Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Javed Chaudhry
  3. Uzbekistan

Uzbekistan

ازبکستان (مجموعی طور پر)

ازبکستان کے لوگ معاشی لحاظ سے غریب ہیں، کرنسی کی ویلیو بہت کم ہے۔

سرکاری بینک ایک ڈالر کے ایک ہزار نو سو چالیس سم دیتے ہیں جب کہ اوپن مارکیٹ میں ایک ڈالر کے دو ہزار سات سو سم ملتے ہیں، آپ سو ڈالر تبدیل کرائیں تو آپ کو دو لاکھ ستر ہزار سم مل جاتے ہیں، دنیا بھر میں لوگ کرنسی پرس میں رکھتے ہیں لیکن ازبکستان میں رقم شاپنگ بیگز اور تھیلوں میں ڈالی جاتی ہے، آپ پانی کی عام بوتل یا سافٹ ڈرنک کاٹین خریدیں آپ کو تین چار ہزار سم ادا کرنا پڑتے ہیں، پڑھے لکھے نوجوان لڑکوں لڑکیوں کی تنخواہیں ڈیڑھ سے دو سو ڈالر ہیں، یہ پندرہ سے اٹھارہ ہزار روپے بنتے ہیں لیکن ازبکستان کے لوگ اس کے باوجود مطمئن ہیں، ان کے چہروں پر آسودگی، اطمینان اور سکون ہے، آپ کو گلیوں میں بھکاری دکھائی نہیں دیتے، لوگ کسی کو دھوکا نہیں دیتے، ریستورانوں میں ٹپ کا رواج نہیں۔

ہم نے دو تین بار ویٹروں کو ٹپ دینے کی کوشش کی لیکن انھوں نے رقم لوٹا دی، ہوٹل سستے، ریستوران مناسب اور ٹیکسیاں عام ہیں، عام شہری سیاحوں کو دیکھ کر گاڑی روک لیتے ہیں اور یہ سیاحوں کو پانچ سے دس ہزار سم میں منزل پر پہنچا دیتے ہیں، عورتیں کام کرتی ہیں، ہم نے خوانچہ فروشی سے لے کر آفس تک خواتین کو کام کرتے دیکھا، ازبکستان میں انگریزی جاننے والے لوگ بہت کم ہیں لیکن اس کے باوجود کسی کو احساس کمتری نہیں، ہم ازبکستان میں غربت کے باوجود اطمینان دیکھ کر حیران رہ گئے۔

ریسرچ کی تو چار وجوہات سامنے آئیں، پہلی وجہ لاء اینڈ آرڈر تھی، ازبکستان میں ریاست کی گرفت بہت مضبوط ہے، حکومت قانون کی خلاف ورزی پر کسی کو رعایت نہیں دیتی، آپ نے قانون توڑا نہیں اور آپ جیل یا جلاوطنی کاشکار ہوئے نہیں، آپ ازبکستان میں مذہبی اختلاف اور سماجی تفاوت پر بات نہیں کر سکتے، عدالتیں مذہبی اختلافات کو ہوا دینے اور معاشرے کا امن خراب کرنے والوں کے معاملے میں ریاستی اداروں کو سپورٹ دیتی ہیں، یہ شدت پسندی پھیلانے والوں کو رعایت نہیں دیتیں، پورا ملک اسلحے سے پاک ہے۔

آپ کو پولیس کے ہاتھ میں بھی رائفل دکھائی نہیں دیتی، پولیس بھی رائفل غلاف میں لپیٹ کر باہر لاتی ہے، ازبکستان میں اگر کسی کے پاس اسلحہ برآمد ہو جائے تو وہ عبرت ناک انجام کا شکار ہو جاتا ہے، ملک میں قانون سب کے لیے برابر ہے اور کوئی اس سے بالاتر نہیں اور ملک میں ایسے مافیاز اور کارٹلز کا نام و نشان نہیں جو نظریہ ضرورت، سیاسی افہام و تفہیم اور جمہوری اتحاد کو بنیاد بنا کر قانون کی ناک موڑ لیں چنانچہ لوگ بے خوف اور بے خطر ہیں، ہم تاشقند کے قدیم محلے میں گئے، ہم نے وہاں دو دروازوں پر دستک دی۔

لوگوں نے نہ صرف ہمارے لیے دروازے کھولے بلکہ ہمیں گھر کے اندر بھی لے گئے اور اس وقت گھروں میں خواتین اور بچوں کے علاوہ کوئی نہیں تھا، یہ اطمینان اور بے خوفی معاشرے میں قانون اور انصاف کی بالادستی کی دلیل ہے۔ دوسری وجہ روز مرہ کی اشیاء کی فراوانی اور سستا پن ہے، ازبکستان فروٹ پیدا کرنے والے دنیا کے چند بڑے ممالک میں شمار ہوتا ہے، اس کی چیری، خربوزہ، گرما، تربوز، آڑو، خوبانی اور سیب کا کوئی جواب نہیں۔

اناج، دالیں، سبزیاں اور گوشت بھی اضافی اور سستا ہے، ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں فروٹ، ڈرائی فروٹ، اناج اور گوشت کی بڑی بڑی مارکیٹیں ہیں اور ان مارکیٹوں میں اشیاء خورونوش پاکستان کے مقابلے میں تین سے چار گنا سستی دستیاب ہیں، ریستوران بھی سستے ہیں، ازبکستان کے فائیو اسٹار ریستوران میں تین چار لوگ پچاس سے ستر ڈالر میں کھانا کھا سکتے ہیں اور یہ کھانا تین چار کورس میں ہوتا ہے۔

تین، ازبک معاشرے میں توازن ہے، وہاں مذہبی طبقہ ڈنڈا لے کر پھر رہا ہے اور نہ ہی لبرل فاشسٹ معاشرے کو مادر پدر آزاد بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، مسجد اور ڈسکو دونوں موجود ہیں اور دونوں ایک دوسرے کو ڈسٹرب نہیں کرتے، مسجدیں بھی بھری ہوتی ہیں اور ڈسکو میں بھی جگہ نہیں ملتی، حکومت نے معاشرے کو مذہبی فسادات سے بچانے کے لیے خصوصی بندوبست کر رکھے ہیں، آپ مسجد میں نماز پڑھ سکتے ہیں یا پھر گھر میں، دفاتر اور کھلی جگہوں میں نماز کی ممانعت ہے، ازبکستان میں تبلیغ اور داڑھی پر بھی پابندی ہے، ملک کے زیادہ تر امام مسجد کلین شیو ہیں لیکن حکومت اب یہ پالیسی نرم کر رہی ہے، حکومت نے بخارا میں ایک مدرسہ قائم کر دیا ہے۔

اس میں سو طالب علم زیر تعلیم ہیں، یہ طالب علم تعلیم مکمل کرنے کے بعد مساجد سنبھالیں گے اور انھیں داڑھی رکھنے کی اجازت بھی ہو گی اور چوتھی وجہ، ازبکستان کے لوگ قناعت پسند ہیں، یہ بنیادی ضرورتوں تک محدود رہتے ہیں، یہ دن کو کام کرتے ہیں اور شام کا وقت خاندان کے ساتھ گزارتے ہیں، ازبکستان میں چائے خانوں میں بیٹھنے کا رواج عام ہے، ہر محلے میں ایک سرکاری چائے خانہ ہے جس میں محلے کے بوڑھے جمع ہو جاتے ہیں اور سارا دن تاش اور شطرنج کھیل کر گزار دیتے ہیں، ازبک لوگوں نے خود کو لالچ اور نفسا نفسی سے بچا رکھا ہے، یہ بے مہار معاشی دوڑ کا شکار نہیں چنانچہ ازبک معاشرے میں اطمینان بھی ہے اور سکون بھی جب کہ ان کے مقابلے میں آپ پاکستانی معاشرے کو دیکھیں آپ کو ہر چہرے پر ٹینشن اور ڈپریشن نظر آئے گا۔

آپ کسی غریب کے پاس بیٹھ جائیں یا ارب پتی کے پاس وہ آپ کو شکوہ کرتا اور روتا دھوتا دکھائی دے گا، ہمارے ملک میں کوئی طبقہ، کوئی کلاس خوش نہیں، ازبکستان کی مثال ثابت کرتی ہے اگر معاشرے میں لاء اینڈ آرڈر ہو، کھانے پینے کی اشیاء معیاری اور سستی ہوں، معاشرے میں توازن اور برداشت ہو اور لوگ حرص اور لالچ سے پاک ہوں تو ملک میں اطمینان بھی آ سکتا ہے اور سکون بھی اور اس کے لیے رقم چاہیے اور نہ ہی کوئی اکیسویں، بائیسویں ترمیم، آپ بس سرکاری مشنری کو ایکٹو کر دیں، میرٹ کا خیال رکھیں، لوگوں کی تربیت کریں اور ملک جنت بن جائے گا۔

مجھے ازبکستان کی دو روایات نے زیادہ متاثر کیا، پہلی روایت ان کی شادی بیاہ کا سسٹم ہے، یہ ہماری طرح جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہتے ہیں، بڑوں کا احترام کیا جاتا ہے، گھر کے بڑے مرد جب تک پلیٹوں میں کھانانہ ڈال لیں خواتین اس وقت تک کھانے کو ہاتھ نہیں لگاتیں، ہماری طرح ان کی شادی کی رسمیں بھی کئی دنوں تک چلتی ہیں لیکن ان کی ایک روایت ہم سے مختلف بھی ہے اور دلچسپ بھی، نکاح کے دن دلہے کے کنوارے دوست اپنی اپنی گاڑیاں لے کر دلہن کے گھر آتے ہیں۔

ان گاڑیوں میں کنوارے دوست کے علاوہ کوئی نہیں ہوتا، یہ لوگ دلہن کو لے کر شادی ہال کی طرف نکلتے ہیں تو دولہے کے دوستوں کی گاڑیوں میں دلہن کی کنواری سہیلیاں بیٹھ جاتی ہیں اور یوں دلہن کے گھر سے لے کر شادی ہال تک نئے رشتوں کی بنیاد پڑ جاتی ہے، رشتہ گھر کے بڑے طے کرتے ہیں لیکن لڑکی اور لڑکے کی رضامندی کو سو فیصد اہمیت دی جاتی ہے، ازبکستان کی دوسری روایت کا تعلق سیاحوں سے ہے، ازبکستان میں سیاح صرف ہوٹل میں رہ سکتے ہیں، یہ کسی کے گھر اقامت اختیار نہیں کر سکتے اور اگر کریں تو صاحب خانہ اس کی اطلاع پولیس اسٹیشن میں دینے کا پابند ہوتا ہے۔

ہوٹل کی انتظامیہ ہوٹل چھوڑنے پر سیاح کو رجسٹریشن سلپ دیتی ہے، سیاح کے پاس جب تک یہ سلپ نہ ہو اسے کوئی دوسرا ہوٹل کمرہ نہیں دیتا، سیاح ملک سے واپس جاتے ہوئے تمام رجسٹریشن سلپس ائیرپورٹ پر امیگریشن حکام کے حوالے کرتے ہیں، اگر ان کے پاس سلپس نہ ہوں تو یہ ازبکستان سے نکل نہیں سکتے، ازبک حکومت اس بندوبست کی وجہ سے ملک میں داخل ہونے والے تمام غیر ملکیوں کی حرکات و سکنات سے آگاہ ہوتی ہے چنانچہ یہ لوگ ریمنڈ ڈیوس جیسے جاسوسوں سے بچے ہوئے ہیں۔

ازبکستان میں ہر چیز سرکاری کنٹرول میں ہے، آپ حکومت کی اجازت کے بغیر جلسہ کر سکتے ہیں، جلوس نکال سکتے ہیں اور نہ ہی تقریر کر سکتے ہیں، اس کنٹرول کی وجہ سے پاکستان میں جس دن ناموس رسالتؐ پر ریلیاں ہو رہی تھیں اور ہمارے 31 لوگ شہید ہو رہے تھے اور عوام گاڑیاں، بینک، موٹر سائیکلز اور سینما گھروں کو آگ لگا رہے تھے، ازبکستان میں اس دن امن تھا اور لوگوں کو ٹیری جونز اور سام باسیل کا نام تک معلوم نہیں تھا، اس دن ازبکستان کے موبائل بھی چل رہے تھے اور یوٹیوب بھی جب کہ ہم نے اس دن اپنے ہی ملک میں تباہی پھیلا دی۔

پاکستان اور ازبکستان کے درمیان صدیوں کا رشتہ ہے، ہماری زبان کے تیس فیصد الفاظ ازبک ہیں، ہمارے کھانوں، لباس اور فیملی سسٹم میں ازبکستان کی خوشبو موجود ہے، ازبکستان جغرافیائی لحاظ سے بھی پاکستان کے قریب ہے، ہم لاہور سے صرف اڑھائی گھنٹے میں تاشقند پہنچ جاتے ہیں، اکتوبر کے آخر میں اسلام آباد سے بھی فلائیٹس شروع ہو جائیں گی یوں فاصلہ مزید کم ہو جائے گا، ازبکستان قدرتی وسائل سے مالامال ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ سفارتی تنہائی کا شکار بھی ہے، یہ روس سے خوش نہیں، تاجکستان کے ساتھ اس کے آبی اختلافات ہیں، افغانستان کے طالبان بھی اسے تنگ کرتے رہتے ہیں۔

ازبک معاشرے میں امریکا کے خلاف نفرت پائی جاتی ہے اور بھارت بھی اس کا اعتماد کھو چکا ہے، ازبکستان نے بھارت کے لیے سیاحتی ویزے تک بند کر دیے ہیں، ازبکستان " لینڈ لاکڈ کنٹری" بھی ہے، اس کے پاس سمندر نہیں چنانچہ ہم اس صورتحال میں ازبکستان کے دوست بن سکتے ہیں، ازبکستان کو سمندر تک رسائی چاہیے، ہم اگر تھوڑا سا حوصلہ کریں، افغانستان اور ازبکستان کو میز پر بٹھائیں اور ترمز سے مزار شریف اور مزار شریف سے گوادر تک سڑک کھول دیں توازبکستان، افغانستان اور پاکستان تینوں خوشحال ہو سکتے ہیں۔

ہم ازبکستان کو گوادر تک رسائی دے کر اس سے گیس، بجلی اور اناج لے سکتے ہیں، ازبکستان کی عمر بمشکل 21 سال ہوئی ہے، اسے ترقیاتی کاموں کے لیے بیرونی ہاتھ چاہیے، ہم ازبکستان سے اپنے سفارتی رشتے مضبوط کر لیں تو ہمارے ہنر مند اور کمپنیاں ازبکستان میں بہت کام کر سکتی ہیں، ازبکستان ترکی کے بعد دنیا کا دوسرا ملک ہے جس کے عوام پاکستانیوں کا احترام کرتے ہیں، یہ ہمیں حاجی سمجھ کر ہمارے ہاتھ چومتے ہیں، ہم اس عقیدت، اس محبت کو سفارتی تعلق میں تبدیل کر سکتے ہیں، ہمارے سامنے تعلقات کا پورا سمندر کھلا ہے، ہم اگر اس میں غوطہ نہیں لگاتے تو ہم سے بڑا بے وقوف کوئی نہیں ہو گا، قدرت بے وقوف انسانوں کو تو معاف کردیتی ہے لیکن یہ بے وقوف قوموں کو کبھی معاف نہیں کرتی اور ہم ازبکستان کو دوست نہ بنا کر بے وقوفی کریں گے۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.

Check Also

Safar e Hayat Ke 66 Baras, Qalam Mazdoori, Dost Aur Kitaben

By Haider Javed Syed