شام، بشار رفت و ہئیت التحریر آمد (7)
شام میں بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے والی تنظیم "ہئیت التحریر الشام" میں جہاں بلاد عرب اور دنیا بھر میں مسلح کارروائیاں کرنے والی دولت اسلامیہ عراق والشام اور القاعدہ کے جنگجو شامل ہیں وہ شام میں گزشتہ ڈیڑھ عشرے کے دوران بشار رجیم کے خلاف منظم ہونے والی تنظیمیں، جہادِ اسلامی برائے خلافت، جندالشام، المجاہدین الاسلامی اور النصرہ فرنٹ کے جنگجو بھی فعال ہیں داعش اور القاعدہ کے علاوہ باقی چاروں تنظیمیں مقامی سطح پر اٹھیں البتہ ان میں جندالشام میں لبنانی حزب اللہ کے لبنانی مخالفوں کے علاوہ شام کے وہ عناصر بھی شامل ہیں جو حزب اللہ کی جانب سے بشار رجیم کی حمایت پر ناراض تھے۔
حزب اللہ 2011ء کے بعد اس وقت بشار الاسد حکومت کو بچانے کے لئے آگے آئی جب دولت اسلامیہ عراق والشام نے عراق اور شام میں حکومتوں کا تختہ الٹ کر خلافت اسلامیہ کے قیام کو اپنا مقصد قرار دیا اب اسے کیا کہیں کہ عراق میں دولت اسلامیہ عراق والشام کے قافلے سعودی عرب کے راستے نئی جدید گاڑیوں اور اسلحہ کے ساتھ داخل ہوئے اوراس کے جنگجوئوں نے کرکوک سمیت متعدد شہروں میں کسی تاخیر کے بغیر بینکوں اور مالیاتی اداروں سے مجموعی طور پر 85 کروڑ ڈالر و عراقی کرنسی لوٹ لی (لوٹی گئی رقم کی مالیت کا اعلان اس وقت عراقی حکومت نے کیا تھا)۔
شام میں حالیہ بغاوت کی طرح مسلح جنگجو اُس وقت بھی ترکی کے راستے حلب پہنچے تھے آج کی طرح اس وقت بھی ترک حکومت پر متعدد الزامات لگتے رہے ان میں سب سے بڑا الزام طیب اردگان کے داماد پر لگا کہ اس کی پٹرولیم کمپنی نے داعش سے دو ارب ڈالر سے زائد مالیت کی چوری کی پٹرولیم مصنوعات خریدی ہیں۔
شام کے معاملے پر ہی تب ترکی اور روس کے بدترین اختلافات سامنے آئے جس پر بعدازاں طیب ادگان نے باضابطہ طور پر روس سے معافی بھی مانگی۔
شام کی حالیہ کامیاب بغاوت میں ترکی، اسرائیل اور امریکہ کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں اسرائیل نے تو اپنی معاونت کی قیمت کے طور پر کسی تاخیر کے بغیر دو کام کئے اولاً شام اسرائیل بفرزون سے آگے بڑھ کر اہم دفاعی نوعیت کی چند چوکیوں اور متعدد قصبوں پر قبضہ کرلیا ثانیاً اسرائیلی فضائیہ نے چار دن میں 536 فضائی حملوں کے ذریعے شامی آرمی بحریہ اور فضائیہ کا جنازہ نکال دیا۔
لطاکیہ کی بندرگاہ کی اسرائیلی حملوں میں تباہی کی وجہ سے شام میں ان دنوں غذائی اشیاء کی مسلسل کمی ہورہی ہے۔
شام میں گزشتہ عشرے (دو ہزار دس سے دو ہزار بیس) کے دوران بشار رجیم کے خلاف دو بغاوتوں میں لبنانی حزب اللہ اور ایران اپنے وسائل اور افرادی قوت کے ساتھ کھڑے دیکھائی دیئے ان برسوں میں جہاں اہلبیت اطہارؑ سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے مزارات کے تحفظ کے لئے پاکستانی شیعہ نوجوانوں نے شرکت کی وہیں کالعدم لشکر جھنگوی کے کارکنوں اور ان کے ہم خیالوں کی بڑی تعداد نے بھی دولت اسلامیہ عراق والشام کے ماتحت شام سے بشار کی علوی حکومت (داعش اور لشکر جھنگوی اسے ایک اور نام سے یاد کرتے تھے اور ہیں وہ تعارف یہاں لکھنا صحافتی اخلاقیات کے منافی ہے) کے خاتمے کیلئے جدوجہد کی۔
البتہ حالیہ کامیاب بغاوت میں "ہئیت التحریر الشام" کے ہمراہ مختلف کالعدم پاکستانی تنظیموں کے جنگجوئوں کی بڑی تعداد موجود ہے ان پاکستانی جنگجوئوں کی تعداد کے حوالے سے جو اطلاعات ہیں ان پر بحث اور سوال دونوں غیرمتعلقہ ہوں گے ثانیاً یہ کہ ان پاکستانی جنگجوئوں کے ہمراہ ایرانی بیس جنداللہ کے لوگ بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
ہمارے ہاں جنداللہ کا ابتدائی اور بڑا تعارف کراچی میں مہران بیس پر اس کے حملے کے وقت ہوا اس حملے کے آپریشنل کمانڈر حماد شاہ کا تعلق ضلع رحیم یار خان سے تھا حماد شاہ کو مہران بیس کی ڈرگ کالونی (شاہ فیصل کالونی) والی سمت کی دیوار اور نالے کے درمیان بنے ہوئے ایک مدرسے کے حجرے سے گرفتار کیا گیا تھا۔
جنداللہ ہمارے خطے کی واحد مسلح تنظیم رہی جس میں پاکستان، ایران اور افغانستان سے جنگجو شامل ہوئے۔ ایک وقت میں اس کا بڑا مرکزی تربیتی کیمپ افغان سرزمین پر قائم تھا تب افغان امور کے تجزیہ کاروں کی رائے تھی کہ جنداللہ اور بعض دوسری مسلح تنظیموں کے بیس کیمپوں کا افغانستان میں موجود ہونا امریکہ کی پالیسی کا حصہ ہے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ شام کی حالیہ کامیاب بغاوت جو کچھ حلقوں کے نزدیک انقلاب ہے اور کچھ کے خیال میں عالمگیر انقلاب اسلامی کا ابتدائیہ ہے پر سوال یہ ہے کہ بغاوت، انقلاب یا عالمگیر انقلاب اسلامی کا ابتدائیہ جو بھی نام دے لیا جائے اس کے پیچھے امریکہ اسرائیل اور ترکی کھڑے ہیں ان تین ملکوں نے ہی فتوحات میں تعاون کیا تو کیا یہ سمجھا جائے کہ "پاسباں مل گئے شامی و اسلامی انقلاب کو امریکہ و اسرائیل کے صنم خانوں سے؟"
ہم آگے بڑھتے ہیں۔ ہئیت التحریر الشام نے بغاوت کی کامیابی کے بعد بشار رجیم کے وزیراعظم کو عبوری انتظامات تک اپنے عہدے پر رہنے اور کام کرنے کا کہا تھا۔ اب گزشتہ روز "ہئیت التحریر الشام" نے عبوری سربراہ کے طور پر شام کا نگران وزیراعظم محمد البشر کو نامزد کیا ہے۔ محمد البشر کی نامزدگی سے یہ امر دوچند ہوگیا کہ "ہئیت التحریر الشام" داعش، القاعدہ اور النصرہ فرنٹ اور ایسی دوسری تنظیموں کا "ملغوبہ" ہے۔ خود احمد الشرع ابو محمد الجولانی ماضی میں القاعدہ، جند الشام اور دولت اسلامیہ عراق والشام میں رہ چکے۔
شام کے نگران عبوری وزیراعظم محمد البشیر دولت اسلامیہ عراق والشام کے معروف کمانڈر و تنظیم کے بانی سربراہ اور داعی خلافت ابوبکر البغدادی قریشی والہاشمی کے دست راست رہ چکے۔ ان کا نام پہلی بار گزشتہ شامی بغاوت کے دوران دو وجوہات کی بنا پر سامنے آیا اولاً انہوں نے داعش کے عراقی چیپٹر سے یزیدی قبیلے قیدی خواتین کو خرید کر حلب شام میں ان کی نیلامی کے لئے منڈی لگانے اور ثانیاً حلب اور دوسرے ان علاقوں میں جو داعش وغیرہ کے قبضے میں تھے ان میں بشار الاسد حکومت کے حامیوں کو زندہ جلادینے اور دیگر سزائیں دینے کی بنا پر۔
گزشتہ بغاوت کی ناکامی کے بعد محمد البشیر شام سے ترکی منتقل ہوگئے اور حالیہ بغاوت کی کامیابی کے بعد شام پہنچے ان کی دمشق میں آمد کے حوالے سے کہا جارہا ہے کہ وہ ترکی سے ترک انٹیلی جنس کے چیف کے ہمراہ ہی دمشق آئے۔
عبوری وزیراعظم کے طور پر ان کی تقرری بھی ترکی کے ایما پر ہوئی۔ محمد البشر پر ترکی اس قدر مہربان کیوں ہے؟ اس کا بہت سادہ جواب ہے وہ یہ کہ محمد البشیر کردوں کے مخالف ہیں اس مخالفت کی کئی مقامی اور دیگر وجوہات ہیں فوری اور واحد وجہ آزاد کرد جمہوریہ کے قیام کو خطے میں اسلام پسندوں کی مسلح جدوجہد کے منافی سمجھنا ہے۔
بہرطور داعش کے بانی سربراہ ابوبکر البغدادی مرحوم کے دست راست کا شام میں بغاوت کی کامیابی کے بعد نگران عبوری وزیراعظم بنادیا جانا اور ان کے وزیراعظم بنائے جانے کے اعلان کے وقت ترکی کے انٹیلی جنس چیف کی شام میں موجودگی بغاوت کی کہانی کو مزید سہل انداز میں سمجھنے میں معاونت کرتی ہے۔ اسی دوران دو اہم باتیں بھی ہوئیں۔۔
ایک تو یہ کہ ایرانی حکومت کے رہبر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے شام کی حالیہ بغاوت پر اپنا (ایران کا) تفصیلی موقف ایرانی عوام، ذرائع ا بلاغ اور دنیا کے سامنے رکھا ثانیاً حماس نے ایک بار پھر شامی بغاوت کو شام کے عوام کی آزادی کا نام دیتے ہوئے بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کو اپنی جدوجہد کے لئے اچھی خبر قرار دیا۔
یہاں یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ امریکہ اسرائیل اور ترکی کے تعاون سے کامیاب ہوئی شامی بغاوت حماس کی جدوجہد کے لئے اچھی خبر کیونکر ہے؟
اس سوال پر بات ہونی چاہیے کہ حماس جس ملک اسرائیل سے لڑرہی ہے اسی اسرائیل کا سب سے بڑا سرپرست امریکہ ہے۔ اسرائیلی اور ترکی کی سالانہ تجارت کا حجم 7 ارب ڈالر کے قریب ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں زمینی حقیقتوں اور ممالک کے مفادات کے تقاضوں کو سمجھنے کے لئے تجزیہ نہیں ہوتا بلکہ بڑے بڑے دھانسو تجزیہ کار ان دنوں عقیدوں کی ٹوپیاں پہنے "رانگ نمبر" کی تبلیغ میں جُتے ہوئے ہیں۔
یہ صورتحال افسوسناک ہے مگر کیا کیجئے مسلم دنیا میں انہی خوانچوں پر "رش" ہوتا ہے جہاں زہر فروخت ہورہا ہو۔
جاری ہے۔۔