بس اب رہنے دیجیے
بس اب رہنے دیجیے
جو آئین لوگوں کی امنگوں، ان کی تاریخ، تہذیب و تمدن اور ثقافت کے عکاس ہوتے ہیں، ان کے حقوق کو تحفظ دیتے ہیں اورحقیقی معنوں میں وفاقیت کو ایک کوزے میں سموتے ہیںجو دراصل معروضی حقیقت کی حیثیت میں موجود ہوتے ہیں اور ساتھ ہی یہ آئین وقت کے تقاضوں اور بدلتے حالات میں پیدا ہوئے نئے نئے حقائق کو بھی اپنے اندرجذب کرتے ہیں، ایسے آئین قانون کے فلسفے میں Organic hole کہے جاتے ہیں اورجو آئین اس کے برعکس کسی آمر کے بنائے ہوئے ہوتے ہیں جو زبردستی لوگوں پر جبرکے ساتھ لاگو کردیے جاتے ہیں وہ آئین کچے گھڑے کی مانند ہوتے ہیں اور بہت مختصر زندگی پاتے ہیں۔
جنرل ایوب خان کا آئین کسی آئین ساز اسمبلی نے نہیں بنایا تھا۔ لہذا دس سال کی مدت پائی اور تحلیل کر دیا گیا اور اس سے پہلے 1956 میں جو آئین بنایا گیا وہ بنایا تو نمایندہ اسمبلی نے تھا، مگر وہ ون یونٹ آئین تھا۔ سینیٹ نامی کوئی چیز نہ تھی جو وفاق کی عکاس ہوتی۔ تبھی تو جنرل ایوب آئے ایوب کے تسلسل میںجنرل یحییٰ۔ جس نے شفاف انتخابات توکروائے کہ ملک کی آئین ساز اسمبلی بن سکے مگر خود انتخابات کے نتائج ماننے سے انکارکر بیٹھے۔ ایک ایسی حقیقت سے بندوق کے زور پر سے انکارکر بیٹھے جوکہ آفاقی تھی اور جس کا نتیجہ بھی ہم نے دیکھا۔
جلوہ گاہ وصال کی شمعیں
وہ بجھا بھی چکے اگر توکیا
چاند کو گل کریں تو ہم جانے
پھر ہوا کیا؟آئین کے اندرآٹھویں ترمیم لاکر اس کا حلیہ بگاڑ دیا گیا۔ آٹھویں ترمیم نہ رہ سکی پھر سترویں ترمیم کو لا کر اس کا حلیہ مزید بگاڑ دیا گیا پھر سترویں ترمیم بھی نہ رہ سکی۔ اب پھر ہم کسی نہ کسی طرح اور زبردستی دوبارہ ایسا کام کرنا چاہتے ہیں، خدا خیر ہی کرے۔ اس کی مثال حال ہی میں وفاقی وزیر قانون کے دیے ہوئے بیان سے پیدا ہوئی۔ موصوف نے آئین کے آرٹیکل 149(4) کی وہ تشریح کر ڈالی جس سے کچھ ایسا تاثر آیا کہ جیسے کراچی وفاق کے پاس چلا گیا اور سندھ کے دو ٹکڑے بن گئے۔ یہ شاید حال ہی میں حکومت کی طرف سے ایک آرڈینینس کے ذریعے جو 2008 ارب روپے کچھ بڑی کمپنیوں کے معاف کر دیے گئے تھے، جوآرڈینیس بعد میں واپس لینا پڑا، اس سے بھی زیادہ تگڑی خبر تھی۔ ایک توآئین کے آرٹیکل 149(4) کی غلط تشریح ہوئی جوکسی اور نے نہیں بلکہ خود وزیر قانون نے کی جنہوں نے خود آئین سے وفاداری کا حلف بطور وزیرلیا ہوا ہے۔
اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ سندھ کی صوبائی حکومت اور تمام صوبوں کی حکومتیں آئین کے آرٹیکل 140A کے روح کی مطابق عمل پیرا نہیں۔ جیسے پنجاب نے پورا بلدیہ کا نظام ہی معطل کردیا۔ پشاور میں ڈینگی پھیلا ہوا ہے۔
بات یہ ہے کہ آرٹیکل 149(4) کہتا کیا ہے؟ دراصل وہ یہ کہتا ہے کہ جب کسی صوبے میں یا پھر صوبے کے کسی مخصوص حد میں وفاقی قانون پر عمل نہ ہورہا ہو تو اس وقت وفاق ہدایات جاری کرسکتا ہے اور ایسی ہدایات پر اس صوبے کو عمل کروانا ہو گا مگر یہ آرٹیکل کبھی بھی یہ نہیں کہتا کہ صوبائی قوانین یا سبجیکٹس پر بھی وفاق ہدایات جاری کرسکتا ہے کیونکہ ایسا کرنا وفاق کی طرف سے صوبائی خود مختاری میں دخل اندازی کے برابر ہوگا۔ اس آرٹیکل کو سپریم کورٹ کے دیے ہوئے فیصلوں کے تناظر میں پڑھنے کی ضرورت ہے اور سپریم کورٹ نے بھی یہی کہا ہے بلخصوص بینظیر بھٹوکیس 1988 PLD 388 SC میں تو یہ بات بالکل واضح ہے۔
تو پھرکوئی وزیر قانون سے یہ بھی پوچھے کہ بلدیاتی قانون وفاقی ہے یا صوبائی؟کیا اس کا ذکر فیڈرل لییجسلیٹو لسٹ پارٹ ون یا پارٹ ٹو میں ہے اور اگر نہیں تو یہ Residue پاور ہے جو Residue پاور ہوتے ہیں وہ صوبائی ہوتے ہیں۔
بلدیاتی قانون اور سبجیکٹس جنرل مشرف سترویں ترمیم کے ذریعے وفاق میں لے گئے تھے اور نیشنل ریکنسٹیکٹو بیورو بنائی تھی۔ اس کے پہلے سربراہ ریٹائرڈ جرنیل تھے ان کے بھی خیالات جنرل ضیاء الحق کی طرح آئین کے بارے میں یہی تھے کہ یہ چھوٹا سا کتابچہ ہے جسے کسی بھی وقت پھاڑا جا سکتا ہے۔ اس جنرل کی رعونت قوم نے دیکھی تھی، مختصرأ یہ کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد بلدیاتی ادارہ صوبوں کے حوالے کیا گیا۔
بد نصیبی یہ ہے کہ آمریتیں اسمبلیاں بحال نہیں کرتیں اور لوکل باڈیزکو زیادہ اختیارات دیتی ہیں۔ وہ چاہے جنرل ایوب ہو ں، ضیاء الحق ہوں یا جنرل مشرف۔ اور جب جمہوریت آتی ہے وہ پھر لوکل باڈیزکو اختیارات نہیں دیتی۔
صوبہ سندھ میں اربن اور رورل تضاد دوسرے صوبوں کے مقابلے میں زیادہ ہے، اس لیے اس صوبے کے لیے بلدیاتی اختیارات اور بھی معنیٰ خیز ہیں کیونکہ، اس طرح صوبائی حکومت صوبے کے دائرے میں رہ کر اپنے شہروں اور خصوصا کراچی کو بہت حد تک خود مختارکرسکتی ہے جوکہ ہونا بھی چاہیے اور یہ ایک فطری عمل بھی ہے۔
اختیارات کیا ہوتے ہیں؟ یہ سوال قانونی بھی ہے اورایڈمسنٹریٹو بھی۔ اور دونوں حقائق کے تناظر میںہیں یعنی Doctrine of subsidiaryجس پر یورپین کورٹ آف جسٹس نے بہت کام کیا ہے۔ اختیار خود اپنی روح میں آپ بتاتا ہے کہ وہ کیا ہیْ؟آیا وہ اختیار وفاقی فطرت رکھتا ہے یا صوبائی یا لوکل باڈیزکی۔ سندھ حکومت نے بہت سے اختیارات جو نچلی سطح کے ہیں وہ بھی اپنے پاس رکھ لیے ہیں۔ اس پر سپریم کورٹ میں غالبا ایک کیس بھی پڑا ہوا ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ اس پرکورٹ روشنی ڈالے اور تشریح کرے۔ لیکن جس طرح سے وزیر قانون نے آرٹیکل 239(4) کوچھیڑے بغیر وہ طریقہ جو نئے صوبے بنانے کے حوالے سے اس میں موجود ہے، اس کا شارٹ کٹ آرٹیکل 149(4) کی غلط تشریح کرکے سستا نسخہ دریافت کیا ہے۔ وزیر قانون سے ایسی توقع نہ تھی۔
ڈاکٹر فروغ نسیم قانون میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھتے ہیں۔ وہ ڈاکٹر شیرافگن کی طرح ایم بی بی ایس ڈاکٹر نہیں، جن کو آئین تو حفظ تھا مگر اس کے مغز پر نہیں۔
اور ایک ایسے وقت میں انھوں نے یہ بیان دیا جس سے پیپلز پارٹی کی تو لاٹری نکل آئی۔ ان کی ساری نالائقیاں لوگ بھول گئے اور اس پر بلاول بھٹو نے بھی ایک چھکا مار دیا۔ یہ کیاآپ نے وفاق کی خدمت کی؟ اسے کمزور بنایا یا مضبوط؟
متحدہ ہو یا پیپلزپارٹی یہ دونوں دراصل سندھ کے لیے مسئلہ ہیں۔ یہ دونوں دہائیوں سے اپنے ووٹر سے ووٹ لے جاتی ہیں۔ یہ دوبیانیہ بھی ہیں۔ ایک اربن بیانیہ سے ہے اور دوسرا رورل بیانیہ سے۔ جب تک فاطمہ جناح تھیں تب تک یہ آمریت کے خلاف تھے مگر جب سے ذوالفقارعلی بھٹو وزیر اعظم بنے اور پاکستان کی تاریخ میں دیہی سندھ کے لوگوں کو اقتدار میں شراکت ملی تو اربن ووٹر ڈرگیا اور پھر وہ آمریتوں کے ساتھ رہے پھر صوبے ٹوٹنے کے ڈر سے دیہی سندھ کے لوگ آمریتوں کے خلاف رہے لیکن پیپلز پارٹی کا ووٹر وڈیرہ شاہی کاغلام ہے، وہ سندھ کے دہقان ہیں اور دنیا کی بہت پستہ حالت قوم میں سے ایک ہے۔ جس میں سندھ کے جاگیرداری نظام کا کردار سب سے اہم ہے اور اس نظام کے رکھوالے کوئی اور نہیں خود پیپلزپارٹی بھی ہے۔
اردو بولنے والے بھی سندھ کے اتنے ہی حق دار ہیں جتنے سندھی ہیں۔ ان دونوں کو ایک ہونا ہوگا اور ایک نئی سیاست کا آغاز کرنا ہوگا تاکہ صوبے کے حالات بدلے جا سکیں۔ جنرل ضیاء الحق نے جمہوری قوتوں کو کمزورکرنے کے لیے سندھ کے اندر دیہی اور اربن تضاد کو ہوا دی اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ اب یہ سوال بھی تو ابھرتا ہے کہ ان پیدا کیے ہوئے تضادات سے خود سندھ کے وڈیرے بھی خوب لطف اندازہوتے ہیں جیسا کہ آج تک پاکستان کی تاریخ میں سندھیوں نے ایک بھی مڈل کلاس بندے کو نہیں جتوایا اور اربن سندھ نے ایک بھی وڈیرے کو نہیں جتوایا۔