پیرا 66
کتنے سارے عدالتوں کے فیصلے ہیں، متنازع بھی اور غیر متنازع بھی۔ نظریہ ضرورت کے تحت بھی اوراس کے برعکس بھی!
قانون و انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے فیصلے اور ایسے بھی جو یہ تقاضے پورے نہ کرتے۔ دراصل عدالتیں ہمارا ہی عکس ہوتی ہیں۔ ہم میں سے ہوتی ہیں اور ہم جیسی ہی ہوتی ہیں۔ فیصلے وہ نہیں دے رہی ہوتیں ہم دے رہے ہوتے ہیں۔ جب لوگ بیدار ہوجاتے ہیں، شعور بڑھ جاتا ہے تو پھر اس کا اثر عدالتوں پر بھی آتا ہے۔ عدالتیں بول پڑتی ہیں۔ اور جب خود لوگ ہی نہ بولیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ کورٹس بھی بولیں۔
جنرل مشرف کا آئین کی پامالی کا کیس۔ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا کیس بن گیا۔ یوں تو بظاھر بہت ہی چھوٹا سا مقدمہ ہے، مگر اثرات کے اعتبار سے بہت بڑا۔ صحیح کہتے ہیں جسٹس نذر اکبر اپنے اختلافی ججمنٹ میں کہ اس وقت وہ سب چپ کیوں تھے اور جب چپ تھے تو پھر ان کی خاموشی کیا معنی رکھتی تھی۔ مگر سوال یہ ہے کہ کتنا بدل گیا ہے پاکستان کہ اب سب چپ نہیں ہیں۔ آرٹیکل چھ آئین میں موجود تھا، اٹھارویں ترمیم نے ان کو بھی ایک ہی صف میں کھڑا کردیا جو یہ کام کرنے میں سہولت کارتھے یا جو فیصلہ سناتے ہیں نظریہ ضرورت کے تحت۔ تین ججوں میں مختلف رائے ہیں مگر دو ججوں کی رائے متفق ہے۔
ججمنٹ کا پیرا 66 جب مائنورٹی کے جج کی سوچ ہے تو پھر اس کی پرابلم کیا ہے۔ اپیل تو مائنورٹی کے فیصلے پر نہیں ہو سکتی ہے۔ ہاں مگر سب کی آنکھ آرٹیکل چھ کے بعد پیرا ۶۶ پر لگی ہوئی ہے۔ بلکل صحیح ہے جو پیرا66 کہتا ھے کہ وہ نا آئین کے آرٹیکل 66 کی روح کے مطابق ہے نا کہیں تحریر ہے۔ مگر تاریخ میں ایسے واقعات رقم ہوئے ہیں۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ یہ mediaval کے زمانے کی بات ہے کہ اس کا تناظر(کانٹیکسٹ) کچھ اور ہے۔
ایک جج کی رائے چلو متنازعہ ہی صحیح، کل جو کورٹ نظریہ ضرورت کے تحت فیصلے سناتی تھی کیا وہ آئین میں موجود اصولوں کی رہنمائی میں تھے؟کل جو سپریم کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کے ٹرائل کے فیصلے کے یعنی پھانسی کے آرڈر کو بحال رکھا وہ کیا تھا؟ کیا وہ ایک آئینی فیصلہ تھا۔ ایک سول وزیراعظم کا ملٹری ڈکٹیٹر کے ہاتھوں بے جا قتل نہ تھا؟ وہ بھی ایک extreme تھی اور66 بھی ایک extreme۔
اب یہ رسم چلی ہے کہ سر اٹھا کر چلیں اور وطن عزیز کے چاہنے والے کو نظریں چرانے کی ضرورت باقی نہیں۔ ان شب خونوں نے ایک نئی اشرافیہ کو جنم دیا ورنہ پاکستان آج جس دوراہے پر کھڑا ہے، نہ ہوتا۔ ہم بھی باقی ماندہ سائوتھ ایشیا کے ممالک کی طرح ہیں جنھوں نے ہماری طرح انگریز سماج سے آزادی لی تھی، سات فیصد شرح نمو سے اپنی مجموئی پیداوار کو آگے بڑھاتے رہتے، غربت سے کوسوں دور ہوتے اور بیلٹ باکس پر بار بار جانے سے ہمارے ووٹر کا شعور بنتا، نئی غلامیاں ہم پار کر چکے ہوتے۔ ہم نے کئی زرداری ردی کے ٹوکرے میں ڈال دیے ہوتے۔
ہم نے خود اپنے آپ کو تنہا کر دیا۔ وقت بہت تیزی سے بدلتا ہے، جب ایوب نے اقتدار پر قبضہ کیا لوگ سڑکوں پر نہیں نکلے اور یہی کہا تھا جسٹس منیر نے۔ کامیاب فوجی انقلاب خود اپنا لیگل آرڈر لے کر آتا ہے۔ بلکل صحیح ہے ایوب صاحب اپنا آئین لے کر آئے، وہ آئین جو کسی بھی پارلیمنٹ سے منظور شدہ نہ تھا۔ ایوب گئے تو ان کا آئین بھی گیا، یحییٰ پھر ایک فوجی انقلاب لے کر آئے لوگ پھر راستوں پر نکلے اور اس طرح یہ فوجی انقلاب کامیاب تھہرا جسٹس منیب کی تھیوری سحیح ثابت ہوئی اور اسطرح نیا لیگل آرڈر آگیا، جب جنرل ضیاء الحق نے شب خوں مارا، یہ صحیح ہے کہ لوگ گلیوں میں نہ نکلے۔
یہ بھی صحیح ہے کہ جب لوگ گلیوں میں نہ نکل سکے تو نظریہء ضرورت تو آنا ہی تھا اور پارلیمنٹری نظام کی واپسی کے لیے آٹھویں ترمیم کی کڑوی گولی تو کھانی تھی۔ 21 اکتوبر بھی یہی سب ہوا۔ مگر جب تین نومبر کا قدم اٹھایا گیا تو لوگ سڑکوں پر آگئے، نہ اس کو نظریہء ضرورت کا کور ملا نہ پارلیمنٹ نے validate قرار دیا۔ تو پھر تین نومبر 2007 کے اقدام پر آرٹیکل6 کی تلوار منڈلا رہی تھی۔
وہ ایسے کہ اس بار آئین ایوب کی طرح کسی فرد واحد نے نہیں بنایاتھا۔ عوام نے بنایا تھا consensus ڈاکیومنٹ تھا اس کو abeyance میں ڈالا جاسکتا تھا مگر معطل نہیں کیا جا سکتا تھا اور یہاں بھی جسٹس منیر کی تھیوری ٹھیک ثابت ہوئی اس لیے کہ جو ۳ نومبر کو ہوا، وہ انقلاب نہ تھا۔ وہ اپنا لیگل آرڈر تو کیا نظریہ ضرورت بھی کھو بیٹھا اور آئین میں ترمیم کے ذریعے ویلڈٹی بھی نہ مل سکی۔ جس طرح سے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو سیکیورٹی کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ مختصراّ یہ کہ یہ ایک فیصلہ تھا پیرا 66، آرٹیکل 6کے حدود سے تجاوز کر گیا۔ مگر اس پر عمل درآمد اس لیے نہیں ہو سکتا کہ وہ اقلیتی جج کی رائے ہے، فیصلہ نہیں۔ اکرثیتی ججوں کی رائے فیصلہ ہوا کرتی ہے۔ وہ بھی اپیل میں جاکر بیاں کیجئیے کہ غلط ہے۔
اگر فیصلہ ففتھ جنریشن کی جنگ میں دشمن کا ہتھیار ہے تو پھیر آرٹیکل 6 بھی ہو سکتا ہے تو پھر آئین پاکستان بھی۔ پاکستان آج ایسے دوراہے پر آن کھڑا ہے جہاں یہ فیصلے ہونے جا رہے ہیں، کیا اس ملک میں حق کی حکمرانی وہی ہے جو آئین میں وضع کی گئی ہے یا کوئی اور۔ بہتر یہی ہے کہ ہم آئین کی طرف آہستہ آہستہ لوٹ چلیں ورنہ اگر ٹکراؤ میں یہ فیصلے ہوئے تو بہت نقصان ہوگا۔
آج ٹرمپ کو کانگریس نے impeach کیا، ہندوستان مودی کے خلاف ائٹھ کھڑا ہواہے، ایران میں بھی عوام بیدار ہوچکی ہے، غرض کہ پوری دنیا میں ہلچل مچ گئی ہے اور ھمارے پاکستان میں بھی۔ یہ سرد جنگ کا دور نہیں جس کی پیداوار ضیاء الحق تھا، یہ 9/11 کا دور ہے جس نے مشرف ہمیں دیا۔ آج ملک میں شب خوں مارنا اتنا آسان نہیں جتنا کل تھا اور ظاہر ھے کہ Hybrid Democracy بھی اس کا نعم البدل نہیں۔ جنرل مشرف کا تین نومبر کا اٹھایا ہوا قدم جس کا طلاق21 اکتوبر پر ہوگا، اور پھر ۵ جولائی کے باب بھی کھلیں گے یعنی جو کچھ1973 کے آئین کے ساتھ ہوا، اب یہ آئین خود بولے گا۔