فیصلہ حالات کریں گے؟
میں آپ کو تھوڑا ماضی میں لے جانا چاہتا ہوں۔
ڈاکٹر علامہ طاہر القادری نے 23 دسمبر 2012ء کو لانگ مارچ کا اعلان کیا، میرے زیادہ تر دوستوں کا خیال تھاآرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور آئی ایس آئی کے چیف جنرل احمد شجاع پاشا اس لانگ مارچ کے پیچھے ہیں جب کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور چیف جسٹس بھی اس سازش کا حصہ ہیں، یہ تمام لوگ مل کر میاں نواز شریف کا راستہ روکنا چاہتے ہیں لیکن مجھے اس سازشی تھیوری سے اختلاف تھا، میں جانتا تھا چوہدری نثار علی خان اور میاں شہباز شریف فوج کے ساتھ اپنے معاملات ٹھیک کر چکے ہیں، چوہدری صاحب اور میاں شہباز شریف کی آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے ساتھ کئی خفیہ اور ظاہری ملاقاتیں ہوئیں اور ان ملاقاتوں میں تمام معاملات طے پا گئے۔
صدر آصف علی زرداری بھی اقتدار جمہوری ہاتھوں میں منتقل کرنا چاہتے ہیں، چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بھی جمہوریت کے خوفناک سپورٹر ہیں، یہ دعویٰ کر چکے ہیں " میں پاکستان میں جمہوریت کا آخری مخالف ہوں گا" چنانچہ میرا خیال تھا یہ لانگ مارچ علامہ طاہر القادری کی سولو فلائیٹ ہے، علامہ صاحب اپنے مذہبی اور روحانی حلقے میں بہت پاپولر ہیں، لوگ ان کے لیے مال اور جان تک قربان کردیتے ہیں چنانچہ یہ نظام کو صرف اور صرف اپنی مقبولیت اور طاقت دکھانے کے لیے میدان میں اترے ہیں، ان کے پیچھے کوئی نہیں مگر اس وقت کسی دانشور نے اس نقطہ نظر سے اتفاق نہیں کیا، پاکستان مسلم لیگ ق، پاکستان تحریک انصاف اور ایم کیو ایم بھی شروع میں غلط فہمی کا شکار ہوگئی۔
یہ جماعتیں بھی علامہ صاحب کو فوج کا گھوڑا سمجھ کر ان کی طرف محبت سے دیکھنے لگیں لیکن جب تینوں جماعتوں کو کسی طرف سے ٹیلی فون نہ آیا تو یہ اسپرنگ کی طرح واپس چلی گئیں اور علامہ صاحب لانگ مارچ کے کارزار میں اکیلے رہ گئے، یہ 13 جنوری کو اسلام آباد پہنچے، ان کے کارکن سخت سردی میں 17 جنوری تک بلیو ایریا میں بیٹھے رہے، اس دوران سپریم کورٹ کے ایک فیصلے نے چند گھنٹوں کے لیے یہ غلط فہمی ضرور پھیلا دی کہ اسٹیبلشمنٹ علامہ صاحب کے ساتھ کھڑی ہے مگر اگلے ہی دن سپریم کورٹ نے خود ہی یہ تاثر زائل کر دیا، علامہ صاحب 17 جنوری کو ایک جعلی معاہدہ لے کر واپس چلے گئے اور یوں یہ لانگ مارچ ختم ہوگیا۔
علامہ صاحب کے بقول وہ لانگ مارچ" میری تحریک کی اذان تھا، میں نے اب11 مئی کو عوام کو اقامت کی دعوت دے دی ہے" 11 مئی کو علامہ صاحب کی اقامت شروع ہوگی مگر اس بار عمران خان بھی تقریباً ان کے ساتھ ہیں، علامہ طاہر القادری اورعمران خان دونوں الگ الگ احتجاج کر رہے ہیں مگر دونوں کا احتجاج کا دن اور مقصد ایک ہے، یہ دونوں نظام بدلنا چاہتے ہیں، سیاسی پنڈت اور تجزیہ کار اس بار بھی اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ فوج اور آئی ایس آئی 11 مئی کی ریلیوں کے پیچھے کھڑی ہے، یہ تاثر درست نہیں کیونکہ فوج علامہ طاہر القادری اور عمران خان دونوں پر اعتبار نہیں کرے گی۔
علامہ طاہر القادری عوامی انقلاب لانا چاہتے ہیں جب کہ عمران خان ملک کے تمام فیصلے پارلیمنٹ سے کروانا چاہتے ہیں اور یہ دو خواہشات اسٹیبلشمنٹ کے مائینڈ سیٹ کے خلاف ہیں لہٰذا فوج کبھی اپنے پائوں کاٹنے کے لیے علامہ طاہر القادری اور عمران خان کے ہاتھ میں کلہاڑا نہیں دے گی لیکن اب سوال یہ ہے، عمران خان نے فوج اور آئی ایس آئی کا پرچم اٹھا کر اپنا سیاسی کیریئر داؤ پر کیوں لگا لیا اور علامہ طاہر القادری بھی عین اس وقت ریلی کیوں نکال رہے ہیں جب فوج، جیو اور حکومت تینوں آمنے سامنے کھڑے ہیں، اس کا واحد جواب ٹائمنگ ہے، جنرل پرویز مشرف کے ایشو اور خواجگان کے گرم بیانات کی وجہ سے فوج اور حکومت کے درمیان اختلافات تھے، حامد میر پر حملے کے بعد جیو نے کریز سے باہر نکل کر کھیلنے کی کوشش کی، اس کوشش نے فوج اور جیو کے درمیان بھی اختلافات پیدا کر دیے۔
سہ فریقی لڑائی شروع ہوئی اور اس لڑائی نے ملک میں بحران پیدا کر دیا، علامہ اور عمران خان نے اس بحران کا فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا، عمران خان اور علامہ طاہر القادری دونوں کا خیال ہے یہ ان جلسوں اور ریلیوں کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ کی توجہ حاصل کر لیں گے لیکن میرا نہیں خیال فوج عمران خان یا مولانا کو موقع دے گی چنانچہ یہ تحریک ناکام ہوجائے گی، میاں نواز شریف اپنی تمام تر ناقص پالیسیوں اور بے لچک رویوں کے باوجود سیاسی لحاظ سے مضبوط ہیں، ان کی گیارہ ماہ کی پرفارمنس بالخصوص اسحاق ڈار کی معاشی کامیابیاں قابل تعریف ہیں، ملک میں لوڈ شیڈنگ ہے لیکن عابد شیر علی کی پرفارمنس بری نہیں۔
احسن اقبال، خواجہ سعد رفیق اور شاہد خاقان عباسی کی سمت بھی ٹھیک ہے جب کہ ہم لاکھ انکار کریں مگر یہ حقیقت ہے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے بھی پنجاب کی حالت بدل دی ہے، چھ سال پرانے پنجاب اور آج کے پنجاب میں بڑا فرق دکھائی دیتا ہے چنانچہ صرف ریلیوں کی مدد سے میاں نواز شریف کی حکومت گرانا آسان نہیں ہوگا، ہاں البتہ اگر امریکا اور اس کے یورپی اتحادی چاہیں اور فوج کے ساتھ میاں نواز شریف کے اختلافات انتہا کو چھو لیں یا جیو کا ایشو مزید گھمبیر ہو جائے تو پھر تبدیلی کا امکان ہو سکتا ہے ورنہ دوسری صورت میں پیالی کا یہ طوفان 11 مئی کی رات ختم ہو جائے گا۔
ہم اب فوج کی طرف آتے ہیں، ہماری فوج اپنے سابق اور موجودہ چیفس کے معاملے میں بہت حساس ہے، یہ چیفس کے انتقال کے بعد بھی انھیں سیکیورٹی دیتی ہے اور ہمیں یہ حقیقت بہر حال ماننا ہو گی، فوج اپنے چیفس کے بارے میں کتنی حساس ہے آپ اس سلسلے میں ایک واقعہ ملاحظہ کیجیے، جنرل ضیاء الحق 17 اگست 1988ء کو فضائی حادثے میں شہید ہو گئے، غلام اسحاق خان اس وقت سینیٹ کے چیئرمین اور جنرل اسلم بیگ سینئر ترین جرنیل تھے، غلام اسحاق خان نے صدر کا عہدہ سنبھال لیا جب کہ جنرل اسلم بیگ آرمی چیف بن گئے۔
غلام اسحاق خان اور جنرل اسلم بیگ دونوں محترمہ بے نظیر بھٹو کو وزیراعظم نہیں دیکھنا چاہتے تھے، پاکستان پیپلز پارٹی کے مخالفوں کو اکٹھا کیا گیا، آئی جے آئی بنائی گئی، آئی ایس آئی کو بے نظیر بھٹو کو ہرانے کا ٹاسک دیا گیا، 14 کروڑ روپے کی رقم ریلیز ہوئی، ریاستی طاقت استعمال ہوئی، 16 نومبر 1988ء کو الیکشن ہوئے مگر نتائج توقع کے برعکس نکلے، آئی جے آئی صرف 56 نشستیں حاصل کر سکی، پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس 94 ایم این ایز تھے، 40 ارکان آزاد تھے، نتیجہ نکل آیامگراسٹیبلشمنٹ نے ہمت نہ ہاری، جنرل رفاقت اس وقت صدر کے پرنسپل سیکریٹری تھے۔
جنرل رفاقت کو آزاد ارکان کی حمایت حاصل کرنے اور پی پی پی کو توڑنے کا ٹاسک دیا گیا، جنرل رفاقت کے پاس صرف 15 دن تھے، دس دن بعد میٹنگ ہوئی، صدر کے سامنے ساری پکچر رکھ دی گئی، صدر خاموشی سے سنتے رہے، اٹھے، واش روم میں گئے، منہ دھویا اور باہر آکر اعلان کر دیا "ہم آئی جے آئی کی حکومت نہیں بنا سکیں گے، پی پی پی کو حکومت بنانے دیں، یہ حکومت چھ ماہ سے زیادہ نہیں نکال سکے گی" میٹنگ ختم ہو گئی، بحریہ ٹائون کے چیئرمین ملک ریاض اس وقت جنرل اسلم بیگ اور جنرل رفاقت کے دوست تھے، جنرل رفاقت نے ملک ریاض کو بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے پاس بھجوا دیا۔
ملک ریاض نے بے نظیر بھٹو اور زرداری صاحب کو جنرل بیگ کے گھر ڈنر کی دعوت دی، یہ دونوں آرمی ہائوس پہنچ گئے، ملک ریاض بھی اس ڈنر میں موجود تھے، اس ڈنر کے دوران بے نظیر بھٹو کو وزیراعظم کا پروٹوکول دے دیا گیا، بے نظیر ذاتی کار میں آرمی ہائوس آئیں لیکن سرکاری گاڑیوں میں ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے اسٹیٹ گیسٹ ہائوس گئیں، ڈنر کے بعد جنرل اسلم بیگ نے محترمہ اور زرداری صاحب کو مبارک باد پیش کی اور ان سے صرف ایک درخواست کی " جنرل ضیاء الحق ہمارے چیف تھے، آپ کے ہاتھ سے ان کی فیملی کو کوئی تکلیف نہیں پہنچنی چاہیے" بے نظیر بھٹو اس وارننگ پر خاموش رہیں، بے نظیر بھٹو نے 2 دسمبر 1988ء کو اقتدار سنبھالا، جنرل ضیاء الحق نے ان کے والد کی حکومت توڑ ی تھی، ملک میں مارشل لاء لگایا تھا۔ بھٹو صاحب کو پھانسی پر چڑھایا تھا اور انھیں، ان کی والدہ اور ان کے بہن بھائیوں کو جلاوطن ہونے پر مجبور کیا تھا مگر بے نظیر بھٹو نے اقتدار میں آنے کے بعد جنرل ضیاء الحق کے خاندان کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے نہیں دیکھا۔
1996 میں اعجاز الحق نے راولپنڈی میں کلاشنکوف لہرا دی، جنرل نصیر اللہ بابر اس وقت وزیر داخلہ تھے، جنرل صاحب نے اعجاز الحق کو گرفتار کرا دیا، جنرل ضیاء الحق کی اہلیہ بیگم شفیقہ ضیاء نے جنرل اسلم بیگ کو فون کیا، جنرل بیگ اس وقت تک ریٹائر ہو چکے تھے لیکن یہ اٹھے، سیدھے وزیراعظم ہائوس گئے اور محترمہ سے کہا " بی بی میں نے آپ سے درخواست کی تھی، آپ ہمارے چیف کی فیملی کو تنگ نہیں کریں گی" بے نظیر بھٹو نے اسی وقت اعجاز الحق کی رہائی کا حکم جاری کر دیا۔
حکومت نے جنرل ضیاء الحق کے صاحبزادے کی اصلی کلاشنکوف کو کھلونا کلاشنکوف قرار دیا اور اعجاز الحق کو رہا کر کے گھر بھجوا دیا، یہ درست ہے، یہ 1996ء کی بات تھی اور آج 2014ء ہے لیکن فوج کی روایات آج بھی قائم ہیں لہٰذا یہ جنرل پرویز مشرف پر آنچ نہیں آنے دے گی، یہ فوج کا فیصلہ ہے، دوسری طرف میاں نواز شریف نے بھی جنرل پرویز مشرف کو سزا دلانے کا فیصلہ کر رکھا ہے، یہ دو فیصلوں کی لڑائی ہے، اس لڑائی میں اب جنگ گروپ، عمران خان اور علامہ طاہر القادری بھی کود پڑے ہیں لیکن طاقتیں بہرحال دو ہی ہیں، فوج اور میاں نواز شریف۔ یہ جنگ کون جیتے گا یہ فیصلہ حالات کریں گے، حالات پلٹا کھا گئے تو میاں نواز شریف فاتح ہوں گے اور اگر حالات فوج کے ساتھ کھڑے ہو گئے تو پھر میاں نواز شریف بدقسمتی سے اپنی تیسری اننگ بھی پوری نہیں کر سکیں گے اور یہ وقت آیا تو اس بار ان کے قریبی ترین ساتھی بھی ان کا ساتھ چھوڑ جائیں گے۔