نئی قیادت، پرانی سیاست
ہماری سیاست میں ایک شفٹ آیا ہے، ملک کی دونوں بڑی پارٹیوں کی قیادت میں جو تبدیلی آرہی تھی وہ اب واضح انداز میں محسوس بھی کی جاسکتی ہے۔ بینظیر جو اپنے والدکی طرح پنجاب میں اپنی مقبولیت برقرار نہ رکھ سکی تھیں، وہ اب ایک بار پھر مریم نواز شریف کی شکل میں ابھرکر سامنے آرہی ہے۔
بلاول بھٹو ہیں جو والدہ کی شہادت کے بعد کم عمری اور ناتجر بہ کاری کے باعث عملی سیاست میں اس طرح اپنے پیر نہ ڈال سکے تھے، مگر اب وہ بھی بھرپور انداز میں ابھرکر سامنے آگئے ہیں۔ پارٹیاں دونوں وہی ہیں مگر اب ایک پارٹی کی تیسری نسل نے کمانڈ سنبھال لی ہے اور دوسری پارٹی کی دوسری نسل نے۔ مگر ان لیڈروں کو نوجوان قیادت کے زمرے میں شمارکیا جاسکتا ہے۔ ان کے ابھرنے کے لیے ایک لحاظ سے ماحول بہت بہتر ہے۔
دونوں قیادتیں اس وقت حزب اختلاف میں ہیں اور حزب اقتدار کوئی اور۔ اورجو حزب اقتدار ہے وہ روایتی وآمریتی بھی نہیں مگر جمہوری قوت بھی نہیں۔ کل جس طرح جنرل مشرف نے ان دونوں جماعتوں کو چارٹر آف ڈیموکریسی کے دہانے پر لاکرکھڑا کیا اور آج ان کے والدین پر بنائے ہوئے کیسز اور طرح طرح کے الزامات جو ان پر عائد ہیں انھوں نے ان کو ایک ساتھ کھڑا کردیا ہے۔ اسی طرح سے پرانے لیڈران میں سے مولانا فضل الرحمن بھی ان کے ساتھ کھڑے ہیں تو حاصل بزنجو بھی۔
لوہا گرم بھی ہے کہ افراط زر نے جو کروٹ لی ہے، اس کے عتاب میں پوری قوم آگئی ہے۔ حکمران جماعت اپنی غیر مقبولیت کے اعتبار سے ایک سال میں وہ ریکارڈ توڑ چکی ہے جو پانچ سال کے کہیں آخر میں جا کر ٹوٹتے ہیں۔ یہ جوکچھ آج ہوتا جا رہا ہے وہ ہی تو بویا گیا تھا، بلخصوص اسحاق ڈار کے زمانے میں اور مجموعی طور پر شرفاء بھی وہی ہیں، جوکل مسلم لیگ میں تھے، آج خانصاحب کے ساتھ ہیں اور اس سے پہلے جنرل مشرف کے ساتھی تھے۔
بلاول بھٹو صاحب کی پارٹی کا بھی ارتقاء کچھ عجیب انداز میں ہوا۔ پارٹی کے قائد اس وقت اسٹیبلشمنٹ کے اتنے ہی قریب تھے، جتنے آج خانصاحب ہیں۔ اس سے پہلے ایوب اور اسکندر مرزا کے زمانے میں وہ اقتدار کے ایوانوں میں آئے وہ قصہ الگ ہے۔ 1970 کے بحران میں ان کا کردار پاکستان کی تاریخ میں سیاہ حروف میں رقم ہوگا۔
بعد ازاں وہ عوامی رہنما بن کے ابھرے اور پھر اس طرح تاریک راہوں پرمارے گئے بمعہ اپنے اہل وعیال۔ بیٹی نے بڑی مشکل وقت میں قیادت سنبھالی۔ اور پھر اس طرح C-130 صدرکا جہاز پھٹ گیا۔ راستہ نکلا جمہوری قوتوں کو اقتدار میں شراکت ملی۔ مگر مریم نواز کے اجداد آمریت کی کوکھ سے نکلے ہیں اور پھر ایک دن آیا کہ اسی آمریت کی بنیاد پر وہ خود لوگوں میں اپنی جڑیں بنا گئے کیونکہ پنجاب میں اچھے خاصے لوگ جنرل ضیاء الحق کو اپنا ہیرو مانتے تھے۔
بلاول سیکولر سوچ کے مالک ہیں۔ انھیں نانا اور ماں کی طرف سے بہت بہتر تاریخی ورثہ ملا ہے جس میںان کے دو ماموں کا بھی شمارکیا جاسکتا ہے۔ ہاں مگر باپ اور پھپھو کی طرف سے بہت ہی منفی ورثہ حصہ میں آیا ہے۔ ان کے پاس سندھ کے باہر تو جیالوں کا ورثہ ہو مگر سندھ میں اب وہ ماضی ہوچکا۔ جس طرح پنجاب میں تاجر اور مڈل کلاس مریم نوازکے ساتھ ہیں۔ بلاول کے ساتھ ایسا ماجرہ نہیں۔ یہ ان کا سندھ میں مسلسل تیسرا دور ہے اور سندھ میں بری حکمرانی نے جو ریکارڈ قائم کیے ہیں اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں۔
آج ستر کی دہائی کے بعد پھر یہ ملک ایک بہت بڑے بحران سے گذر رہا ہے۔ یہ بحران اس بارکسی اور نے نہیں خود ہم نے پیدا کیا ہے۔ آمریتوں اور نالائق جمہوریتوں کا تسلسل ہے۔ اس بار ملک جس دوراہے پرکھڑا ہے، اس کی بنیادی وجہ اداروں کی کمزوری ہے۔ وہ اپنے دائرہ کارکے اندر رہ کر وہ کام نہیں کر پا رہے جو ان کوکرنا چا ہیے جو ان کے ذمے ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہاں جن کا حق بنتا تھا حکمرانی کا، انھوں نے خود اپنے حق کو غصب کیا۔ جب ان سے اقتدار لیا جاتا ہے تو کوئی سڑکوں پر نہیں آتا۔
اب جو اس ملک میں نئی قیادت ابھر رہی ہے ان کے سامنے بھی یہی کچھ ہے جو ان کے اجداد کے پاس تھا۔ جب ذوالفقار علی بھٹو کو شیخ مجیب کے اقتدار ملنے پر ساتھ کھڑا ہونا تھا، اس وقت وہ آمریتوں کے ساتھ کھڑے ہوئے۔ جب بے نظیر کے خلاف مڈ نائٹ جیکال ہورہا تھا اس وقت نواز شریف جمہوریت کی بقاء کے لیے نہیں بلکہ انھیں کے ساتھ کھڑے تھے جو آمریت کے ساتھی تھے اور پھر یہی زرداری تھے جو سینیٹ کے انتخابات میں میاں نواز شریف کے ساتھ نہیں تھے مگر آج یہ دونوں نئے چیئرمین سینیٹ کا چناؤکرنے کے لیے ایک ساتھ کھڑے ہیں۔
معیشت کے حوالے ہمارے لیڈروں سے بہتر فیصلے آئی ایم ایف کی طرف سے آئے ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ ہم ان کو تب بلاتے جب ہم اپنی معیشت کو اس دہانے کھڑا کردیتے جہاں سے پھرکوئی متبادل راستہ باقی نہیں رہتا۔ ہندوستان آئی ایم ایف کے پاس صرف ایک مرتبہ گیا وہ بھی1991 میں، ہم تیرہ بار جا چکے ہیں۔ ہمارا آئی ایم ایف کے پاس بار بار جانا خود اس بات کی دلیل ہے کہ ہماری شرفاء ہر بار ہماری معیشت میں بگاڑ پیدا کر دیتی ہے، اپنے مفادات کی وجہ سے اور اپنی نااہلیوں کی وجہ سے۔
فی الحال اس ملک میں جمہوریت کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے اور یہ وہ خبر ہے جس پر مریم نواز اور بلاول کھیلیں گے، کھیلنا بھی چاہیے، مگر اتنی مہنگائی ہونے کے باوجود، بے جا ٹیکس لاگو ہونے کے بعد بھی، کوئی سڑکوں پر آنے کے لیے تیار نہیں۔ لوگ اس لیے ابھی تک راضی نہیں کہ شاید انھوں نے بھی کوئی ایسے خاطر خواہ کام نہیں کیے جو فلاح و بہبود اور اداروں کو بہتر بنانے کے لیے ہوں۔
ذوالفقار علی بھٹو ایک بھروسے کا نام تھا۔ لوگوں کے دلوں میں رہتا ہے کہ جب وہ پھانسی چڑھے تو MRD 83 کی شکل میں پورا دیہی سندھ تھا جو راستوں پر نکل آیا۔ یہ وہی لوگ تھے جو وڈیروں کے ظلم کا شکار تھے۔ بے نظیر کے دور میں بھی اچھی حکمرانی نہیں ہوئی مگر وہ بھٹو کی بیٹی تھی۔ آمریتوں کے سامنے پہاڑ بن کے کھڑی ہوئی وہ بھی بھروسے کا نام تھی۔ جب قتل ہوئی تو پورا سندھ ماتم کدہ بن گیا اور اب جب زرداری جیل کی یاترا کو جا رہے تھے تو یہ وہی سندھ ہے جہاں ایک پتہ بھی نہ ہلا۔
اب بھی بہت کچھ برا ہونے جا رہا ہے۔ اظہار رائے پر پابندیوں سے لے کر مخالف سیاسی حلقوں کے اوپر طاقت کا استعمال، جھوٹے مقدمات، افراط زر، بے روزگاری اور غربت۔ یہاں جو طاقتیں حکومتیں گراتی ہیں، ان میں سے ایک طاقت ابھی خان صاحب کی حکومت گرانے کے حق میں نہیں ہے اور جو دوسری طاقت عوام ہے وہ اب بھی سڑکوں پر آنے کے لیے تیار نہیں۔ ہاں لیکن ان دنوں بڑی پارٹیوں کی قیادت تبدیل ہوچکی ہے۔ اس وقت واقعتا پاکستان کو ایک بھرپور نیشنل قیادت چاہیے، مگر کیا اب بھی وہ اسحاق ڈارکو ہمیشہ کی طرح اپنا وزیرخزانہ بنائیں گے؟ کیا بلاول بھٹوکے دائیں بائیں اب بھی ابا اور پھپھو ہی ہوں گے۔