسابی عمل پر قومی خزانے سے بے پناہ پیسہ بھی خرچ ہوا مگر پھر بھی لوٹی گئی قومی دولت واپس نہ لائی جا سکی عمران حکومت کے پورے عرصے میں نیب کے ادارے نے احتسابی عمل جاری رکھا اس عمل کو انتقامی کارروائیوں کا نام دے کر عوام کی ہمدردیاں حاصل کی گئیں، حقائق اب پوشیدہ نہیں رہے ماضی میں پاکستان کے دو حکمران خاندانوں نے جس پیمانے کی کرپشن کی اور پھر ان کے ساتھ بیورو کریٹس نے مل کر جو سہولت کاروں کا کردار اداکیا، بیورو کریٹس کی اس کھیپ نے قومی اداروں میں جس مافیاز کو جنم دیا کیا نتیجہ ہے کہ تمام قومی ادارے موجودہ حکومت کے ساتھ کسی طور پر عملی تعاون نہیں کر رہے اعلیٰ عہدوں پر فائز افسران کی بھاری تعداد حکومتی پالیسیوں کو جان بوجھ کر ناکام بنانے کی نت نئی حکمت عملی وضع کر کے حکومت کو مشکلات سے دو چار کر رہی ہے اقتصادی پالیسی، تجارتی پالیسی، امن عامہ، عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہی میں مشکلات، شوگر مافیا، گیس مافیا، بجلی مافیا، آٹا مافیا یہ سب کیا ہے حکومت کو ہر سطح پر ناکام بنانے کے حربے میں دوسری جانب اصل حقیقت یہ ہے کہ حکومت یقینا عوام کو ریلیف فراہم کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ضرور ہے۔
ترقیاتی منصوبے اور قومی معیشت کو بہتر بنانے کی جانب عملی اقدامات کئے گئے۔ حکومت نے خاص طور پر معیشت کی بحالی کی جانب جو اقدامات اٹھائے ہیں اس کی بھر پور انداز میں تشہیر کی ہی نہیں گئی۔ قومی دولت لوٹنے والوں کو معاف کر دینا اور نئے سرے سے ملکی سیاست میں ان ہی حکمرانوں کو برابر شریک رکھنا یہ اب قومی مفادمیں نہیں رہا ہے جس پر وزیر اعظم عمران خان کا بڑا واضح موقف موجود ہے یقینا ان کے اس موقف سے قومی ادارے اور خاص طور پر حساس ادارے ضرور کوئی حکمت عملی وضع کریں گے کیونکہ اب عام خبریں یہ ہی ہیں کہ سابقہ حکمرانوں کو ریلیف فراہم کرنے کی پالیسی پر عمل ہو رہا ہے جیسے عوامی سطح پر این آر او کا نام دیا جاتا ہے اس ضمن میں عدالتوں نے جو کردار ادا کیا ہے اس کی عوامی سطح پر اچھے لفظوں میں پذیرائی نہیں ہو سکی جو کہ عدالتوں کے فیصلوں کے بعد اب رائے پائی جاتی ہے اس کی کھلی مثال میاں نواز شریف کا سزا یافتہ ہونے کے باوجود ملک سے باہر چلا جانا اور پھر ان کے خاندان کے دیگر افراد کا اشتہاری ہو جانا یہ ہمارے عدالتی نظام پر بدنما دھبہ ہے اسی طرح آصف علی زرداری اور میاں شہباز شریف کو کرپشن کے الزامات سے کسی مک مکا کی پالیسی کے تحت کلین چٹ دے دینا یہ سراسر زبادتی ہو گی ماضی میں جنرل پرویز مشرف نے مفاہمت کی پالیسی کے تحت ان ہی خاندانوں کو نئی سیاسی زندگی دے کر پوری قوم کے ساتھ دھوکہ کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قومی خزانہ مل کر لوٹا گیا اور ملک غیر ملکی قرضوں کی دلدل میں پھنس ک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا۔
اگر اب پھر اسی پالیسی پر عمل کیا جاتا ہے ہائوس آف شریف اور ہائوس آف زرداری کو کسی بھی سطح پر مفاہمت یا ریلیف کی صورت میں ایک بار پھر کلین چیٹ دے کر ملکی سیاست میں کسی بھی قومی ادارے نے کوئی کردار ادا کیا تو یہ آنے والی نسلوں کے ساتھ ظلم ہو گا ہماری عمر کے لوگ تو اب قبر کنارے جا پہنچے ہیں کم از کم موجودہ نوجواننسل اور آنے والی نسلوں کے مستقبل کی خاطر انصاف پر مبنی پالیسی بنائی جائے، وزیر اعظم عمران خان کا یہ بیان کہ وہ آنے والے انتخابات کا نہیں بلکہ وہ مستقبل کا سوچ رہے ہیں ان کا یہ بیان انتہائی اہم ہے ان حالات میں قومی ادارے یا اہم اداروں کی اعلیٰ شخصیات احتساب کے عمل میں رکاوٹ بن رہی ہیں یا عمران حکومت پر دبائو ڈالا جا رہا ہے کہ مفاہمت کی پالیسی کے تحت ہائوس آف شریف اور ہائوس آف زرداری کے علاوہ دیگر بدعنوان شخصیات کے خلاف اپنا رویہ بدل لیں اور حکومت کی باقی ماندہ میعاد پوری کر لیں یہ کسی طور پر بھی دانشمندانہ فیصلہ نہ ہو گا عمران خان کو اب آنے والے دنوں میں انتہائی سخت اور تلخ فیصلے کرنے ہوں گے ان فیصلوں میں یقینا مافیاز آڑے آئیں گے قومی ادارے بھی عدالتوں سمیت حکومت مخالف پالیسی اختیار کریں گے ان حالات میں عمران حکومت جاتی ہے تو جائے عمران خان کو عوام میں جانا ہو گا اور کھل کر بتانا ہو گا کہ وہ کون سے خفیہ ہاتھ ہیں جو کہ ان کی پالیسیوں کو ناکام بنا رہے ہیں اور ایک بار پھر مفاہمت کے نام پر سابقہ حکمرانوں کو معاف کرنے کی بات کر رہے ہیں عام انتخابات اب ملکی مسائل کا حل نہیں رہے نظام ہر سطح پر تبدیلی کرنا پڑے گا اس ضمن میں بے شک حکومت سے نکل کر عمران خان کو ایک اور اننگز کھیلنے پڑے گی یقینا عمران خان کو بھر پور کامیابی ملے گی۔ اسی صورت میں کہ ٹیم بدل لیں اور کھل کر عوام کو اعتماد میں لیں یہ بھی حقیقت ہے کہ سابقہ دونوں حکمران خاندانوں کی کرپشن پہلی مرتبہ اس سطح پر منظر عام پر لائی گئی ہے کہ عالمی سطح پر یہ تسلیم کیا جا رہا ہے کہ عمران خان کرپشن کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔