آخر ادارے کیا کریں؟
تین دن قبل سابق وزیر اعظم عمران خان نے دھمکی، تنبیہ اور سرزنش کے انداز میں کہا "اب بھی وقت ہے نیوٹرلز اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کریں۔ کیا انہیں ملک کی کوئی فکر نہیں؟ آپ جتنا کہیں نیوٹرل ہیں تاریخ آپ کو مورد الزام ٹھہرائے گی"۔
اس سے قبل اپنے ایک خطاب میں عمران خان نے دھمکی دی تھی۔ "اسٹیبلشمنٹ (فوج) نے درست فیصلے نہ کیے تو فوج تباہ ہو جائیگی، ایٹمی اثاثے چھن جائینگے، پاکستان کے تین ٹکڑے ہو جائینگے"۔ مرزا رفیع سودا نے کہا تھا۔ "ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں"
عمران خان کی کمین گاہ سے نکلنے والے تیروں نے بھی زمانے بھر میں کوئی شکار باقی نہیں چھوڑا۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ سے لے کر اسلام آباد پولیس تک اور جو بائیڈن سے لے کر رانا ثناءاللہ تک نہ کوئی قومی ادارہ سلامت ہے نہ شخصیت۔ عمران خان مسلسل کہہ رہے ہیں کہ فوج اپنی پالیسی تبدیل کرے۔ یہ نہیں بتا رہے کہ فوج کون سی پالیسی تبدیل کرے اور کون سی پالیسی اختیار کرے؟ تازہ ترین دھمکی میں یہ تو کہہ دیا کہ نیوٹرلز اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کریں۔ اُنکے ارشادات کا نچوڑ یہ ہے کہ فوج نیوٹرل نہ رہے۔ کیوں کہ نیوٹرل "حیوان" ہوتے ہیں۔ وہ الیکشن کمیشن، عدالتوں، میڈیا اور دیگر اداروں سے بھی یہی توقع رکھتے ہیں کہ وہ نیوٹرل نہ رہیں۔
آئین، قانون، ضابطوں، عہد و پیماں کی زنجیریں توڑ پھینکیں۔ تمام ادارے غیر جانبداری ترک کر کے اُن سے وفاداری کا عہد وفا باندھیں اور اُنکی آرزں کی تکمیل پر کمربستہ ہو جائیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح آن واحد میں سارے ادارے کسی آئین شکن ڈکٹیٹر کے پی سی او کی دہلیز پر سجدہ ریز ہو جاتے ہیں۔ انہیں کون سمجھائے کہ جمہوریت چاہے وہ کتنی ہی کمزور اور ناتواں ہو، کسی فرد واحد کی جنبش لب کی کنیز نہیں ہوتی۔ ادارے کتنے ہی کسی کے عشق میں دیوانے کیوں نہ ہوں انہیں اپنی ساکھ اور ملک کی سلامتی سب سے عزیز ہوتی ہے۔
خان صاحب نے شاید سنا ہو کہ "حکمرانوں کے سینے رازوں کے دفینے ہوتے ہیں"۔ برسوں ریاست کے بالا ترین انتظامی و سیاسی منصب پر فائز رہنے والے سربراہ حکومت کے پاس روزانہ مختلف ایجنسیوں کی طرف سے انتہائی حساس معلومات پر مبنی رپورٹس آتی ہیں۔ بڑے عہدوں پر فائز عہدیداروں سے بھی اُنکی ملاقاتیں رہتی ہیں۔ غیر ملکی سفیروں اور حکمرانوں سے بھی انکا رابطہ رہتا ہے۔ نہایت ہی حساس سفارتی خط و کتابت بھی اُنکی میز سے ہو کر گزرتی ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان جیسے جمہوری پارلیمانی نظام کے حامل ملک میں۔
وزیر اعظم عملاً سب سے زیادہ با اختیار ہو نہ ہو، باخبر ضرور ہوتا ہے۔ لیکن خبروں کا یہ خزینہ روایتی طور پر دفینہ ہی رہتا ہے۔ اگر یہ راز ذاتی، جماعتی یا سیاسی مفاد کے لیے جنس کوچہ و بازار بنا دیے جائیں تو شاید اسکا وقتی طور پر کچھ فائدہ ہو جائے لیکن ملک و قوم کا بڑا زیاں ہو جاتا ہے۔ اسکا نقصان خود اُس شخص کو بھی پہنچتا ہے جو اپنے منصب کی بدولت حاصل ہونے والی معلومات کو (اپنے حلف کی نفی کرتے ہوئے) جلسوں جلوسوں کا موضوع اور ٹیلی ویژن سکرینوں کی زینت بناتا، قوم و ملک کے لیے زندگی موت جیسے معاملات کو رنگا رنگ پتنگوں کی طرح فضاؤں میں اڑاتا اور اپنے حواریوں کی ضیافت طبع کے لیے سیاسی بسنت مناتا ہے۔ قومی رازوں کو بازیچہ اطفال بنا لینے والا شخص موثر حلقوں اور باشعور عوام میں اپنا اعتبار کھو بیٹھتا ہے۔ اس سے بڑا نقصان کیا ہو گا کہ کوئی سیاست دان غیر ذمہ دار، بے اعتبار اور اوچھا قرار پا کر اپنی ساکھ گنوا بیٹھے۔
سابق وزیر اعظم عمران خان کے بارے میں یہ تاثر دن بہ دن قوی ہوتا جا رہا ہے کہ وہ ریاست کے سب سے بڑے انتظامی منصب کی نزاکتوں سے بےگانہ ہیں۔ انہیں اندازہ ہی نہیں کہ وزارت عظمیٰ کا منصب کس طرح کے سبھاؤ اور رکھ رکھاؤ کا تقاضا کرتا ہے۔ وہ ملکی و قومی اور ذاتی و جماعتی مفاد میں توازن رکھنے کا سلیقہ بھی نہیں جانتے۔ وہ ہر اُس بات کو اپنا ہتھیار خیال کرتے ہیں جو مخصوص سیاسی موسموں میں وزیر اعظم ہوتے ہوئے اُنکے علم میں آئی اور آج اُنکے اسلحہ خانے کا اثاثہ بن سکتی ہے۔ کاش اُنکے آس پاس فہم و فراست کی حامل دو چار سنجیدہ شخصیات ہوں جو انہیں اس روش کے منفی اثرات و نتائج سے آگاہ کریں۔
شاید ہوں بھی لیکن بتایا جاتا ہے کہ عمران خان کو اس طرح کے "بزدلانہ" مشورے دینے والوں پر بنی گالا کی بارگاہ عالی کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ دربار خاص میں صرف وہی "نورتن" رسائی رکھتے ہیں جو خان صاحب کے دیوتائی مجسمے کو نت نئے رنگ و روغن سے آراستہ کرتے، انہیں آئین، قانون، قاعدوں اور ضابطوں سے بالا تر ثابت کرتے اور بتاتے ہیں کہ یہ بھید فلاں ادارے، یہ راز فلاں شخص اور یہ خفیہ خط فلاں عالمی طاقت کے پرخچے اُڑا سکتا ہے۔ حلقہ خاص کے ان "نو رتنوں" کا یہ ہنر خان صاحب کو بےحد عزیز ہے کہ ان کی زبانیں زہر میں بھجی تلواروں کی طرح چلتی ہیں اور شیوہ الزام و دشنام میں کوئی ان کا ثانی نہیں۔ اسی فن میں مہارت ان "نو رتنوں" کے لیے ترقی درجات اور قرب شاہی کا وسیلہ بنتی ہے۔ سو وہ ہر آن پیا کو بھانے کی خاطر اپنی صلاحتیں نکھارنے میں مگن رہتے ہیں۔
عمران خان کو سوچنا چاہیے کہ تین بار وزیر اعظم منتخب ہونے اور ساڑھے نو برس تک اس منصب پر فائز رہنے والے نواز شریف کے سینے میں کتنے راز ہونگے۔ جو کچھ میاں صاحب، اُنکی بیٹی اور خاندان پر گزری اور ہنوز گزر رہی ہے، خان صاحب بنی گالا کے کسی گوشہ چمن میں بیٹھ کر غور کریں تو اُنکی سوچ کو بھی جھرجھری آ جائے۔
عمران خان تو سنہری رتھ میں بیٹھ کر اقتدار میں آئے اور آئینی طریقہ کار سے رخصت ہو کر سرکاری پروٹوکول کے ساتھ بنی گالا چلے گئے۔ کیا انہیں خبر ہے کہ نواز شریف کو کس طرح نکالا گیا؟ اٹک قلعے اور لانڈھی جیل، زنجیر بستہ حالت میں جہاز کی سیٹ سے باندھنے تک کیا میاں صاحب کے پاس کوئی کہانی نہیں؟ کیا عقوبتوں اور صعوبتوں کے گہرے زخم کھانے اور اپنے پیاروں کی میتوں کو قبر میں اُتارنے سے محروم رکھے جانے والے شخص کے پاس کوئی داستان نہیں؟ انہوں نے آٹھ آرمی چیفس کے ساتھ کام کیا، کیا اُنکے سینے میں کوئی راز نہیں؟
خان صاحب سیاست کو مسلمہ روایات و اقدار کے دائرے میں رکھیں۔ غُصہ اور اشتعال برحق، بے کلی اور اضطراب بجا لیکن ہیجان و خفقان کی کیفیت میں بارودی سرنگوں کے منطقے میں داخل نہ ہوں۔ ذمہ دار سیاسی رہنما ایسے نہیں کیا کرتے۔ انکا ماضی و حال ہی نہیں، ایک مستقبل بھی ہوتا ہے۔