Osho Ki Baaten
اوشو کی باتیں
اوشو (چندر موہن جین) مدھیہ پردیش میں 1931 کو پیدا ہوئے۔ وہ گرو رجنیش کے نام سے بھی مشہور ہیں۔ انھوں نے غیر معمولی بچپن، رنگین جوانی اور خطرات سے بھرپور فلسفیانہ زندگی گزاری۔ وہ کچھ عرصے تک سکس گرو کے نام سے بھی مشہور رہے، مگر جلد ہی لاتعداد چیلوں نے ان کو بھگوان کا درجہ دے دیا۔
اوشو نے کئی دل چسپ کتابیں لکھی ہیں جن میں فلسفے کی بھرپور چاشنی پائی جاتی ہے۔ ان کی تحریروں میں بہت جلد متاثر کرنے اور قاری کو اپنے فکری مدار سے ہٹانے کی مکمل صلاحیت موجود ہے۔ اوشو کو پڑھنے سے پہلے اپنی عقل کے گھوڑے کو لگام ڈالنا نہ بھولیے گا، ورنہ بدکے ہوئے گھوڑے کو رام کرنا مشکل ہوگا۔ یہاں اوشو کی چند باتیں پیش خدمت ہیں۔
دنیا ایک بہت بڑا پاگل خانہ اور اعصابی خلل کی سرزمین ہے۔ اس وقت دنیا انسانی فطرت کے خلاف مختلف قوانین کی ذد میں ہے، جس کی وجہ سے انسان محبت اور تخلیقی صلاحیتوں سے محروم ہوگیا ہے۔ محبت اور قوانین ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ محبت سے محرومی زندگی اور خدا سے محرومی ہے۔ انسان کے لیے سب سے زیادہ قیمتی چیز اس کی اپنی فطرتی زندگی ہے۔ زندگی خدا ہے اور خدا انسانی وجود کے اندر ہے۔ اپنے من میں خدا پانے کے بعد انسان کو چرچ، مندر، کیلاش اور مسجد جانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
انسانی فطرت ربانی ہے۔ مذہبی اور سیاسی حد بندیوں پر یقین رکھنا حماقت ہے۔ اس سے قوم پرستی، فسطائیت اور انسانیت دشمنی جنم لیتی ہے۔ سیاست اور سیاسی حکمرانوں کے بغیر بھی جینا ممکن ہے۔ لیکن حکمران ایسا نہیں کرنے دیتے، کیوں کہ پھر ان کی اہمیت ختم ہوجاتی ہے۔ حکمران عوام دشمن ہوتے ہیں، اپنے دشمنوں کے انتخاب میں دل چسپی لینا حماقت ہے۔ ان دشمنوں نے عوام کو پریشان کرنے، مصیبت میں مبتلا کرنے اور انسانوں کی حالت کو قابل رحم بنانے میں بے تحاشا سرمایہ کاری کی ہے۔ حکمرانوں کی طرح سائنس دان بھی تخریب کار ہوتے ہیں اور سائنسی ترقی بھی فطرت پر تشدد ہے۔ علم لازمی بدی ہے، مگر اس سے فرار ممکن نہیں۔
مذاہب اجتماعی اور اعصابی فساد کے سوا کچھ نہیں۔ عقیدہ جہالت چھپانے کے لیے بہترین اوزار ہے۔ ایک مذہبی آدمی کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ دوسروں کو بھی اپنے جیسے بنانے کی کوشش کرتا ہے اور ایسا کرنے میں اطمینان حاصل کرتا ہے۔ مذہبی ہونے کا مطلب خود کو فنا کرنا ہے۔ کسی کو اپنا جیسا بنانا اور کسی کو اپنی جانب کھینچنا بے ہودگی اور روحانی تشدد ہے۔ انسان کو بطور زریعہ استعمال کرنا زیادتی ہے، کیوں کہ وہ خود ایک مقصد ہے۔ دنیا میں کوئی مذہب شیطان کے بغیر باقی نہیں رہ سکتا اور شیطان کے خاتمے سے خدا کا خاتمہ بھی یقینی ہوجاتا ہے۔
انسان کو درویش، لیڈر اور مفکر بھی نہیں ہونا چاہیے، کیوں کہ وہ استحصال کرنے والے ہوتے ہیں اور ان کو خود کے سوا باقی تمام لوگ گناہ گار، غدار اور جاہل نظر آتے ہیں۔ ان کی وجہ سے عوام غربت، غلامی اور بدحالی کا شکار ہیں۔ جانوروں میں درویشی اور حب الوطنی نہیں ہوتی اور نہ ہی جانوروں نے اب تک عقیدے، سیاست اور معیشت کے نام پر عالمی جنگیں لڑی ہیں۔ جانوروں کی لڑائیاں انفرادی ہوتی ہیں۔ انسان کے سوا کوئی دوسرا حیوان فحش نگار نہیں ہے اور نہ ہی دوسرے حیوانات اپنے جنسی جذبات کو دبا کچلا کر تہذیب کو داؤ پر لگاتے ہیں۔ جنس سے انکار سے بدامنی اور انتشار پھیلتا ہے، جب کہ امن کے لیے جنسی آزادی ضروری ہے۔ درویشی، فقر اور استغنا خود پر تشدد کے سوا کچھ نہیں۔
انسان دنیا کا واحد نامکمل جانور ہے۔ وہ جتنا مخلص ہوگا، اس کے لیے دنیا اتنی ہی غیر حقیقی رہے گی۔ اچھے انسان کو طاقتور بننے کی کوئی ضرورت نہیں، کیوں کہ اچھائی بذات خود بہت بڑی طاقت ہے۔ زندگی صرف مقابلے کا نام نہیں، جشن کا نام بھی ہے۔
انسان ایک قابل رحم معاشرے اور انسدادی تہذیب میں رہتا ہے۔ اس نے اب تک نہ خود سے احکامات وصول کیے ہیں اور نہ ہی ان پر عمل کیا ہے۔ اندرونی دنیا میں جھانکنے کے لیے انسان کو حواس خمسہ سے ماورا ہوکر خود میں اترنے، خود کا طواف کرنے اور خود سے ہدایات لینے کی ضرورت ہے۔ اس جھانک تانک کے لیے کسی سفر اور ذاد راہ کی ضرورت نہیں۔ یہ سفر صرف آنکھیں بند کرنے اور مراقبہ کرنے سے شروع ہوتا ہے۔ اس مراقبے کے بعد پلٹنے کا عمل، اچانک موڑ اور نادر و نایاب فیصلہ کن اقدام سنیاس کہلاتا ہے۔۔ یہ ایک لمحہ ہے۔۔ روشنی کا لمحہ!
اس لمحے کے حصول کے لیے تنہائی لازمی ہے۔ تنہا ہونا شہنشاہ ہونا ہے۔ تنہائی سے فرار داخلی خزانے سے فرار ہے۔ تنہائی مطلق آزادی ہے۔ تنہا ہونا امیر ہونا، جب کہ اکیلا ہونا غریب ہونا ہے۔ تنہا ہونا آپ کا انتخاب ہے، مگر اکیلا ہونا آپ کے متعلق دوسروں کا انتخاب ہے۔ تنہائی محبت اور تخلیقیت کا منبع ہے۔ تخلیق کار خدا کا حصہ ہوتا ہے، جوں ہی تخلیق کار معزز اور مہذب بن جاتا ہے تو وہ بانجھ ہوجاتا ہے۔ معزز اور مہذب لوگ بزدل اور خوف زدہ ہوتے ہیں۔ معمولی تخلیقی بننا بھی پوری دنیا کی بادشاہت سے زیادہ اہم ہے۔
انسان غلام نہیں، آقا ہے۔ ذمہ دار بننا، اپنی غلطیوں سے سیکھنا، آوارہ گردی سے بچنا، حادثاتی نہ بننا اور اپنی کشتی کا خود ہی ناخدا بننا طاقتور انسان کی پہچان ہے۔ انسان نے جس فطرت پر جنم لیا ہے، اگر کئی عشروں بعد بھی وہ اسی فطرت پر مر جاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس نے زندگی بھر کچھ نہیں سیکھا اور اس کی ساری زندگی رائیگاں گئی۔
زندگی ایک انمول تحفہ ہے اور دنیا کے تمام دھرم خوشیوں کے مخالف ہیں۔ خوش گوار زندگی گزارنے کے لیے صحت مند جسم کا ہونا ضروری ہے۔ ایک انسان کا جسم اس کے خدا کا قلعہ ہوتا ہے۔ انسانی وجود ہی اس کے خدا کے ہونے کی دلیل ہے۔ جسم توانائی، محبت اور خوشی کا مخزن ہے، اس کو معاشرتی سرطان زدگی سے بچانے کی ضرورت ہے۔ جسم ہر کام میں انسان کا معاون ہوتا ہے۔ صحت مند جسم کے لیے مناسب نیند ضروری ہے۔ نیند سے اعتدال اور سکون آتا ہے۔ کسی کو سونے نہ دینا بدترین سزا ہے۔ بے خوابی سے لامذہبیت، لاقانونیت اور انتشار پیدا ہوتا ہے۔ مغرب میں لامذہبیت اور انتشار کم خوابی کی وجہ سے ہے۔ اکثر انا پرست لوگ کم خوابی کی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں۔
انسان ہجوم اور خدا تنہائی سے تھک گیا ہے اور اب دونوں ایک دوسرے کی تلاش میں ہیں۔