سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم۔۔۔امید کی آخری کرن
طالب علم کے قتل کے دو سال بعد ہی سہی، خوش آئند بات یہ ہے کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم نے اس بات کا نوٹس لے لیا ہے کہ اسلامی یونیورسٹی میں طالب علم کے قتل کے ذمہ داران کون تھے اور یونیورسٹی نے اپنی ہی تحقیقاتی کمیٹی کی سفارشات پر عمل درآمد کیوں نہ کیا اور کیا وجہ تھی کہ کمیٹی کی درخواست کے باوجود ریکٹر نے کمیٹی کے سوالات کا جواب دینا گوارا نہ کیا۔ نیز یہ کہ طالب علم کے ساتھ زیادتی کے مقدمے میں کس کا کیا کردار تھا۔ یاد رہے کہ اس سے قبل قومی اسمبلی بھی ایک کمیٹی بنا چکی ہے کہ وہ یونیورسٹی میں طالب علم کے ساتھ ز یادتی کے معاملے کے حقائق سامنے لائے۔
اب جب معاملہ پارلیمان کی کمیٹیوں کے سپرد ہو چکا ہے تو امید کی جانی چاہیے کہ حقائق بہت جلد قوم کے سامنے رکھے جائیں گے۔ سردست میرے پیش نظر ایک اور سوال ہے۔ سوال یہ ہے کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے سامنے اگر کوئی ذمہ دارسرکاری شخصیت غلط بیانی کرے تو کیا اس کے خلاف کارروائی نہیں ہونی چاہیے؟
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر مشتاق احمد نے یونیورسٹی کی اپنی کمیٹی کی تحقیقاتی رپورٹ کو سب کے سامنے پڑھ کر سنایا تو شرکاء صدمے اور حیرت کی تصویر بن کر رہ گئے۔ اسی دوران جب یہ چیز سامنے آئی کہ جس سیکیورٹی انچارج کے بارے میں یونیورسٹی کی اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں لکھا ہے کہ اس نے جائے وقوعہ کو خراب کیا اور ملزمان کو فرار ہونے میں مدد دی، تفتیش کو غلط رخ دینے کے لیے جائے وقوعہ پر گولیوں کے خالی خول ڈالے تا کہ کراس فائرنگ کا رنگ دیا جا سکے، اس اہلکار کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے یونیورسٹی نے اسے گریڈ سولہ سے گریڈسترہ میں کیسے ترقی دے دی؟
اس سوال کے جواب میں ریکٹر صاحب نے کہا کہ وہ تو یونیورسٹی میں محض ایک عمومی نگرانی کے لیے ہیں اور انہیں اس کا علم نہیں کہ کسے ترقی دی گئی اور کسے نہیں۔ سوال یہ ہے کہ واقعی ریکٹر یونیورسٹی میں محض عمومی نگرانی تک محدود ہیں یا اپنے قانونی مینڈیٹ سے تجاوز کرنے کے عادی ہو چکے ہیں اور سینیٹ کی کمیٹی کے سامنے جب نامہ اعمال کھل گیا تو "عمومی نگرانی " تک محدود ہو گئے؟
ریکٹر کے منصب کی قانونی پوزیشن بے شک یہی ہے کہ وہ عمومی نگرانی ہی کا منصب ہے۔ ملک معراج خالد مرحوم جیسے نجیب انسان کے دور میں ایسا ہی تھا۔ لیکن آج کل صورت حال اس کے برعکس ہے۔ میں شواہد پیش کروں تو مناسب نہیں حالانکہ میں وہ کچھ جانتا ہوں لکھ دوں تو آپ سر پیٹ لیں۔ لیکن میں صرف یونیورسٹی کی اپنی دستاویزی شہادت تک محددد رہوں گا۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو چاہیے کہ اگلی سماعت پر یونیورسٹی ریکٹر سے کہے کہ وہ بورڈ آف گورنر کی 87 ویں میٹنگ کا ایجنڈا لے کر آئیں۔ جب وہ لے آئیں تو ان سے کہا جائے ایجنڈا آئٹم نمبر9 کو پڑھ کر سنائیں تا کہ سب شرکاء کو معلوم ہو جائے کہ ان سے کس دیدہ دلیری سے جھوٹ بولا گیا ہے۔ آئٹم نمبر 9 کی ذیلی کلاز پانچ کا ایجنڈا ہی یہی ہے کہ سیکیورٹی افسر اسماعیل بروہی کو اگلے گریڈمیں پروموٹ کر دیا جائے۔ اور اوپر عنوان میں لکھا ہے کہ یہ فیصلہ صدر اور ریکٹر نے کیا ہے۔ اس میٹنگ میں اب بورڈ آف گورنر سے اس کی توثیق مقصود تھی۔
اخلاقی وجود سے بے نیازی کا عالم دیکھیے کہ بی او جی کی میٹنگ کے ایجنڈا میں جس حقیقت کا اعتراف کیا گیا، جب واردات سامنے آئی اور ایوان بالا کے معزز اراکین نے سوال اٹھایا تو معصومیت سے کہہ دیا کہ مجھے کیا معلوم کسے ترقی دی جا رہی تھی۔ میں تو بس عمومی سی نگرانی کرتا ہوں۔ معصوم بننا بھی کتنا آسان سمجھ لیا گیا ہے؟ اسلام آباد ہائی کورٹ نے حال ہی میں ڈائریکٹر شریعہ اکیڈمی ڈاکٹر محمد مشتاق صاحب کو ان کے منصب سے ہٹائے جانے کا نوٹی فیکیشن اسی لیے غیر قانونی قرار دیا ہے کہ ریکٹر کے پاس ایسا کوئی نوٹی فیکیشن کرنے کا اختیار ہی نہیں۔
ایک آدمی کے پاس یہ اختیار ہی نہیں کہ وہ کسی ڈی جی کو منصب سے ہٹا سکے اور وہ پھر بھی حکم جاری کر دے اور عدالت اس حکم کو غیر قانونی قرار دے دے تو کیا اس شخص کے خلاف کارروائی نہیں ہونی چاہیے؟ یہ یونیورسٹی ہے یاکچھ اور؟ یاد رہے کہ یہ ایک فیصلہ نہیں۔ ایسے غیر قانونی فیصلوں کی طویل فہرست ہے۔
آپ ایک فیصلہ لیتے ہیں، ایک شخص کو ترقی دیتے ہیں، آپ اس فیصلے کو بورڈ آف گورنر کے سامنے پیش کرتے ہیں، آپ اس سمری پر لکھتے ہیں یہ فیصلہ ریکٹر اور صدر نے کیا، پھر بطور ریکٹر آپ بورڈ آف گورنر کی میٹنگ میں بطور سربراہ شریک بھی ہوتے ہیں اور جب بات سینیٹ تک جا پہنچتی ہے تو آپ کہتے ہیں مجھے تو علم ہی نہیں کس کو ترقی دی جا رہی تھی۔ یہ کیسا رویہ ہے؟ کیا ایک تعلیمی ادارے کے سربراہ کو یہ رویہ ز یب دیتا ہے؟ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے اگر مسئلے کو اٹھا ہی لیا ہے تو اسے معلوم ہونا ہے اس کی نوعیت بہت سنگین ہے۔ اس معاملے کو اس کے انجام تک پہنچانا قائمہ کمیٹی کی قانونی ذمہ داری بھی ہے اور اخلاقی بھی۔ اسلامی یونیورسٹی کوئی معمولی ادارہ نہیں۔
یہی ہماری مذہبی اور اخلاقی قدروں کا عکاس ہے۔ یہاں بہنیں بیٹیاں اس اعتماد سے پڑھنے آتی ہیں کہ ایک اسلامی ماحول ملے گا۔ لیکن اس جامعہ کے اعلی عہدیداروں کی جنسی ویڈیوز تعفن دے رہی ہوں اور وہ اس کا اعتراف بھی کر چکے ہوں اور پھر بھی وہ عہدوں پر موجود ہوں تو پھر دل روتا ہے اور لہو روتا ہے۔
تاحکم ثانی تعیناتیاں، (تاکہ سب حکم کے بندے بن کر رہیں)، سینیئر اساتذہ کی تذلیل، من مانیاں، غیر قانونی داخلے، میرٹ کی پامالی، مخصوص گروہوں اور جتھوں کی سرپرستی، الزامات اتنے ہیں کہ نامہ اعمال کی تیرگی پھیلتی جا رہی ہے۔ ہر وہ شخص اضطراب میں ہے جسے اس مادر علمی سے محبت ہے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو چاہیے تحقیقات کو منطقی انجام تک پہنچائیں اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کا تقدس اور وقار بحال کرائے۔