مسئلہ فلسطین : اسلامی شریعت اور بین الاقوامی قانون
مسئلہ فلسطین وطن عزیز میں جذباتی وابستگی کا مستقل عنوان ہے لیکن اس مسئلے کی قانونی اور فقہی مبادیات سے ہماری عمومی آگہی کا معیار واجبی سے بھی کم درجے میں ہے۔ اس مسئلے پر ہمارے ہاں جو کچھ لکھا گیا، بہت کم مستثنیات کے ساتھ، اس کا مخاطب انسان کی فکر نہیں، جذبات ہیں۔ ایسے میں اس بات کی شدید کمی محسوس ہوتی ہے کہ فلسطین پر کوئی لکھے اور آسان پیرائے میں اس مسئلے کا مذہبی اور قانونی پس منظر واضح کر دے۔ یہ کام مگر وہی شخص کر سکتا تھا جسے علوم شرعی اور بین الاقوامی قانون پر یکساں مہارت ہو۔ شریعہ اکیڈمی کے سابق ڈائرکٹر جنرل برادر مکرم ڈاکٹر محمد مشتاق نے یہی کام کیا ہے۔ ان کی کتاب "مسئلہ فلسطین: اسلامی شریعت اور بین الاقوامی قانون کے چند اہم مباحث " میرے سامنے رکھی ہے۔ متن کی فکری ثقاہت ہی نہیں، طباعت کا معیار بھی قابل تحسین ہے۔ مسئلہ فلسطین کی تفہیم کے لیے دو چیزیں ناگزیر ہیں۔ اول: اس کی مذہبی مبادیات سے آدمی واقف ہو۔ دوم: اس کے عصری سیاق و سباق کا بھی اسے علم ہو۔
مذہب فلسطین کا بنیادی حوالہ ہے۔ یہ سرزمین تین الہامی مذاہب کے لیے مقدس ہے۔ چنانچہ اس سے بہت سے مذہبی مباحث جڑے ہوئے ہیں۔ مثلایہ کہ کیا یہود ہمیشہ کے لیے مسجد اقصی کی تولیت سے محروم کر دیے گئے ہیں یا ان کے قبلے پر ان کا حق عبادت کسی درجے میں موجود ہے اورکیا قبلہ اول پر مسلمانوں کی تولیت، مسجد اقصی کی بجائے اب مسجد حرام کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم آ جانے کے بعد بھی پہلے کی طرح قائم ہے یا نہیں؟
اس معاملے کا مذہبی تناظر اس لیے بھی ہم ہے کہ اسرائیل کی ریاستی پالیسی کا محور بھی یہی ہے۔ اسرائیل کے ہاں Biblical Lands اور Promised land کا تصور محض ربی حضرات میں نہیں پایا جاتا بلکہ ریاستی پالیسی میں بھی ظہور کرتا ہے کہ تورات میں جن زمینوں کا ذکر آیا ہے وہ اللہ نے یہود کے لیے خاص کر دی ہیں اور اسرائیل کی مخالفت گویا خدا کے قائم کردہ بندوبست کی مخالفت ہے۔ معاملے کی مذہبی تعبیر سے آگہی اس لیے بھی اہم ہے کہ یہ اس بات کو بھی طے کرتی ہے کہ کیا کسی درجے میں معاملے کو سلجھانے اور بقائے باہمی کا کوئی امکان موجود ہے یا اس مسئلے کا حل آج بھی صرف یہ ہے کہ جو طاقتور ہو، اس زمین پرحق اسی کا ہے۔
مسئلہ فلسطین کی تفہیم کا دوسرا حوالہ عصری ہے۔ یعنی اقوام متحدہ کے زیر سایہ جو بندو بست قائم کیا گیا اور اقوام عالم کے مابین تنازعات کے حل کے لیے جو بین الاقوامی قانون بنایا گیا اس کی روشنی میں اسرائیل کہاں کھڑا ہے۔ پھر یہ بات بھی اہم ہے کہ جنرل اسمبلی کی جس قرارداد کے ذریعے اسرائیل قائم ہوا خود اس قرارداد کی اخلاقی اور قانونی حیثیت کیا ہے اور اس کے لیے درکار ووٹ کیسے حاصل کیے گئے۔
یہ دونوں پہلو جب تک آدمی کے سامنے نہ ہوں، اس کے لیے مسئلہ فلسطین کی درست تفہیم ممکن نہیں۔ ز یر نظر کتاب کا پہلا حسن یہ ہے کہ اس میں مسئلے کی مذہبی مبادیات اور اس کے عصری سیاق و سباق، دونوں کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ یہ وہ چیزہے جو فلسطین پر دستیاب علمی ذخیرے میں اس کتاب کو منفرد بنا دیتی ہے۔
کتاب کی دوسری انفرادیت یہ ہے کہ برادر مکرم ڈاکٹر محمد مشتاق ان دونوں پہلوئوں پر ماہرانہ دسترس رکھتے ہیں۔ فقہ اور علوم شرعی پر ان کی مہارت غیر معمولی ہے۔ شریعہ اکیڈمی کے ڈائرکٹر جنرل رہ چکے ہیں۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی شعبہ قانون کے استاذ ہیں۔ فلسطین پر اب تک دستیاب لٹریچر میں یہ امتزاج دستیاب نہیں ہے۔ کچھ لکھنے والے وہ تھے جنہیں مسئلے کے مذہبی حوالے پر گرفت تھی لیکن عصری سیاق و سباق کے ماہر نہ تھے اور کچھ وہ ہیں جنہیں فلسطین پر اقوام متحدہ کے اصول اور بین الاقوامی قانون کے معاملے پر تو عبور حاصل تھا لیکن وہ اس کے مذہبی حوالے پر بات کرنے سے معذور تھے۔ ڈاکٹر صاحب کے ہاں یہ حسین امتزج پایا جاتا ہے کہ وہ مسئلے کے دونوں پہلوئوں کے ماہرین میں شمار کیے جا سکتے ہیں۔ یہ وہ انفرادیت ہے جو نتائج فکر کو زیادہ معتبر اور صائب بنا دیتی ہے اور یہی یہ وہ چیز ہے جو زیر نظر کتاب کو کسی بھی اور کتاب سے زیادہ معتبر بنا رہی ہے۔
ڈاکٹر صاحب کا ایک اور امتیازی وصف ان کی حریت فکر ہے۔ سرکاری جامعات میں یہ جنس اب نایاب نہیں، مفقود ہو چکی ہے۔ آزادانہ رائے قائم کر کے ہوا کے مخالف سمت میں کھڑے کر اس رائے کا ابلاغ کرنا، یہ معمولی بات نہیں ہے، یہ دلاوری ہے اور میں اس دلاورکا ایک مداح ہوں۔ اول اول جب میں نے ڈاکٹر محمد مشتاق کو پڑھا تو حیرت ہوئی، پھر خوشی ہونے لگی۔ اب رشک آتا ہے۔ علم کی دنیا میں اتفاق اور اختلاف ہر دو کی گنجائش موجود ہوتی ہے لیکن یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ وہ جس موضوع پر لکھتے ہیں، جرأت رندانہ سے لکھتے ہیں اور اس کا حق ادا کر دیتے ہیں۔
مسئلہ فلسطین کیا ہے؟ اس سوال کا اس کتاب سے ز یادہ شاندار جواب میری نظر سے نہیں گزرا۔ کشمیر ہو یا فلسطین، جس سطح کی ہمارے ہاں ان موضوعات کے ساتھ جذباتی وابستگی ہے، عوامی سطح پر اسی درجے کا فہم بھی ہونا چاہیے۔ اب وہ دور نہیں رہا جب سفارت کاری کے فرائض صرف سفارتکار انجام دیا کرتے تھے۔ اب ہر وہ آدمی جو سوشل میڈیا پر موجود ہے کسی نہ کسی درجے میں اپنے ملک کا سفیر ہے۔ یہاں ہونے والی بحث کا قانون کی دنیا میں بھلے کوئی اعتبار نہ ہو، ذہن سازی کے باب میں اس کی معنویت سے انکار ممکن نہیں۔ جن مسائل کے ساتھ اس کی جذباتی وابستگی ہے ان کا سیاق و سباق اس پر واضح ہونا چاہیے تا کہ کسی درجے میں بھی کوئی گفتگو ہو، اسے معلوم ہو اس کا موقف کیا ہے اور اس کا ابلاغ کیسے کرنا ہے۔
فاضل مصنف نے مسئلے کی اپنے سارے سیاق و سباق کے ساتھ فقہی اور جدید قانون کی روشنی میں شرح بیان کر دی ہے۔ ڈاکٹر مشتاق صاحب نے ہم سب کی طرف سے فرض کفایہ ادا کیا ہے۔ خدا انہیں اجر سے نوازے۔