ذخیرہ اندوزوں کی حکومت
آج کل اس حکومت میں جس تیزی سے ذخیرہ اندوزوں نے اپنا سرمایہ بڑھایا ہے، اس کی مثال ماضی میں کم ہی ملتی ہے۔ ہوسکتا ہے سود کی شرح تیزی سے کم کرنے کے بہت سے فوائد ہوں جیسا کہ مندی میں پھنسی مارکیٹ کو سستے قرضے ملنے سے فائدہ ہوتا ہے، مگر تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ ایسے سستے قرضے، ذخیرہ اندوزوں کو بھی مل سکتے ہیں اور ایسے قرضے اصل مقصد سے ہٹ کر ذخیرہ اندوزی کے لیے استعمال ھوتے ہیں۔ ایسے ادوار جن میں ان ذخیرہ اندوزوں کوکھلی چھوٹ دی جاتی ہے وہ ادوارکسی بھی لحاظ سے عوامی ادوار نہیں ہواکرتے۔
جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں LMMکے نام پر 3 فیصد شرح کے حساب سے ان سرمایہ داروں وکارخانہ داروں کوقرضے دیے گئے کہ وہ مقامی سطح پر بند ہوئی مشینری اپنے کارخانوں میں لگائیں گے، وہ قرض بھی لے گئے کارخانے بھی لگائے مگر ان کارخانوں میں لگائی گئی لاگت کو بینک کے ساتھ مل کر بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ یعنی ان قرضوں کوکارخانوں میں سرمایہ کاری کے علاوہ ذخیرہ اندوزی کے لیے بھی استعمال کیا گیا۔ ان قرضوں کو رئیل اسٹیٹ کے بزنس میں لگایا گیا۔
خان صاحب کی ناک تلے چینی چور ہوتی رہی مگر خان صاحب بھانپ نہ پائے، یہ کیسے ممکن ہے۔ آج دنیا میں چینی کی قیمت شدید انداز میں گر رہی ہے، اس لیے کہ دنیا کے سارے ہوٹل وریسٹورنٹ بند پڑے ہیں۔ چینی کی ڈیمانڈ میں 40سال سے اتنی کمی نہیں آئی، جتنی کہ اب آئی ہے، مگر پاکستان میں چینی کی قیمت بدستور وہی رہی گری نہیں، چینی کا بحران الگ نوعیت کا تھا مگر اس کا بہت حصہ ذخیرہ اندوزی کے طریقہ کار سے مل رہا تھا کہ اچانک کارخانے کے مالکوں نے سبسڈی لے کر چینی کی ایکسپورٹ کرکے لوکل مارکیٹ سے چینی غائب کردی۔
آٹے کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ ہم اس حوالے سے 22 کروڑکی قوم نہیں بلکہ 26کروڑ کی قوم ہیں کیونکہ افغانستان میں بھی ہماری گندم جاتی ہے۔ کچھ اچانک سے ایسا ہوتا ہے کہ پنجاب کے محکمہ خوراک میں بڑی تیزی سے تبادلے ہوئے اور سندھ کے شمال میں سرکاری گوداموں میں رکھی ہوئی گندم غائب ہونا شروع ہوجاتی ہے اور پھر ان سب کا مقام قندھار اور کابل ہوتا ہے۔ آٹے کی قیمت جس تیزی سے خان صاحب کی حکومت میں بڑھی ماضی میں اس کی مثال نہیں۔ اس میں بھی ذخیرہ اندوزکود پڑتے ہیں اورآٹا غائب۔ یہ ذخیرہ اندوز بڑے بڑے گودام کرائے پر لیتے ہیں۔ آج کل یہ انتہائی منافع بخش کاروبار ہے کہ آپ کوئی ہوٹل یا پلازہ مت بنائیں بلکہ گودام بنائیں اورذخیرہ اندوزی کا کام شروع کردیں۔
ان ذخیرہ اندوزیوں سے پہلے اس حکومت سے ڈرگ کاریٹل کا بہت بڑا کام کروایاگیا جس تیزی سے دوائیاں مہنگی ہوئیں وہ ہم سب کی نظرمیں ہے اور وہ بھی ایسی دوائیاں جوکہ زندگی بچانے کے حوالے سے اہم ہیں۔ اس حکومت نے ماسک اس وقت چین کو خیرسگالی کے تحت بھیجے جب ہم کو ان کی اشد ضرورت تھی اور یوں ماسک یہاں کی مارکیٹوں سے غائب اور اگر ملیں بھی تو دس گنا مہنگے۔
میڈیکل اسٹورزکی حالت ِ زار پرکیا رونا، جو دوائیاں ضرورت کی ہیں وہ آپ کو ملتی نہیں، سب مارکیٹ میں بلیک ہورہی ہیں بلکہ اب تو ایسا لگ رہا ہے کہ میڈیکل اسٹورپر سونا یا پھرکوئی ملکیت گروی رکھ کر دوائیاں لینی پڑیں گی۔
اب ان کے سامنے ہے پٹرول کا بحران۔ جب دو مہینوں میں یہ تیسری مرتبہ پٹرول سستا کرنے جا رہے تھے تومیں حیران تھا کہ اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے لیکن پھر اچانک پٹرول مارکیٹ سے غائب ہونے لگا۔ ان ذخیرہ اندوزوں نے سستی مارکیٹ یعنی لوکل مارکیٹ سے پٹرول خریدا جس سے اربوں روپے کی مدد میں حکومت کو ٹیکس کے حوالے سے نقصان ہوا۔ بڑی بڑی تیل کی کمپنیوں نے جن کے پاس پٹرول اسٹورکرنے کی صلاحیت تھی انھوں نے اسٹورکیا۔ ان کمپنیوں پر بظاہر دکھانے کے لیے پیلنٹی بھی لگائی گئیں جوکہ چار کروڑ سے زیادہ نہ تھی اور پھر ایک ہی جھٹکے میں 25 دن کے اندر 33فیصد اضافہ اور وہ بھی اوگرا کی سمری کے بغیر، باوجود اس کے کہ پٹرول کی قیمت انٹرنیشنل مارکیٹ میں صفر سے بھی کم تھی جو اب اتنی بھی نہیں بڑھی بلکہ اس کے آدھے سے بھی کم ہے جوکورونا سے پہلے اس کی قیمت تھی، یوں پٹرول کے ذخیرہ اندوزوں نے اربوں روپے کمائے صرف 25 دنوں میں۔
یہ معیشت جو پہلے ہی ڈاکومینٹڈ نہیں تھی اب اور بھی نان ڈاکومینٹڈ ہونے جا رہی ہے۔ اب آپ زمین بھی خرید سکتے ہیں اورآپ سے یہ بھی نہیں پوچھا جائے گا کہ اس کے پیسے کہاں سے آئے؟
میں نے اپنے پچھلے کالم میں لکھا تھا کہ پٹرول، ذخیرہ اندوزوں کے ہاتھوں مارکیٹ سے غائب ہوچکا ہے، اس لیے کہ کچھ دنوں میں اس کی قیمت بہت تیزی سے بڑھنے والی ہے۔ یہ کوئی چینی اور آٹا نہیں جو مارکیٹ سے غائب کردو تو مارکیٹ میں خود اپنی نئی قیمت کا تعین کرلیتا ہے۔ پیٹرول کی قیمت کا تعین حکومت کے کنٹرول میں ہے۔ اس لیے اس کی قیمت حکومت ہی بڑھائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پیٹرول کو ذخیرہ کرنیوالے لوگ کوئی اور نہیں بلکہ حکومت کے اندرہی بیٹھے ہیں۔ پی ٹی آئی کی ایک اہم شخصیت پہلے بھی SECP سے سزایافتہ تھی۔ ان کے پاس اندر سے اطلاعات تھیں اور یوں انھوں نے اسٹاک ایکسچینج میں حصص خریدے جن کی قیمت بعد میں بڑھ گئی۔
بہت باریک سافرق ہے Speculation اور اندر سے خبر ہونے میں۔ مارکیٹ کے اندر ڈیمانڈ اورسپلائی سے قیمتوں کا اندازہ لگانا کوئی بری بات نہیں لیکن اندر سے خبر ہوکہ حکومت کسی چیزکی قیمت گرا رہی ہے یا بڑھا رہی ہے اور اس پر مارکیٹ میں کھیلنا سنگین جرم ہے۔
اب یوں لگتا ہے کہ اس حکومت کو صرف ذخیرہ اندوزوں، چینی اورآٹے کے کاروبار کرنے والوں یا دوائیاں بنانے، بیچنے والوں یا ایکسپورٹ کرنے والوں کے مفادات اہم ہیں۔ اس حکومت نے کرپشن کو بنیاد بنا کر الیکشن میں حصہ لیا تھا اوراب نا اہلی میں اتنا نام کما لیا ہے کہ لوگوں نے کرپشن یا احتساب سے توبہ کرلی۔ لوگ بھوک وافلاس سے بدحال ہیں کیونکہ ذخیرہ اندوزوں کا ہدف عام آدمی کی جیب پر ڈاکہ ڈالنا ہوتا ہے جب کہ کرپشن کرنے والوں کا ہدف سرکاری مال پر ڈاکہ ڈالنا ہوتا ہے۔