مرے کو مارے شاہ مدار
ریکوڈک پر معاہدے کی خلاف ورزی کی پاداش میں پاکستان کے خلاف چھ ارب ڈالر کا ہرجانہ مرے کو مارے شاہ مدار والا معاملہ ہے۔ اقتصادی و معاشی مشکلات میں گرفتار پاکستان مالیاتی دیوالیہ پن سے نکلنے کے لئے ناک رگڑ کر آئی ایم ایف سے چھ ارب ڈالر کا قرضہ حاصل کر پایا ہے جو دو ارب ڈالر سالانہ کی قسط پر تین سال میں ملے گا، پاکستان چھ ارب ڈالر کا ہرجانہ کہاں سے ادا کرے۔ سعودی عرب، چین، متحدہ عرب امارات اورقطر مالی امداد نہ کرتے تو دنیائے اسلام کی واحد نیو کلیر پاور دیوالیہ قرار پاتی اور ہم کسی کو مُنہ دکھانے کے قابل نہ رہتے۔ عمران خان کی ہمت ہے کہ وہ ایک ایسے ملک کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جسے ماضی کے حکمرانوں کے علاوہ دیگر اداروں نے بھی چلنے کے قابل نہیں چھوڑا۔ بلوچستان کا ضلع چاغی بلا مبالغہ سونے، چاندی، تانبے اور دیگر معدنیات کا گڑھ ہے صرف چاغی کیوں؟ افغانستان، بلوچستان اور یمن تک ایک بیلٹ ہے جہاں معدنی ذخائر کی بہتات ہے اور عالمی طاقتوں کی حریص نظریں مرتکز۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں عدالت عظمیٰ کے دو فیصلوں نے پاکستان کی معیشت اور عالمی سطح پر ساکھ کو جو نقصان پہنچایا اس کا احساس ہمیں ایک عشرے بعد ہو رہا ہے لیکن اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ریکوڈک پر عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ آنے کے بعد عمران خان نے ایک کمشن بنانے کا فیصلہ کیا ہے جو اس معاملے کی شفاف تحقیق کرے گا، لیکن کمشن کی تشکیل کے بعد اصل اور اہم مرحلہ ٹی او آرز کی تدوین ہو گا۔ ہم سب کے ممدوح جسٹس(ر) افتخار محمد چودھری نے ریکوڈک کے معاہدے کے علاوہ سٹیل ملز کی فروخت کا فیصلہ بھی منسوخ کیا جس کی سزا سالانہ اربوں روپے خسارے کی صورت میں قومی معیشت بھگت رہی ہے لیکن مجموعی صورتحال کا ذمہ دار چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری یا عدالت عظمیٰ کو قرار دینا سادگی اور زیادتی ہے۔ ایک خالصتاً انتظامی معاملے اور بین الاقوامی معاہدے کو چیلنج کرنے والے افراد، دلائل کے انبار لگانے والے وکیل، بوگس دستاویزات پیش کرنے والے ادارے اور عدلیہ و عوام کو گمراہ کرنے والے بیورو کریٹس، سیاستدان، ابلاغی ماہرین اور ٹیکنو کریٹس، جن کا دعویٰ تھا کہ ریکوڈک اور سٹیل ملز کے معاملے میں پرویز مشرف کی حکومت قومی مفادات اور معاشی مستقبل کا سودا کر رہی تھی مگر جسٹس افتخار محمد چودھری نے مسیحا بن کر اس سازش کو ناکام بنا دیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے فیصلوں پر وزیر اعظم، وفاقی کابینہ یا منتخب حکومت کو تحقیقاتی کمشن کے ذریعے نظر ثانی کا اختیار ہے یا نہیں؟ اگر ایک بار کسی عدالتی فیصلے کے حسن و قبح پر تحقیقاتی کمشن میں بحث شروع ہو گئی اور حکومت نے کسی تحقیقاتی کمشن کی رپورٹ کی روشنی میں عدالتی فیصلہ صادر کرنے والے ججوں، مدعیان اور گواہوں کی نیت، ارادے اور مقاصد کا جائزہ لینے کی ریت ڈالی تو معلوم نہیں دیگر کون کون سے عدالتی فیصلوں کے بارے میں یہ مطالبہ ہو گا کہ انہیں بھی تحقیقاتی کمشن کے حوالے کیا جائے۔ جسٹس منیر، جسٹس مشتاق، جسٹس انوار الحق، جسٹس نسیم حسن شاہ، جسٹس ارشاد حسن خان، جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس آصف سعید کھوسہ کے بعض فیصلوں پر یقینا حکومتی نظرثانی کا شور مچے گا اور عمران خان کو باقی سارے کام چھوڑ کر تحقیقاتی کمشنوں کی تشکیل میں سر کھپانا پڑے گا۔ تاہم اگر حکومت عدالتی فیصلے سے قطع نظر یہ معلوم کرنا چاہتی ہے کہ کن لوگوں کی غلطی، سازش یا ناقص حکمت عملی کی وجہ سے پاکستان پر چھ ارب ڈالر کا خطیر جرمانہ ہوا تو ٹی او آر کا دائرہ ان تمام اداروں، افراد اور طبقوںتک وسیع کیا جائے جو پاکستان میں قومی مفاد کے نام پر ہمیشہ ترقی، خوشحالی اور معاشی استحکام کے عمل میں رکاوٹ ڈالتے اور قومی معیشت کا بیڑا غرق کرتے ہیں۔ ہمارے ایک دوست واقعہ سناتے ہیں کہ 1970ء کے عشرے میںایک مسکین صورت آدمی طلبہ تنظیم کے دفتر آیا اور اس نے فعال طلبہ تنظیم کے عہدیداروں کو بتایا کہ اسلام آباد کے فلاں علاقے میں حکومت نے شراب خانہ قائم کرنے کی اجازت دی اور اب وہاں شراب بکنا شروع ہو گئی ہے۔ طلبہ تنظیم کے سرفروش ڈنڈے لے کر نکلے، دکان پر دھاوا بولا اور اس وقت تک نہ ٹلے جب تک مالک نے شراب خانہ بند کرنے کی یقین دہانی نہ کرا دی۔ طلبہ تنظیم کے اس کارنامے کو سراہا گیا مگر کچھ عرصے بعد پتہ چلا کہ چند قدم کے فاصلے پر مسکین صورت شکایت کنندہ کا اپنا کاروبار خوب پھل پھول رہا ہے جسے نئی دکان کھلنے سے خطرہ لاحق تھا۔ جسٹس افتخار محمد چودھری کی عدالت میں ریکوڈک معاہدے کے خلاف درخواستیں دائر کرنے والوں میں وہ بے حس لوگ تھے جنہیں معاہدے کی منسوخی کے بعد پاکستان کا قومی مفاد یاد رہا نہ چاغی میں چھپے اربوں ڈالر کے خزانے اور نہ سونے اور تانبے کی ان کانوں کے حوالے سے وفاق پر الزام تراشی کرنے والے مقامی منتخب عوامی نمائندے اور قوم پرست سیاستدان و دانشور کبھی بولے۔ جسٹس افتخار محمد چودھری کی عدالت سے رجوع کرنے والے ایک سائنس دان نے بعدازاں میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کو چنیوٹ میں سونے کے ذخائر کی موجودگی کا یقین دلا کر بے وقوف بنایا، میں نے ایک کالم میں اس جھوٹ کا پردہ چاک کیا تو کئی دوستوں نے گلہ کیا کہ میںمخالفت برائے مخالفت کا شوق پورا کر رہا ہوں اور شریف خاندان کی تاریخی کامیابی مجھے ہضم نہیں ہو رہی بعدازاں مگر ثابت ہوا کہ عخواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھابرادرم حبیب اکرم نے اپنے کالم میں وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کے حوالے سے ان تمام سیاستدانوں، بیورو کریٹس اور حکمرانوں کی فہرست شائع کی ہے جو ریکوڈک معاہدے کو سبوتاژ کرنے میں شریک تھے۔ اب بھی اسی فرم سے بہترشرائط پر معاہدہ ہو سکتا ہے کیونکہ چھ ارب ڈالر کے عوض وہ سونے اور تانبے کی ان کانوں سے دستبردار ہونے کی متحمل نہیں جن سے اُسے سالانہ آٹھ دس ارب ڈالر منافع کی توقع ہے اور یہ سلسلہ کئی عشروں تک چلے گا حکومت تحقیقاتی کمشن ضرور بنائے مگر اس کا دائرہ عدالتی فیصلے تک محدود نہ رکھے کہ یہ "کائونٹر پروڈکٹو" ہو گا۔ حکومت میں شامل بعض افراد جسٹس افتخار چودھری کو سزا دینے کے لئے پرجوش ہوں گے مگر عدالت عالیہ کے فیصلے پر "نظرثانی" کے مضمرات کا انہیں احساس نہیں، حکومت کو ضرور کرنا چاہیے۔ جن لوگوں نے عدالت عظمیٰ کو گمراہ کیا، فیصلے کے کئی سال بعد تک کسی نئی کمپنی کو مدعو کیا نہ سابقہ کمپنی سے ازسرنومذاکرات کئے اور نہ جن کو یہ سوچنے کی توفیق ہوئی کہ اگر پاکستان کیس ہار گیا تو ادائیگی کہاں سے ہو گی، انہیں قانون کے کٹہرے میں لانے کی ضرورت ہے، احتیاط اور دانش مندی کے ساتھ۔ فیصلے کے خلاف اپیل اور مدعی کمپنی سے مذاکرات کا عمل بیک وقت شروع کرنا قومی مفاد میں ہے مگر یہ سوچنا حکمرانوں کا کام ہے جو عقل کل بھی ہیں اور فیصلہ کرنے کے مجاز بھی۔ ریکوڈک کا مقدمہ ہم ہار گئے مگر بھارتی جاسوس اور دہشت گرد کلبھوشن جادیو کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں ہمیں کامیابی ہوئی بھارت کی اس ناکامی پر قوم کو مبارکباد۔ یہ فیصلہ ریکوڈک کے زخم پر مرہم کا کام دے گا۔ ہماری قسمت اتنی بھی بُری نہیں جتنی ہمارے بعض دانشور بیان کرتے ہیں۔