ایک کورونا ، سو انداز
کورونا بھی جگجیت کی گائی ہوئی غزل کی ان سطروں کی طرح ہو جیسے:
برسات کا بادل تو دیوانہ ہے کیا جانے
کس راہ سے بچنا ہے، کس چھت کو بھگونا ہے
کورونا کو خود اپنا اتا پتا معلوم نہیں۔ ہمیں اب تک عام زندگی میں صرف دور بین سے دیکھنا نصیب ہوا مگر خوردبین سے نہیں کہ زندگی جو ہم عام مروج بینائی سے نہیں دیکھ پاتے وہ بھی کتنی پھیلی ہوئی ہے۔ ہمیں کورونا کوہزاروں گنا بڑا کر کے دکھایا جاتا ہے اوراس کو کورونا اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی شکل کراؤن جیسی ہے۔ پوری دنیا کو ہلادیا، جس تیزی سے کورونا پھیلا ہے اس تیزی سے اب تک کی بہت ہی موت مار وبا جس کو انفلیویزا کہا جاتا ہے جو 1918 میں آئی تھی وہ بھی نہ پھیلی تھی۔ یہ اور بات ہے کہ وہ ماڈرن تاریخ کی بدترین وبا تھی اور پانچ کروڑ لوگ مارے گئے تھے، اب اس وبا میں جو لگ بھگ چھ مہینے پہلے چین سے شروع ہوئی تھی، اب تک پونے تین لاکھ لوگ مارے گئے ہیں۔
اگر کورونا وائرس جلد کنٹرول میں آجاتا ہے تو معیشت بحال بھی ہو سکتی ہے۔ اسوقت Renewble energy کے حوالے سے معیشت میں بہت تیزی سے گروتھ ہورہی ہے۔ انٹرنیٹ اور آن لائن شاپنگ بھی فروغ پارہی ہے۔ وال اسٹریٹ میں جب تیل کی کمپنیوں کے حصص کی شرح بری طرح سے گر رہی تھی، اس وقت Renewble energy سے ملحقہ کمپنیوں، آن لائن شاپنگ کی کمپنیوں کے حصص کی قیمتیں بڑھ رہی تھیں۔
ایسے ممالک جن کی آب وہوا گرم ہے اور وہاں نمی ہے، وہاں یہ وبا اپنی تباہ کاریاں نہیں لاسکی، مگر ساتھ ہی ایسا بھی ہے کہ پیرو، انڈونیشیا اور برازیل جیسے ممالک میں اس وبا نے تباہی پھیلا دی۔ ایسا بھی ہوا کہ جن ممالک نے پہلے دن سے احتیاطی تدابیر بہتر انداز میں اپنائیں، وہاں اس کا پھیلاؤ کم ہوا لیکن پھر دیکھا جائے تو میانمر اور کمبوڈیا جیسے ممالک بھی ہیں جہاں تباہی آئی۔ اس وبا کی تباہی میں ایسا بھی نظر آیا کہ کچھ ممالک اس کی تباہی سے بچے ہوئے نظر آئے لیکن پھر کورونا وہاں بھی پہنچا اور اپنے پنجے گاڑھے جیسا کہ روس اور ترکی۔
جن ممالک کی اکثریتی آبادی نوجوانوں پر مشتمل تھی، وہ اس وبا سے بچے نظر آئے، مگر پھرافریقہ بھی ہے جس کی آبادی کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے وہاں کورونا نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ عراق کے شہر نجف اور تھائی لینڈ میں یہ دیکھنے میں آیا کہ ان کے بیس سے انتیس سال کی عمر کے لوگوں میں کورونا زیادہ پھیلا۔ اٹلی میں جو لوگ کورونا سے متاثر ہوئے اورجان سے گئے ان میں زیادہ تر افراد کی عمر اسی سال سے اوپر تھی۔
کچھ ایسے کلچر بھی ہیں جہاں کے لوگوں میں تاریخی اعتبار سے آپس میں ملنے جلے کے آداب مختلف ہیں۔ جیسا کہ ہندوستان اور تھائی لینڈ جہاں ایک دوسرے سے ملنے پر بغل گیر ہونے یا ہاتھ ملانے کی روایت نہیں۔ فقط دور سے ہاتھ جوڑ کر ملنے یا جھک کر مہمان کو خوش آمدید کہنے کی روایت ہے یا پھر ان ممالک میں جہاں کورونا سے پہلے ہی ماسک پہننے کی فطری روایت تھی جیسا کہ جاپان اور ساؤتھ کوریا۔
کورونا نے یہ بھی بتایا کہ جہا ں سردی زیادہ تھی، جیسا کہ اٹلی اور امریکا وہاں کورونا نے زیادہ تباہی پھیلائی اور جہاں گرمی زیادہ تھی جیسا کہ چاڈ ا اور کینیا وہاں کورونا نظر نہ آیا، مگر اس دلیل کو پھر برازیل رد کردیتا ہے۔
وہ گھر جو سرد نما ممالک کی طرز پر بنے بند گھر ہیں، وہا ں کورونا زیادہ پھیلتا ہے اور وہ گھر جو گرم ممالک کی طرزپر بنے کھلے گھر ہیں وہاں کورونا جڑ نہیں پکرتا۔
اور یہ بھی حقیقت کہ جن ممالک نے مجموعی طو ر پر احتیاطی تدابیر بہت پہلے سے ا پنائیں ان کو کورونا سے کم نقصانات ہوئے اور وہ ممالک جو ایچ آئی وی پازیٹو، تپ دق او ر ایبولا جیسی بیماریوں سے دوچار ہوئے اور وہ ان بیماریوں سے ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا تجربہ رکھتے تھے جیسا کہ یوگنڈا وغیرہ۔ ان ممالک نے سب سے پہلے یہ کام شروع کیا کہ ایئرپورٹ پرآنے والوں کی صحیح چیکنگ، ماسک پہنانا وغیرہ جوکہ امریکا اور اٹلی میں بھی بہت دیر سے شروع ہوا۔
ہمارے صو بہ سندھ نے بھی سب سے پہلے احتیاطی تدابیرپر عمل شروع کیا۔ سندھ کو تو وفاق کی تافتان بارڈر کی پالیسی اور پنجاب کے تبلیغی اجتماع رائیونڈ کی پالیسی نے ڈبو دیا۔ کراچی ایئرپورٹ بھی وفاق کے ماتحت ہے اور وہاں بھی جو ہورہا تھا کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، مگر سندھ نے کسی اور صوبے کو نقصان نہیں پہنچا یا۔ کورونا کا پھیلاؤ سندھ سے کہیں نہیں ہوا ہاں مگر وہاں سے سندھ میں ضرور آیا۔
اب یہ زندگی کے میلے، یہ ملنا جلنا، جہازوں اورٹرینوں میں نشستوں کا طریقہ کار اب سب کچھ تبدیل ہوگا۔ ریسٹورنٹس اور کیفے، سنیما گھروں سمیت تمام تفریحی مقامات پر حکمت عملی تبدیل کی جائے گی۔
ابھی شب میں گرانی نہیں آئی
چلو چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
(فراز)