اگلی نسل
ماضی کی یادوں سے نکل کر اور ’’حال‘‘ کے بُرے ہو چکے حال کو چھوڑ کر اپنی کا سوچیں کیونکہ آپکی اُس نسل کے رحم وکرم پر کہ جو پچھلی نسل سے بھی گئی گذری۔
بات سمجھانے کیلئے پہلے چند ٹریلرز ’’غیروں‘‘کی کے!
بل کلنٹن اور ہیلری کی اکلوتی بیٹی چیلسی، ریسٹورنٹ میں نوکری کی، ایک فرم میں کام کیا اور اب دوبچوں کی ماں ہو کر خود کما اور گھر چلارہی، جینا بش کا دادابش سینئر بھی صدر اور باپ بش جونیئر بھی صدر، خاندان کا تیل وگیس کا وسیع کاروبار اور بے تحاشا جائیداد مگر جینا نے خاندانی دولت پرعیاشی کی بجائے شعبہ صحافت کو اپنایا اور اپنی محنت اور قابلیت سے اب یہ میگزین ایڈیٹر اور ایک ٹی وی چینل کی نمائندہ خصوصی، باراک اوبامہ کی چھوٹی بیٹی ساشا نے ابھی پچھلی گرمیوں کی چھٹیوں میں ایک ریسٹورنٹ پرویٹری کی اور کھانا بنانا سیکھا، سابق برطانوی وزیراعظم ڈیوڈکیمرون کے عام سکولوں میں پڑھتے بچوں کو ہفتے میں ایک بار ہوٹلنگ کی اجازت اور سب کو پتا کہ انہیں اپنے مقر ر کردہ جیب خرچ میں ہی گذارا کرنا ہو گا، دنیا کے امیر ترین شخص بل گیٹس نے اپنے بچوں کو جب سے ’’اپنی دنیا خود بنانے کا کہہ کر‘‘ اپنی دولت انسانی فلاح وبہبود کیلئے وقف کی تب سے تینوں بچے عام بچوں کی طرح زندگی گذارتے ہوئے، طویل عرصے تک نیویارک کے میئر رہنے اور میئر شپ کے دوران ایک ڈالر ماہانہ تنخواہ لینے والے 42 ارب ڈالر اثاثوں کے مالک مائیکل بلومبرگ کی دونوں بیٹیوں کیلئے گھر میں ایک نوکر بھی نہیں، دونوں اپنے کپڑے خود استری کریں، اپنا کمرہ خود صاف اور اپنا ناشتہ خود بنائیں، یہی نہیں جب باپ شہرکا میئر تھا تو بیٹی شہر کی ایک لائبریری میں اسسٹنٹ تھی، ایشیاء کا مہنگا ترین اداکار جیکی چن کہے کہ ’’ میں نے یہ سوچ کر بیٹے کو اپنے پیسوں میں سے ایک د ھیلا بھی نہیں دیا کہ اگر وہ کسی قابل ہے تو اسے میری دولت کی ضرورت نہیں اور اگر وہ نالائق نکلا تو پھرمیں محنت سے کما یا اپنا پیسہ ضائع کیوں کروں ‘‘۔ یہ تو چند مثالیں ورنہ ایسی سینکڑوں مثالیں اور بھی، لیکن بات آگے بڑھانے سے پہلے یہ واضح کردوں کہ آپ یہ نہ سمجھیں کہ یہ سب اپنے بچوں سے محبت نہیں کرتے یا یہ اتنے لالچی کہ اولاد کو کچھ دینا نہیں چاہتے، نہیں ہرگز نہیں، یہ سب اپنی اولادوں پر جان چھڑکنے اور ان کی چھوٹی سی چھوٹی چیز کا خیال رکھنے والے، لیکن ان کی سوچ یہ کہ بچوں کی بہترین پرورش کرو، انہیں دنیا کی بہترین تعلیم دو اور پھر انہیں اپنے قدموں پر کھڑا ہونے دو تاکہ وہ عملی زندگی کی حقیقتوں کا سامنا کر کے اس معاشرے اور اس دنیا کیلئے اچھے انسان ثابت ہوں ،ا ب بات اپنی کی کہ جو ہماری کی والی وارث، دوچار نمونے د یکھیں، صورتحال خود ہی واضح ہو جائے گی !
میں زندگی بھر وہ ’’نیو ائیر پارٹی ‘‘ نہیں بھلا سکتا کہ جو اپنے اُس شہزادے نے دے رکھی تھی کہ جسکا خاندان کئی دہائیوں سے نسل درنسل سیاست میں اور جس کے بڑے وزارتِ عظمیٰ سمیت ملک کے ہر اہم عہدے پر فائز رہ چکے، اپنی خاندانی سیاسی گدی سنبھال چکے شہزادے نے اُس رات خلیجی ملک کا پورا 7 سٹار ہوٹل بُک کروارکھا تھا، دلہن کی طرح سجی ہوٹل کی مین لابی سے گذر کر اور دو درجن سیڑھیاں اتر کر جیسے ہی میں ہوٹل کے ساحلِ سمندر پارٹی ایریا میں آیا تویوں لگا کہ جیسے کسی اور ہی دنیا میں آگیا، چاندنی رات، سمندر کا کنارہ، کنارے سے ٹکراتی دودھیا رنگ کی لہریں، ہلکی آواز میں بجتا عربی میوزک اور ٹولیوں میں بٹے سینکڑوں وہ جوڑے کہ جن میں سے کوئی کھارہا تو کوئی ’’پی‘‘ رہااور کوئی ساتھی کے ساتھ ڈانس فلور پر تو کوئی پارٹنر کے ہمراہ بھیگی رات میں بھیگتا ہوا، ہو نّقوں کی طرح اِدھر اُدھر تانکتے جھانکتے اچانک میں نے پارٹی کے میزبان اور آنے والے وقتوں کے اپنے ممکنہ وزراء اعظموں میں سے ایک کو 10 بارہ خواتین کے جھرمٹ میں دیکھا اور پھر ’’جی بھر کر دیکھا‘‘ ، خیر اُس رات کیا کچھ ہوا، یہ تو بتا نہیں سکتا ہاں البتہ یہ سن لیں کہ باقی سب خرچے کو توا یک طرف رکھیں، اپنی ہردوسری تقریر میں غریبوں کی حالتِ زار پر دُکھی ہوجانے والے شہزادے نے اُس رات اپنے 1000 کے قریب مہمانوں کو ہیلی کاپٹروں اور لمیوزین کاروں پر ہوٹل پہنچا نے میں ہی 5 کروڑ خرچ کر ڈالے ۔
مجھے وہ دوپہر بھی نہ بھولے کہ جب وفاقی دارالحکومت کے فائیو سٹار ہوٹل میں سفید رنگت، نیلی آنکھوں اور بھورے بالوں والی حسینہ نے آنسوؤں اور آہوں کے درمیان یہ بتا کر حیران کر دیا کہ چند دن پہلے اس کا دل توڑنے اوراسے بڑی بے دردی سے چھوڑنے والا پریمی گذشتہ 3 دہائیوں سے اقتدار کے مزے لوٹتے ایک بااختیار سیاسی گھرانے کا وہ لاڈلا کہ جو اور نہیں تو ایکدن وزیراعلیٰ توبنے ہی بنے، ویسے تو’’ نظر یں لڑنے سے بات بگڑنے تک‘‘ پوری پریم کہانی ہی فلمی مگریہ سین تو ویری فلمی کہ ایک رات جب دونوں پریمیوں میں معمول کی ٹیلی فونک گفتگو کے دوران حسینہ نے یہ کہا کہ ’’آج عین سٹرک کے درمیان میری گاڑی خراب ہوگئی اور مجھے گھنٹہ بھر خوار ہونا پڑا‘‘تو یہ سن کر شہزادے نے فون کاٹا اور پھر آدھے گھنٹے بعد دوبارہ فون کر کے کہا کہ ’’ذرا اپنے گھر کے مین گیٹ پر تو آنا‘‘حیران وپریشان حسینہ نے افراتفری میں ننگے پاؤں گیٹ کھولا تو بریف کیس پکڑے شہزادہ سامنے کھڑا تھا، اس سے پہلے کہ حسینہ کچھ سمجھتی یا کچھ کہتی، شہزادہ اسکی طرف بریف کیس بڑھاتے ہوئے بولا ’’ یہ لو اور کل اپنی مرضی کی گاڑی لے لینا‘‘ حسینہ ایک قدم پیچھے ہٹ کر بولی ’’جانو ابھی گاڑی نہیں چاہیے، جب لینا ہوگی تو بتادوں گی ‘‘ پھر دونوں میں بحث ومباحثہ شروع ہوا اور جب 5 چھ منٹ کی تکرار کے بعد بھی حسینہ نہ مانی تو وہ شہزادہ جو اکثر محفلوں اور مجلسوں میں کہے کہ ’’ جب سے سرکار میں آیا تب سے ایک ایک پیسہ خرچتے ہوئے 100 بار سوچوں کیونکہ یہ پیسہ میرے ملک کا اور اس پر پہلا حق غریب عوام کا ‘‘، اسی شہزادے نے اچانک بریف کیس کھولا، نوٹوں کو زمین پر رکھا، لائٹر سے آگ لگا ئی اور جب سب نوٹ جل کر راکھ ہوئے تو شہزادہ بڑے اطمینان سے بائی۔۔ بائی۔۔ ٹا۔۔ٹا۔۔ کرتا گاڑی میں بیٹھ کر چلتا بنا، یہاں مجھے صرف اسلام کی سربلندی کیلئے ہربار اقتدار قبول کرنے والے خاندان کا وہ لختِ جگربھی ذہن میں آئے کہ جس نے ایک بھارتی اداکارہ کے ساتھ ایک کپ چائے پینے پر 50 لاکھ خرچ کر ڈالے، یہاں بھارت مخالف ووٹ کے گھوڑے پر اقتدار کی منزلیں طے کرتے اپنے سدا بہار سیاسی گھر انے کا وہ بیٹا بھی نہ بھولے کہ جس نے ایک بار بڑے رازدارانہ لہجے میں بتایا کہ ’’ جب بھی ایک خلیجی ملک میں بھارتی فلم لگے تومیں اپنے دوستوں کے ساتھ چارٹرڈ فلائٹ پر پہلا شو دیکھنے ضرور جاؤں ‘‘۔ صاحبو! کیا کیا بتاؤں اور کیا کیا سناؤں، وہ میگا کرپشن سکینڈلز میں پھنسے ہونہار سپوت، وہ ’’پرنس کلب‘‘ بنا کر سب کچھ کرتے منہ زور بچے، وہ ڈالر اور پونڈز دے کر ڈگریاں لینے والے چہیتے، وہ حکومتوں کے اندر حکومتیں بنا کر بیٹھے لاڈلے اور وہ Branded پوشاکوں اور ولائیتی خوراکوں والے ہمارے مستقبل کے رہنما ۔۔چھوڑیں ۔۔ رہنے دیں ۔۔بس اگر ہوسکے تو آپ براہ مہربانی ماضی کی یادوں سے نکل کر اور ’’حال‘‘ کے بُرے ہو چکے حال کو چھوڑ کر اپنی کا سوچیں کیونکہ آپکی اُس نسل کے رحم وکرم پر کہ جوپچھلی نسل سے بھی گئی گذری۔