Pabandiyan Zaroor Lagain
پابندیاں ضرور لگائیں
ہمارے گھر میں ایک بچہ ایسا ہے، جس کی عادت عجیب وغریب ہے۔ میں نام بتانا نہیں چاہتی۔ کیوں کہ کچھ خاندان والے اور فیملی فرینڈز بھی میری ٹوٹی پھوٹی تحریر کو پڑھنے کے قابل سمجھتے ہیں، تو میں ہر گز نہیں چاہتی کہ اس بچے کا مذاق اڑایا جائے۔
ہمارے گھر کا یہ بچہ بچپن سے ایک ایسی عادت میں مبتلا ہے کہ میں نفسیات کے مضمون میں گریجویشن کرنے کے باوجود اس کو سمجھانے بلکہ کہیں سمجھنے سے قاصر ہوں۔ اس کی عادت کو بدلنے کی کوشش میں، میں بے حال ہو چکی تھی، پھر ایک حربہ یا کہیں نفسیات کی ایک تھراپی نے ایسا کام کیا کہ میری زندگی میں کافی حد تک سکون آگیا۔ یہ تھراپی میں نے اور بھی بہت سے مسئلوں اور مختلف لوگوں پر استعمال کی۔ نتائج سو فیصد تو نہیں مگر ستر سے اسی فیصد ضرور حاصل ہوئے۔
پہلے بچے کی عادت کے متعلق بتاتی ہوں، پھر تھراپی کی بات کریں گے۔
بچے کی عادت یہ ہے کہ وہ بچپن سے بڑے اہتمام اور فرمانبرداری کے ساتھ کسی بھی کام کی اجازت یا مشورہ مانگتا ہے، لیکن کرتا وہی ہے، جو اس کی پسند یا کہہ لیں کہ دئیے گئے مشورے کے الٹ ہوتا ہے۔
اس بات کا احساس مجھے سب سے پہلے تب ہوا جب اس نے پہلی جماعت میں پھول کے اندر رنگ بھرتے ہوئے مجھ سے پوچھا کہ کون سا رنگ بھروں؟ میں نے پھول کی ہیت دیکھتے ہوئے کہا سرخ رنگ بھر دو۔ بچے نے سن کر سر ہلایا اور سرخ کی بجائے پیلا رنگ اٹھا کر رنگ بھرنا شروع کر دیا۔ میرے اندر مشرقی ماں والا بھرپور غصہ امڈ کر آیا، مگر میں نے اس غصے کو دبا کر پوچھا سرخ رنگ کیوں نہیں کیا؟ بچہ بولا مجھے پیلا رنگ پسند ہے تو پھر مجھ سے کیوں پوچھا تھا، میں نے سوال کیا، دراصل میں سوچ رہا تھا کہ آپ کو کون سا پسند ہے؟ تو پھر میری پسند سے کیوں نہیں بھرا؟ میں نے پھر سوال کیا۔ مجھے اپنی مرضی سے بھرنا تھا۔ سیدھا جواب آیا۔
میں خاموش ہوگئی۔ کیوں کہ سب والدین کی طرح میری بھی خواہش تھی کہ بچے ہر چھوٹا بڑا کام مجھ سے پوچھ کر کریں اور میں انھیں بہتر مشورہ دے سکوں۔ لیکن یہ تو پھول میں رنگ بھی میری مرضی سے نہیں بھر رہا۔
پھر میں نے بچے کو فوکس کیا تو محسوس ہوا، وہ ہر کام میں مشورہ لیتا ہے، مگر زیادہ تر اپنی مرضی کرتا ہے۔
آپ یقین مانیئے بہت سے غلط فیصلوں کے نتائج جو کہ اتنے سنگین نہیں ہوتے تھے، آرام سے بھگت بھی لیتا تھا۔
میں نے پھر سوچا کہ ٹینشن لینے کی بجائے اس مسئلے کو حل کیا جائے۔ کیوں کہ عادت تبدیل کرنا بہت مشکل ہے مگر ہم اس کی سنگینی کو ضرور کم کر سکتے ہیں۔ اس کے دورانیے کو مختصر کر سکتے ہیں۔
اب یہ ہوا کہ جب میرے سے کسی مسئلے پر یہ بچہ مشورہ کرتا ہے، تو میں کہتی ہوں بیٹا جو آپ۔ کو مناسب لگے، آپ وہ کرو اور ظاہر ہے جب انسان اپنی مرضی کرتا تو پھر نتائج کا ذمہ دار بھی خود ہوتا ہے۔ خاص طور پر تب جب اس بچے کے علاوہ ہمارے پاس وہ بچے بھی ہوں، جو خاصے فرمانبردار ہوں اور والدین کے مشورے کے بغیر کوئی قدم نا اٹھاتے ہوں۔
پھر کیوں نا اپنی مرضی کرنے والے بچے پر نظر رکھتے ہوئے، اسے فیصلہ خود کرنے دیا جائے۔ کیوں کہ وہ اپنی عادت اور فطرت سے مجبور ہے۔ وہ بدل نہیں سکتا۔ ہمیں اس کو بہت زیادہ فوکس کرنے کی بجائے فرمانبردار اولاد کو زیادہ فوکس کرنا چاہیے۔ یہ میرا ماننا ہے۔
ملک بھی گھر ہی کی طرح ہوتا ہے۔ عوام گھر کے افراد ہیں۔ کچھ فرمانبردار ہیں، کچھ اپنی مرضی کے مالک۔ پابندیاں لگانے سے بے مقصد ضد پیدا ہوتی ہے۔ کیوں کہ دین اسلام میں سیدھی راہ پر چلانے کے لیے سختی نہیں۔
قرآن کریم میں اللہ رب العزت ارشاد (سورہ البقرہ آیت 256) فرماتے ہیں کہ، ترجمہ! "دین کے بارے میں کوئی زبردستی نہیں، ہدایت، ضلالت سے روشن ہو چکی ہے"۔
اس آیت کے نزول اور معانی سے ہٹ کر ظاہری الفاظ پر غور کریں تو خالق حقیقی کے یہ الفاظ انتہائی واضح اور پر اثر ہیں۔ جب نبی کریم ﷺ کو مجسم سامنے دیکھ کر کچھ گمراہ لوگ ہدایت نا پا سکے تو اس دور پر آشوبِ میں نتائج سو فیصد کیسے حاصل ہو سکتے ہیں؟
ریاست ایک ماں کی طرح ہے، جو اپنے بچوں کو تکلیف سے بچانے کے لیے پابندیاں لگانا چاہتی ہے، مگر بچے تو پھر بچے ہوتے ہیں۔ ایک ایسے اسپرنگ کی مانند جن کو جب زیادہ دبایا جائے تو وہ پوری طاقت سے آزاد ہونا چاہتے ہیں۔ اس لیے بہتر ہو کہ آرام آرام سے دبا کر اسپرنگ کو ڈبے میں بند کرکے ڈھکن مضبوطی سے لگایا جائے۔
والدین اپنے گھر اور مختلف عادات کے بچوں کو بھی پریشانی سے بچاتے ہیں اور نظام پر بھی قابو رکھتے ہیں۔ بغاوت کو پنپنے نہیں دیتے اور محبت ختم نہیں ہونے دیتے۔ سمجھ لینے والوں کے لیے نصیحت اور جن کے دلوں پر تالے لگ چکے ہوں ان کے لیے بے مقصد اور بے وقت کی راگنی ہے۔
التجا ہے کہ پابندیاں ضرور لگائیں مگر اندھا دھند نہیں۔