لفظ کی حرمت اورابلاغ (1)
پاکستان جرنلسٹ کلب، یونان کی تربیتی ورک شاپ منعقدہ ایتھنز سے کیاگیاخطاب:عزت مآب سفیر پاکستان محترم جناب خالد عثمان قیصر صاحب، صدرپاکستان صحافتی برادری یونان، ناصرجوکی صاحب کا اپنی جانب سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔
آپ جس عمارت کوبھی دیکھیں گے بالآخر اس عمارت کو ایک دن خلل پذیر ہوجانا ہے، گر جانا ہے، ختم ہوجانا ہے لیکن صرف ایک عمارت ایسی ہے کہ جس کی بنیاد اتنی مضبوط ہوتی ہے کہ وہ عمارت کبھی نہیں گرتی اور وہ عمارت محبت کی عمارت ہے۔ تو جس محبت کااظہار آپ نے اپنے لفظوں کی صورت میں کیا ہے وہ میرے لیے ایک سرمایہ ہے اور ایک اور شعر مجھے یاد آرہاہے جو غالباً صائب اصفہانی کاہے، اس نے کہا ہے کہ ؎
دور دستان را بہ احسان یاد کردن ہمت است
ورنہ ہر نخلی بہ پایِ خود ثمرمی افگند
دسترس سے دور لوگوں کو محبت سے یاد کرنا اہل ہمت کاکام ہے، ورنہ ہر درخت اپنے پھل اپنے ہی قدموں پہ گراتا ہے۔ دوسروں تک نہیں آنے دیتا تو دوسروں کو محبت سے یاد کرنا اور ان کے لیے کلمات ِخیر کہنا یہ دل والوں کا، ہمت والوں کا، یونان والوں کاکام ہے۔
حضرات گرامی! یہ جو ہمارے آپ کے درمیان مکالمہ ہورہاہے، اس میں ہمارا ذریعہ کیا ہے؟ اس میں ہمارا ذریعہ وہ طاقت ہے جو ہمارے تمام رشتوں کی بنیاد ہے۔ شاید ہم نے کبھی غور نہ کیا ہو کہ ہمارے تمام رشتوں اورمراسم کی بنیاد کیا ہے۔ ہمارے رشتوں اورمراسم کی بنیاد ? لفظ? ہیں۔ ہم لفظوں کے ذریعے ہی رشتوں کوقائم کرتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ چند لفظ ادا ہوتے ہیں تو دو اجنبی آشنا ہوجاتے ہیں اور جذبات تبدیل ہوجاتے ہیں، احساسات تبدیل ہوجاتے ہیں۔ خیالات تبدیل ہوجاتے ہیں۔ وہ ایک شخص جس سے کوئی تعلق نہیں تھا اس کی تکلیف سے تکلیف ہونے لگتی ہے۔ اس کی خوشی سے خوشی ہونے لگتی ہے۔ سب کچھ تبدیل ہوجاتاہے۔ جذبات و خیالات سے لے کر حیات وکیفیات تک تبدیل ہوجاتے ہیں۔ جن لوگوں سے ہماری دوستیاں ہوتی ہیں، تعلقات ہوتے ہیں وہ کس بنا پر ہوتے ہیں؟ ان کی بنا بھی لفظوں ہی پر استوارہوتی ہے۔ ہم یہاں ملے، ایک دوسرے سے مکالمہ ہوا، خیالات کا تبادلہ ہوا، لفظوں نے انسانی رشتوں کو جنم دیا? اورغورکیجیے کہ کونسی شے ہے جو انسانی رشتوں کو ختم کردیتی ہے تعلقات کو توڑ دیتی ہے، جذبات کو تبدیل کرکے رکھ دیتی ہے؟ انسانی رشتوں کو ختم کر دینے والی طاقت بھی وہی ہے جو انسانی رشتوں کی بنیاد اٹھانے والی طاقت ہے۔ انسانی رشتے ختم بھی لفظوں ہی سے ہوتے ہیں۔ آپ عمر بھر کے ایک دوست کو ایک گالی دے دیں اور ایسی بات کہہ دیں کہ جس سے اس کا دل ٹوٹ جائے توساری دوستی جاتی رہے گی جذبات واحساسات بدل جائیں گے، تعلق ختم ہوجائے گا? ؎
نرم لفظوں سے بھی لگ جاتی ہیں چوٹیں اکثر
دوستی اک بڑا نازک سا ہنر ہوتی ہے
عمر بھر کی دوستی ایک طر ف رہ جاتی ہے، جذبات، احساسات خیالات سب تبدیل ہوجاتے ہیں اور وہ رشتہ جو ہم چند بول پڑھوا کے قائم کرتے ہیں جس کے نتیجے میں ایک خاندان جنم لیتا ہے جس کے نتیجے میں ایک نسل کا سلسلہ آغاز ہوتا ہے جس کے نتیجے میں معاشرے میں ایک نئی وحدت Entity وجود میں آتی ہے چند الفاظ ادا کردیں تو وہ رشتہ ختم ہوجاتاہے، ٹوٹ جاتا ہے اور اس کے بعد وہی آشنا اجنبی بن جاتے ہیں۔ پھرجھگڑا شروع ہوتا ہے، پھر تیرے اور میرے کی بحث شروع ہوتی ہے پھرلین دین کاجھگڑاکھڑاہوتاہے معاملات بگڑجاتے ہیں۔ تو لفظ کاہماری زندگی میں یہ کردار ہے۔ ہم سارا دن لفظ استعمال کرتے ہیں لیکن ہم کبھی غورنہیں کرتے کہ یہ کتنی بڑی قوت ہے جو ہم کو عطاہوئی ہے اور ان لفظوں کی مدد ہی سے ہم اپنی زندگی کو خوشگوار بناسکتے ہیں۔ لفظوں ہی کی مدد سے ہم زندگی کو کامیاب بناتے ہیں۔ آپ انٹرویو دینے جاتے ہیں کسی ادارے میں تو آپ لفظوں ہی کی مدد سے اپنی قابلیت کااظہار کرتے ہیں اورانٹرویو لینے والے آپ کے الفاظ ہی سے آپ کی شخصیت کاجائزہ لیتے ہیں۔ لفظ ہی کامیاب کرتے ہیں لفظ ہی ناکام کرتے ہیں لیکن اتنی بڑی طاقت جوہمارے پاس ہے کیا ہم اس طاقت کے بارے میں حساس ہیں کیا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ اتنا نازک ذریعہ ہے کہ جس کے نادرست استعمال سے کسی بھی لمحے کسی کو بھی ٹھیس پہنچ سکتی ہے۔
خیال خاطرِ احباب چاہیے ہر دم
انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو
کیا ہم یہ سوچتے ہیں کہ میرے لفظ کسی کا دل توڑنے کاباعث نہ بن جائیں۔ میرے لفظ کسی کے لیے آزار کا باعث نہ بن جائیں۔ میرے لفظ کسی تعلق میں خلل پیدا کرنے کاباعث نہ جائیں۔ میرے لفظ کسی کے خیالات کو گدلا نہ کردیں، جس سے اس کا کوئی نقصان ہوجائے۔ دیکھیے ابھی افلاطون کاذکرہوا اور میں ابھی اس وقت افلاطون ہی کی سرزمین پرکھڑا ہوں۔ فلسفے کی دنیا میں افلاطون کو جومقام حاصل ہے آپ سب جانتے ہیں۔ آپ میں اہل علم ہیں۔ ہمارے ہاں اقبال نے افلاطون کو شدید تنقید کانشانہ بنایا ہے اور ایک پوری نظم لکھی افلاطون کے خلاف اور کہا کہ وہ پرانی بھیڑوں میں سے ایک بھیڑ تھا۔ جس نے انسانوں میں سے قوت عمل کوختم کیا۔ ایسا کیوں کیاگیا؟ افلاطون کی اتنی شدید مخالفت کیوں کی گئی ?؟ اس لیے کہ اس کے الفاظ زندگی سے قوتِ عمل چھین لیتے ہیں، تحرک کی صلاحیت جو ہے وہ جمود میں تبدیل ہوتی ہے۔ وہ عمل کا پیغام نہیں دیتا وہ جمود کاپیغام دیتاہے اور اقبال کاخیال یہ ہے کہ وہ ادب جو آپ کے اندر تحرک پیدا نہیں کرتا، وہ الفاظ جو آپ کے اندر تحرک پیدا نہیں کرتے آپ کو ان لفظوں سے، ایسے لٹریچر سے بچنا چاہیے۔ آپ کووہ لٹریچر پڑھنا چاہیے، وہ تحریریں پڑھنی چاہیے جو آپ کے اندر تحرک پیدا کریں اس لیے کہ زندگی آگے بڑھنے کا نام ہے۔ زندگی جمود کا نام نہیں ہے۔ اسلام نے آپ کو یہی پیغام دیا تھا۔ اسلام سے پہلے کے جوتصورات تھے ان میں یہ سمجھایا گیا تھا کہ دنیا ایک بُری جگہ ہے اور آپ اس کی برائی سے بچیں اور برائی سے بچنے کے لیے آپ کسی گوشے کو اختیارکریں اور تنہائی میں بیٹھیں، عبادت کریں، ریاضت کریں، اللہ کی محبت اور اس کا قرب حاصل کریں، دنیا کوچھوڑ دیں تواسلام نے اس کی تردید کی۔ اس نے کہا نہیں، آپ دنیا کے معرکے میں شامل ہوں آپ جنگ کاحصہ بنیں، آپ آئیں اورمقابلہ کریں اورپھر جیت کے دکھائیں یہ کوئی کامیابی نہیں ہے کہ آپ جنگ کوچھوڑ کر، مقابلے کو چھوڑ کر، گوشہ نشینی اختیار کرلیں، تنہائی اختیارکرلیں، خلوت اختیارکرلیں، یہ کوئی کامیابی نہیں ہے یہ گریز ہے اور آپ جانتے ہیں کہ ؎
گریز کشمکش زندگی سے قوموں کی
اگر شکست نہیں ہے تو اور کیا ہے شکست
گریز، شکست ہے۔ اسلام نے بھی یہی پیغام دیاتھا۔ حدیث میں آتاہے کہ لوگوں میں رہنا اور ان کی زیادتیاں سہنا گوشہ نشینی سے افضل ہے۔ قرآن میں ایک جگہ عجیب بات آئی ہے کہ إِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفَّاہُمُ الْمَلآئِکَۃُ ظَالِمِیْ أَنْفُسِہِمْکہ فرشتے جب لوگوں کی روح قبض کرنے کے لیے آئیں گے تو وہ یعنی ایسے لوگ جنھوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا جنھوں نے اپنے ساتھ زیادتی کی، اپنا نقصان کیا، قَالُواْ فِیْمَ کُنتُمْ ان سے کہیں گے کہ بھائی تم کدھر رہے؟ کیا کرتے رہے؟ کیا زندگی گزارتے رہے؟ کچھ بھی نہیں کیاتم نے زندگی میں ?؟ قَالُواْ کُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِیْ الأَرْضِوہ کہیں گے کہ ہم نے کیاکرنا تھا ہم تو غریب لوگ تھے، کمزور لوگ تھے، ہمارے بس میں کیا تھا۔ ہم توکچھ کرہی نہیں سکتے تھے توہم سے کیاپوچھتے ہو کہ ہم نے کیا کیا۔
قَالْوَاْ أَلَمْ تَکُنْ أَرْضُ اللّہِ وَاسِعَۃً فَتُہَاجِرُواْ فِیْہَا ?اب تک کا سوال جواب تو آپ نے سمجھ لیا? فرشتے جب روح قبض کرنے آئیں گے تو کہیں گے کہ آپ نے زندگی میں کچھ بھی نہیں کرکے دکھایا، کیاکرتے رہے، کدھر رہے? تو وہ کہیں گے ہمارے پاس تھا ہی کیا، نہ کوئی طاقت تھی، نہ کوئی حکومت تھی، نہ اقتدار تھا، نہ دولت تھی، نہ پیسا تھا، ہم کیاکرکے دکھاتے، کچھ کرکے تو دکھانے کے لیے پشت پناہی Backچاہیے، کوئی سفارش چاہیے تھی، دولت چاہیے تھی، ہمارے پاس تو کچھ بھی نہیں تھا? تو وہ کہیں گے، اللہ کی زمین بڑی وسیع ہے اگرتمھارے پاس کچھ بھی نہیں تھا تو جہاں تم رہتے تھے وہاں سے نکل جاتے۔ نکل کے کہیں اور چلے جاتے جہاں یہ سب کچھ مل جاتا، ہجرت کرجاتے۔ یہ تردید ہوگئی اس تصور کی کہ بھئی آپ گوشہ نشینی اختیارکرلیں اورہم کچھ نہیں کرسکتے، ہمارے پاس کیا ہے، جو ہورہاہے چلنے دیں ? میں کیا کرسکتا ہوں، میں ایک عام آدمی ہوں، میں ایک کمزور سا آدمی ہوں، میں ایک غریب شخص ہوں، میرے پاس دولت نہ طاقت، نہ اقتدار ?اگریہی سوچتے رہے تو پھر انجام اورآخری ٹھکانہ بڑا بھیانک ہے، جسے قرآن نے بہت ہی براٹھکانہ قراردیاہے کہ فَأُوْلَـئِکَ مَأْوَاہُمْ جَہَنَّمُ وَسَاءتْ مَصِیْراً۔ (جاری ہے)