کورونا کا نیا بیانیہ
ایک جھٹکے میں ہی کتنی بدل گئی دنیا، کورونا وائرس کے خوف سے۔ اس سے پہلے 9/11 کا واقعہ ہوا تھا۔ ایک دم سے دنیا وہ نہیں رہی جو 9/11 سے پہلے تھی۔ 9/11 نے مگر کیا پیغام پہنچایا دنیا تک۔ نفرتوں کے بازار لگا دیے۔ مسلمانوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
افغانستان پر جنگ مسلط کردی گئی تو پاکستان پرآمریت۔ یہ نفرت یوں بڑھی کہ پہلے مجاہدین سے دوستی کی گئی کہ افغانستان میں سوویت یونین کو شکست ہو، پھر طالبان کو شکست ہو جو خود مجاہدین تھے۔ یوں ہوتے ہوتے سرد جنگ کا آغاز ہوا۔ دو بڑی طاقتوں سے ایک بڑی طاقت رہ گئی۔ وہ طاقت تو تھی مگر معیشت بڑی نہ تھی۔ سوگھٹنوں کے بل گری۔
ووہان میں کوروناوائرس کا پھیلنا کوئی عالمی سازش نہیں۔ حسب معمول جب یہ وائرس پھیلا تو ووہان کی انتظامیہ اس کو اسی طرح چھپاتی رہی جس طرح 1950 کی دہائی میں آئے ہوئی قحط کو چھپاتی رہی تھی۔ ووہان میں جب ڈاکٹروں نے حکومت کو خبردار کرنے کی کوشش کی تو ان کو جیل میں ڈال دیا گیا اور پھر یوں صورتحال خراب ہوئی۔ لیکن پھر بھی اوریقینأ جس طرح سے چین نے اس صورتحال پر کنٹرول کیا وہ قابل تحسین ہے اور اب دنیا کی عوام کے سامنے ہے کورونا، ہر گھر کو فکر ہے کہ اس کورونا سے کیسے نجات پائی جائے۔
کورونا بیانیہ پہلے والے بیانیہ پر فوقیت حاصل کرکے دنیا کوایک نیا بیانیہ دے رہا ہے۔ یہ وہ بیانیہ ہے جہاں ساری انسانیت ایک ہی مسئلے سے دو چار دکھا ئی دے رہی ہے۔ وہ مسئلہ جس کا کوئی مذہب نہیں، ثقافت نہیں، زبان یا مسلک نہیں۔ یہ وہ مسئلہ ہے جس سے تمام عالم انسانیت طور پر دوچار ہے اور اس کے خلاف نبردآزما ہے۔ اس بیانیے نے ایک ساتھ پوری انسانیت کو 9/11 کی انسانیت کو الگ کردیا۔ کورونانے تمام انسانیت کو ایک ساتھ کھڑا کردیا۔ 9/11 دائیں بازو کی سیاست، نفرتوں اور جذباتی باتیں ابھار کر پاپولر ووٹ حاصل کرنے کی سیاست کا ابھار تھا۔ جب کہ کورونا نے دنیا کو پھر سے موقع فراہم کیا ہے کہ سیاست منطقی اور زمینی حقائق کے پس منظر میں کرنی چاہیے۔
ہاتھ دھو کے رکھنا، زندگی بچانے کے برابر ہے یہ ہے کورونا سے لڑنے کا بیانیہ۔ شہر صاف ستھرے ہونے چاہیے۔ فیومیگیشن ہونا چاہیے۔ نکاسیٔ آب (Sanitation) کا نظام بہتر ہونا چاہیے۔ 9/11 کا بیانیہ تھا جنگیں ہوں، بارود اور اسلحہ کی خریدو فروخت ہو، نظریاتی ریاست ہو وغیرہ۔ جب کہ کورونا کہتا ہے کہ ملک میں بہترین رفاعی نظام صحت کا انتظام ہو، ملک کی سب سے بڑی حکومت میونسپل حکومت ہے۔ ملک کا سب سے بڑا نظریہ صفائی اور ستھرائی ہے۔
ہمارے پاس کم از کم ایک کروڑ بستروں کے اسپتال ہونے چاہیئیں، اگر ہماری آبادی بائیس کروڑ ہے یہ ہے ملک کا دفاع۔ مگر افسوس کہ ہماری ہاں پورے ملک میں سرکاری سطح پر پچاس ہزار بستر تک کے اسپتال ہوں گے۔ خدانخواستہ اگر آج ہمارے پاس ایران کی طرح یا پھر اٹلی کی طرح کورونا ہوتا تو ابھی تک یہ ملک خانہ جنگی کا شکار ہوچکا ہوتا۔ اور یہ بھی دیکھیے کہ نظریاتی ریاست ایران کس طرح کورونا سے نمٹنے کی تدابیر کو الجھا دیتا ہے اور کس طرح اٹلی جیسی فلاحی ریاست کورونا کی تشریح کرتی ہے۔
کس طرح پیپلز پارٹی جو بری حکمرانی میں اپنا مثال آپ تھی مگر کورونا کو نمٹنے کے لیے وہ خان صاحب کی پارٹی کی تمام حکومتوں کو کوسوں پیچھے چھوڑ آتی ہے اور خان صاحب اب بھی اسی بیانیہ کا شکار ہیں کہ انھیں سندھ حکومت کو اپنے قوم سے خطاب میں سراہانا نہیں آیا، سراہا انھوں نے تافتان کے بارڈر پر حکومت کے زائرین کے Isolation centers کو جو اور کچھ نہیں بلکہ مختلف بیماریوں اور کورونا وائرس کے پھیلنے کی آماجگاہ ہے۔
کورونا وائرس نے ایک نیا یونیورسل کلچر بھی روشناس کرایا کہ ہاتھ ملانے سے بیماریاں پھیلتی ہیں لہذا ایک دوسرے سے معقول فاصلہ رکھیں۔ آج کا دور آن لائن سسٹم کا دور ہے۔ سبزیاں ہوں یا دیگر روزمرہ استعمال کی اشیاء بازاروں میں جاکے خریدنے کے بجائے آن لائن خریدیے۔ بازاروں میں اور جلسے، جلوسوں میں مت جائیے۔ کورونا نے سائنس کو سب پرفوقیت سے دی کہ گئو ماتا کے پیشاب پینے سے کورونا کا علاج نہیں ہوگا۔ پیروں، فقیروں اور عاملوں کے گنڈے اور تعویذوں سے بھی کچھ نہیں ہوگا۔
کورونا وائرس کے حوالے سے ابھی تک کوئی صحیح تصدیق نہیں ہورہی کہ اس وباء پر قابو پالیا گیا ہے۔ یقینأاس کا ویکسین تیار کیا جا رہا ہے لیکن وہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔ اگر یہ وباء دو تین مہینے اور چلی اور اس کی وجہ سے دنیا میں لاک ڈائون رہا تو کئی کمپنیوں کا، اسٹاک ایکسچینج کا دیوالیہ نکل جائے گا، معیشتیں تباہ ہو جائیں گی۔ چین کی معیشت اسوقت شدید بحران سے گذر رہی ہے کہ پوری دنیا کی شرح نمو گر گئی ہے۔ جو رسیشن ( معاشی گراوٹ) ا س دفعہ آرہی ہے وہ شاید جدید تاریخ میں سب سے بڑی رسیشن ہوگی۔ ہمیں چاہیے کہ اس وقت پوری قوم، سیاسی پارٹیاں، تمام حکومتیں اور حزب اختلاف ایک ہی مقصد سے جڑ جائیں اور پاکستان کو اس دلدل سے نکالیں اور اس مقصدکے لیے فوج کو بھی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔
میں گذشتہ ہفتے سے خود تنہائی یعنی (طبی قید) میں ہوں۔ میرے بچے بھی اور زوجہ بھی۔ جتنا ہوسکتا ہے احتیاتی تدابیر لے رہے ہیں اور آپ کو بھی میری طرف سے یہی عرض ہے کیونکہ احتیاط اس وائرس کا بہترین علاج ہے۔