آئین، جیو اور جینے دو
ضروری نہیں کی آپ کی آنکھ میں طبعی یرقان ہو کہ اسے دیکھنے میں سب پیلا نظر آتا ہو۔ اگر آپ کالا چشما لگا دیں تو آپ کو کالا ہی نظر آئے گا۔ مگر انصاف کرنے والی آنکھ چشمہ نہیں لگاتی، وہ حقیقتوں کو ایسا ہی دیکھنا چاہتی ہے جیسے کہ حقیقتاً وہ ہیں۔ نہ کم نہ زیادہ۔ رتی برابر بھی نہ ادھر نہ ادھر اور یہ بھی ضروری نہیں کہ انصاف کی کرسی پر بیٹھنے والے نے جب انصاف کیا، تو اس نے قانون اور آئین کے تمام تقاضے بھی پورے کیے ہوں جو اس کی ذمے داری تھی۔
ہوسکتا ہے فیصلہ کرتے وقت اپنے ضمیر مطابق وہ اپنے فیصلے کو صحیح سمجھتا ہو اور صادر بھی کردیا ہو، مگر اس کا فیصلہ رپورٹ ہوجاتا ہے اپنی تمام کمزوریوں کے ساتھ رقم ہوجاتا ہے۔ مورخ کے واسطے قانون کے نقاد کے واسطے اور پھر اس کے فیصلے کو آگے یہی عدالتیں درست کر دیتی ہیں۔ انصاف تسلسل کے مانند اپنی پگڈنڈیوں پر چلتا رہتا ہے۔
اپنے عہد میں بیٹھک کر وہ رقم تو ہوجاتا ہے مگر فیصلہ حتمی نہیں ہوتا۔ فیصلے بنتے بگڑتے رہتے ہیں۔ کبھی نظریہ ضرورت کے تحت تو کبھی قانون کی حکمرانی کے تحت۔ کبھی مولوی تمیز الدین کیس تو کبھی عاصمہ جیلانی کیس۔ کبھی سقراط کو زہر کا پیالا تو کبھی ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دینا۔
امریکی جمہوریت کی پیداوار ٹرمپ صاحب۔ دنیا کی عظیم جمہوریت تھی امریکا۔ جب کولمبس نے امریکا دریافت کیا تو وہاں کے مقامی لوگوں کو نیست و نابود کیا انھیں غلام بنایا۔ مگر جب برطانیہ میں انسانی حقوق کی پہلی کوشش جو کہ میگنا کارٹا کی شکل میں تیرہویں صدی میں بنی اور پھر برطانیہ نے دنیا میں نوآبادیات کا سلسلہ شروع کردیا، مگر پھر بلیک اسٹوں جیسے جج بھی سترہویں صدی میں اپنے قلم کی نوک سے وہ کچھ لکھ گئے جس سے قانون اور آئین کو وسعتیں ملی۔
برطانیہ، اسکاٹ لینڈ کے عظیم قانون و ترمیم دان امریکا ہجرت کرنے لگے، عین اس وقت 1780 کی دہائی میں امریکا دنیا کا عظیم آئین دینے میں کامیاب ہو گیا۔ یہ آئین دنیا کا عظیم آئین تو تھا مگر اس میں بنیادی حقوق بہت کمزور انداز میں موجود تھے۔ پھر ترامیم در ترامیم کی گئیں اس طرح آئین اور وسیع بنایا گیا۔ اس آئین میں سب سے اہم ترمیم ابراہم لنکن کے زمانے میں ہوئی پندرہویں ترمیم کے طور پر، سول وار اس ترمیم کے ہونے کی وجہ بنی جو غلامی کے پس منظر میں لگی تھی۔
ان ادوار میں کچھ ریاستیں غلامی کا خاتمہ چاہتیں تھیں اور کچھ اس کے حق میں نہیں تھیں۔ اسی سول وار کے پس منظر میں مارگریٹ مچیل کا شاہکار ناول{ "Gone with the wind"تحریر کیا گیا۔ ضروری نہیں جو آئین کہتا ہے وہ حقیقت ہی ہو مگر آہستہ آہستہ آئین یہ وسیع ہوتا جاتا ہے کیوں کہ آئین کے سامنے جو بھی norms، ریتیں، رسمیں اور قدامت پسندی ہو وہ ٹھہرتی نہیں۔
پندرہویں ترمیم سے امریکا میں سیاہ فام کو ووٹ ڈالنے کا حق ملا یوں قانونی برابری بھی ملی مگر سماج میں وہ حیثیت نہ ملی۔ یہ سماج آئین کی پندرہویں ترمیم سے لڑتا رہا اور یہ گھمسان کی جنگ 1960 میں مارٹن لوتھر کنگ کی تحریک کے بعد ایک نئی شکل اختیار کر گئی، جب ایک سیاہ فام جارج فلائیڈ نامی شخص کو سفید فام پولیس نے قتل کردیا۔ ایسے سیکڑوں سیاہ فام ہیں جو پولیس کے ہاتھوں قتل ہوتے رہتے مگر جب قانون کوئی سفید فام توڑے تو اس کو ایک نظر سے دیکھا جاتا ہے اور سیاہ فام کو دوسری نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
یہ تحریک بہت شدت اختیار کرگئی اور ریاست کے ہاتھوں سے نکل گئی اس کا دائرہ یورپ تک وسیع ہو گیا۔ بیلجیم، برطانیہ، امریکا تک۔ امریکا میں کولمبس سے لے کر ان تمام کے مجسموں کو گرانا شروع کردیا گیا جو غلامی کی علامت تھے۔ مجھے یقین ہے ایک دن سینٹرل لندن میں چارلس نیپیئر کے مجسمے کو بھی زمین بوس کیا جائے گا۔ چارلس نیپیئر ایسٹ انڈیا کمپنی کا وہ سالار تھا جس نے 1843 میں سندھ کو غلام بنایا تھا۔ امریکا کا صدر ٹرمپ بنیاد پرست انسان ہے جس کی پوری سیاست نفرت پر پھیلی ہوئی ہے۔ جس طرح مودی ہندوستان کا ہندو نسل پرست ہے۔ وہ مسلمانوں یا دوسری اقلیتوں کے خلاف نفرتوں کی بنیاد پر اپنے اقتدار کو مضبوط بناتا ہے۔ ٹرمپ بھی سفید فام قوم پرستی کی بنیاد پر سیاہ فام، اسلام فوبیا جیسی نفرتوں کو پھیلاتے ہوئے اپنے اقتدار کے لیے جواز پیدا کرتا رہتا ہے۔ مودی اور ٹرمپ کو کو کورونا بھی ایک ہتھیار نظر آیا۔ مودی نے اس وبا کو بھی مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا۔
ہمارے سامنے دوسری جنگ عظیم کی مثال موجود ہے کہ پوری دنیا دائیں بازو پاپولرزم کے ہتھے چڑھ چکی تھی۔ جرمنی کو پہلی جنگ عظیم میں شکست ہوئی۔ اسے معاہدہ کرنا پڑا اور قرضے مانگنے پڑے، جرمن قوم کی اس احساس محرومی کو ہٹلر نے خوب اچھالا اور اقتدار پر قبضہ کرتا گیا اور پوری دنیا کو جنگ کی آگ میں دھکیل دیا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد بائیں بازو کی سیاست یعنی لبرل سیاست نے زور پکڑا۔ پھر نوے کی دہائی میں لبرل سیاست کو سوشلسٹ ملکوں کے اندر آمریتوں نے اندر سے کھوکھلا کردیا۔ جارج بش نے ٹوٹے ہوئے اور کمزور سویت یونین دیکھتے ہوئے عراق پر جنگ مسلط کردی۔ نیا ورلڈ آرڈر سامنے آیا پھر نائن الیون کا واقعہ ہوا اور اس طرح نفرتوں کی سیاست نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اور اب کورونا ہے!!!!
یہ صورتحال کب تک رہے گی کچھ واضع نہیں ہاں مگر ان حالات میں کچھ چیزیں بنیں گی اور کچھ بگڑیں گی۔ ٹرمپ کی حکومت اور اس کی کارکردگی سے نہ صرف عوام بلکہ اس کی اپنی پارٹی بھی اب عاجز ہے۔ امریکا کے بڑے بڑے لیڈر بھی اس بات نالاں ہیں اور وہ اب ٹرمپ سے امریکا کو بچانے کی بات کر رہے ہیں اس حد تک کہ وہ اپنا ووٹ اب ڈیموکریٹ لیڈر جوئل بائیڈن کو دیں گے۔ ایک نئی دنیا ہے جو اچانک ہمارے سامنے آئی ہے۔
اس دور میں اگر کوئی ہٹلر، میسولینی یا عرب آمریتوں جیسے اگر خواب دیکھ رہا ہے تو وہ سراسر غلطی پر ہے۔ امریکا کی جمہوریت کا سفر واپس آئین کی طرف ہے۔ بولسنارو سے لے کر مودی تک سب کو یہ نئی آنے والی لہر لے ڈوبے گی۔ ہماری اٹھارہویں ترمیم بھی امریکا کی پندرہویں ترمیم کی طرح ہے۔ آدھا ملک گنوا کے ہم نے ملک کو 1973 کا آئین دیا۔ جنرل مشرف کے بعد ہماری وفاقی حیثیت پر جو خطرات منڈلا رہے تھے وہ اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے دور ہوئے۔ ساتویں مالیاتی ایوارڈ نے چھوٹے صوبوں کی احساس محرومیاں ختم کیں۔
اب اگر آئین میں مزید ترامیم کی گئیں اور اگر یہ ملک واپس جمہوریت کی طرف نہیں لوٹا، تو پھر جو بھی نقصانات ہونگے ہم ان کے خود ذمے دار ہوں گے۔ یہ نوشہ دیوار ہے اگر آپ کی آنکھوں کو یرقان نہیں تو بہ آسانی پڑھ سکتے ہیں۔