Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Jameel Ahmad Adeel
  3. Urabchi So Gaya Hai

Urabchi So Gaya Hai

عرابچی سو گیا ہے

نصیر احمد ناصر کی نظموں کے اصل لطف کا خزانہء عامرہ ان مناظر میں مخفی ہے جہاں وہ بالکل سامنے کی صورت حال کو ایسے پیراہن میں پیش کر دیتے ہیں کہ پڑھنے والا دفعتہ" stun ہو جاتا ہے۔ اسے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ نامشہود (unperceived) تھا۔ یوں وہ بے ساختہ کہہ اٹھتا ہے:

اچھا تو اس مظہر میں یہ چنگاری بھی مضمر تھی؟

قواعد کی زنجیر میں جکڑی کائنات بھی ایک سچ اور شاعر کی آنکھ سے کاسموس کو دیکھنا بھی ایک تجربہ! بادی النظر میں یہ دوئی انمل اور بے جوڑ سہی لیکن متبائن معنویتیں شعور کا حصہ بننے پر بہرصورت غیر آمادہ نہیں۔ مذکورہ " ثنویت " کو مقیم موج (standing wave) کی مثال سے شاید واضح کیا جا سکے، یعنی: " ایسا ارتعاش جس میں بعض نقطے ساکت رہیں جبکہ ان کے درمیان دوسرے انتہائی ارتعاش کی حالت میں ہوں"۔

فرد کا بھی یہی مقدر ہے۔ کبھی ایک قطب کی ترغیب اور عین اس کے اندر دوسرے کا بلاوا۔ کبھی محبت عامل تو بعینہ اس کے بیچ نفرت فعال۔ کبھی ایک جذبہ متحرک تو اسی کے من میں بکل مار کے بیٹھا دوسرا خوابیدہ۔۔ پانی چلتا ہے تو کشتی ساکن۔۔ دوسراہٹ ہی دوسراہٹ۔۔ " کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے "! رائی کے دانے کے لیے بھی کوئی نہ کوئی " کٹر بلیڈ " تو موجود ہوگا کہ ذرے کا دل چیرنے کی خواہش میں شہوت انگیز تجسس تو بہرحال پوشیدہ ہے۔ قصہ مختصر! اب ایک طرف مادیات کی کنکریٹ صورتیں ہیں جو بہ عنوان " زمینی حقائق " اپنا محاصرہ قائم رکھتی ہیں اور دوسری جانب وہ تخلیقی ساعتیں جو در دلکشا کی لطافت آمیز ثروت گاپے گاہے ہمسفر کر دیتی ہیں۔

ان تخلیقی آنات کا ایک اہم مصدر نصیر احمد ناصر کی نظمیں بنیں۔ اس لیے کہ ان کی اکثر نظمیں اپنی کتھا فرد کے باطنی تجربے سے آغاز کرتی ہیں۔ جوں جوں نظم صعود کے مراحل طے کرتی جاتی ہے وہ کسی نہ کسی کائناتی گوشے کو محیط ہوتی چلی جاتی ہے، کبھی اسی خطہء ارض کے undiscovered areas کو منزل قرار دیتی ہے یعنی جمال فطرت کی بے نقابی کو دلکشی کا مرکزہ بناتی ہے تو کبھی قاری کو سطح زمین سے اٹھا کر ان پہنائیوں کا مسافر بنا دیتی ہے جسے " وسعت افلاک " کے جبت / جادو سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔

نصیر احمد ناصر عمدا" مشکل راستے کا چناو کرتے ہیں۔ انھیں خبر ہے کہ لفظ جب ندرت اور عمق کا ترجمان ہونے لگے تو تصور میں آباد نقطے پھیلنے لگتے ہیں۔ نتیجہ معلوم وجود منور ہو جاتا ہے۔ تاہم یہ سب ایسا آرام دہ نہیں۔ موج در موج رموزی عمل سے گزرے بغیر آواز کو مختلف نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے کہ سمتوں میں چھپی سمتوں کی پراسراریت کے اپنے تقاضے موثر ہیں۔ عام بینائی کی رہنمائی تو محض چند قدم تلک بدرقہ بن پاتی ہے۔ نظم کا یک سطحی یا اکہرا ہونا سخن کے رقبے میں اضافے کا سبب نہیں بنتا۔ سچا نظمیہ متن تو ان گنت حرفوں کے بھید سے بھرا ایک مشکیزہ ہے۔

کشش سے مشروط قرات کا عمل صدق کو نیر الہام بناتا ہے۔ بلاشبہ نظم بھی ایک پرندہ ہے کہ فکر کی اڑان سے متصف ہے۔ لغت میں درج اکھر بے حس و حرکت پڑا رہتا ہے۔ یہ تخلیق کار کا قدسی نفخ ہے جو اسے پکھیرو بنا دیتا ہے۔ نصیر احمد ناصر کی شعری مسیحائی ترابی طیور کو اذن پرواز دینے کا متواتر کرشمہ تو دکھاتی ہے لیکن اس اثنا میں شاعر کی فکر اور اس کی ذات جس طرح دونوں نقطوں کے درمیان گردش کو وظیفہ بناتی ہے وہ اپنی جگہ تہوں میں لپٹی ہوئی کیفیت قرار پائے گی۔

نصیر صاحب کی ایک نظم جو تنہا چلتے ہوئے مجھے اکثر تنہا نہیں رہنے دیتی کہ اس کی beat احساس کے ساتھ اپنے آپ ہم آہنگ ہوجاتی ہے۔۔ اس مجموعے کا حصہ ہے: " عمر کے رقص میں" اس کا سرنامہ ملے گا۔ توجہ کو فوری جذب کر لینے والی، مقناطیسی قوت کی حامل اس نظم کا مواد، موضوع اور خیال اپنی ماہیتوں کے بیچ مغایرتوں کو کہیں تحلیل کر ڈالنے کے بعد متن بنا ہے۔ ان نظمیہ سطروں میں شاعر نے زندگی کا ہاتھ تھام کر رقص کیا ہے اور قاری کے کان میں سرگوشی کی: یہ ہوتا ہے ردھم! جس کا نفسی نقطہ ہم آوازی یا عروض و آہنگ کی رسمیات سے وابستہ نہیں۔ اس کے برعکس یہاں ترنم کا محور اس جوہر میں واقع ہے جس نے عرض کی جزئیات تک اپنے اندر سمیٹی ہوئی ہیں۔ مزید برآں روشنی کا سفر جس جست کا پیمانہ " ایجاد " کررہا ہے، سارا ازل ابد، ابتدا انتہا کا عمل لاجوردی خلا کی پہنائی میں پنہاں ہے۔ شاعر نے ہر مظہر کے کونوں کو موڑ کر ایک دوسرے سے ملا دیا ہے۔ اس خم داری (incurvation) نے نظم کی معنویت میں جادو بھر دیا ہے:

ہجر کی نیند میں
وصل کے خواب میں

خواب شب تاب میں
دکھ کے بے آب میں

جسم کی خاک پر
ارض کے چاک پر

قطرہء اشک میں
موج افلاک پر

***

تن کے آزار میں
من کے اس پار میں

عکس بے عکس میں
عمر کے رقص میں

عہد بے عہد میں
وقت بے وقت میں

***

شعاعوں کا جال بنتی ہوئی اس نظم کی قرات کے دوران ایک غیرحتمی سا خیال آتا رہا کہ ممکن ہے لفظ کا دمکتا ستارا / نگینہ الگ سےفراہم ہو جاتا ہو اور اس کے اعزاز میں انگشتری کا اہتمام کر لیا جاتا ہو۔ البتہ اس نظم کی حد تک نصیر احمد ناصر کے ہاں ایسا نہیں ہوا۔ یہاں تصور اپنی اکائی کی تکمیل کے عرصہ میں لفظوں کے نگینے خود تراشتا چلا گیا ہے۔ بہ ظاہر یہ الگ سے جڑے ہوئے لگتے ہیں مگر حقیقتا" ایسا نہیں۔ ان پاروں میں معنی کی کرنیں قلب و نظر کو اس طرح سیراب کرتی چلی جاتی ہیں کہ نور افگنی کے معنی سمجھ میں آنے لگتے ہیں۔ سب prismatic ہے، جیسے " مثلثی قلم کی انعطافی سطحیں ایک دوسرے سے زاویہء حادہ پر ہوتی ہیں، یوں روشنی کی شعاع مختلف رنگوں میں بٹ کر نکلتی ہے "، نظم کا منشوری ہونا اس کے جمالیاتی رخ کو پیش کرتا ہے۔ تخلیق سے بڑھ کر اثبات حسن اور کہاں میسر ہوگا!

اسی طرح نصیر صاحب کی نظم: " چندھا " اپنے یکسر علاحدہ ٹریٹمنٹ کے باعث انفرادیت کی تجسیم ہے:

اگر کوئی اچانک روشنی کردے
تو کیا تم دیکھ پاو گے؟

وہ سب چیزیں
جو تاریکی کے گہرے اسودی

محلول میں گم ہیں
سراپا زندگی کا۔

موت کا چہرہ۔
اداسی کا بدن۔

آواز کے لب۔
درد کے ڈمپل۔

خوشی کے مرمریں پاوں۔
محبت کی حنائی انگلیاں۔

آفاق زلفوں کے۔
خدا کا سرمدی سایہ۔۔

***

اگر کوئی اچانک روشنی کردے
تو کیا تم دیکھ پاو گے

ابد کی دھند میں لپٹی
ازل سے منتظر

آنکھیں کسی کی؟

کارل ساگان کا کہنا ہے: " ستاروں کی پہلی نسل نے کائنات کو تابانی سے بھر دیا تھا۔ " نصیر احمد ناصر کی درخشاں لفظیات نے اس نظم کو آغاز ہی میں تابانی سے یوں بھر دیا ہے کہ روشنی اخر تک ماند نہیں پڑی۔

یہ عاجز ایک طالب علم اور مبتدی خوانندہ کے طور پر نصیر صاحب کی نظمیں پڑھتا آیا ہے۔ یہی خو معانی کے امکانی شیڈ برآمد کرکے انبساط سے ہمکنار ہونے کے مواقع مہیا کرتی ہے وگرنہ طاقتور تفہیم متن کی قاتل ثابت ہوا کرتی ہے۔ حتمیت کا یہ فعل یا کھیل دھرم کے شارحین کو زیبا ہے کہ منھ زور اعتماد اور ادعا تخلیقی دنیا کی لطافت اور ملائمت سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا۔

***

" عرابچی سو گیا ہے "! کا اولین ایڈیشن 2001 میں منظر عام پر آیا تھا، مصنف نے اس کتاب کا ایک نسخہ راقم کو بھی ارسال کیا تھا، جس کے عنوان ہی نے ایکدم متجسس کر دیا کہ تب " عرابچی " کا معنا معلوم نہ تھا۔۔ اسی وقت ڈکشنری کھولی تو پتا چلا: عرابہ / عراوہ: چھکڑا، گاڑی کو کہتے ہیں اور یوں عرابچی: عرابہ چلانے والا۔۔ گاڑی بان، رتھ وان۔۔ اسی سے معنون ایک خوب صورت اور فکر افروز نظم بھی مجموعے میں شامل ہے:

عرابچی سو گیا ہے
طولانی فاصلوں کی

تھکن سے مغلوب ہوگیا ہے
خبر نہیں ہے اسے، کہاں ہے

بس ایک لمبے، کٹے پھٹے
ناتراش رستے پہ چوبی گاڑی

ازل سے یونہی
ابد کی جانب رواں دواں ہے

ذرا سے جھٹکے سے
چرچراتی ہے جب

تو بوسیدگی کی لاکھوں تہوں میں لپٹا
ہر ایک ذی روح چونکتا ہے۔۔

عرابچی خواب دیکھتا ہے
وہ شاہ زادی کا ہاتھ تھامے

سنہری رتھ میں سوار ہوکر
عجب جہانوں، نئے زمانوں میں

کھو گیا ہے
عرابچی سو گیا ہے۔۔

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan