ملالہ،نصاب اور میڈیا
آکسفرڈ نے پاکستان کی نصابی کتب میں ملالہ کا نام اور تصویر بطور قومی ہیرو شامل کر دیا اور حکومت نے کارروائی کرتے ہوئے یہ کتابیں ضبط کر لیں۔ سوال یہ ہے اس میں غلط کیا ہے اور میڈیا پر حکومت کے خلاف اتنی دہائی کیوں دی جا رہی ہے؟
ملالہ یوسف زئی اس قوم کی قابل قدر بیٹی ہیں۔ لیکن اس وقت سوال ملالہ یوسف زئی صاحبہ کا نہیں، سوال یہ ہے کہ کسی ملک کے نصاب تعلیم میں کچھ نیا شامل کرنے کا اختیار کس کے پاس ہے؟ حکومت کے پاس یا کسی پبلشنگ ادارے کے پاس؟ اگر تو ملکی قانون اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ آکسفرڈ یا کوئی پبلشنگ ہائوس اس بات کا اختیار رکھتا ہے کہ نصاب تعلیم میں جب چاہے ترمیم و اضافہ کر دے تو پھر ٹھیک ہے۔ ا س صورت میں سوال یہی ہونا چاہیے کہ ملالہ کے نام پر اتنا رد عمل کیوں؟
لیکن اگر قانونی پوزیشن یہ ہو کہ نصاب تعلیم میں ردو بدل کا کسی پبلشنگ ہائوس کا سرے سے کوئی اختیار ہی نہ ہو۔ اگر قانون یہ کہتا ہو کہ نصاب میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کا فیصلہ حکومت کرے گی۔ اگر ملک کا قانون اس کا ایک طریقہ کار بھی وضع کر چکا ہو اور اس کام کے لیے باقاعدہ ادارے بھی وجود میں آ چکے ہوں، جو نصاب میں ترمیم و اضافے کا فیصلہ کرتے ہوں، تو پھر سوال یہ نہیں رہتا کہ ملالہ کی تصویر شائع ہونے پر کتابیں ضبط کیوں ہوئیں۔ بلکہ پھر سوال یہ بنتا ہے کہ ایک اتنے بڑے پبلشنگ ہائوس نے ملکی قانون کے تقاضے پامال کرتے ہوئے قومی نصاب میں از خود تبدیلی کیسے کر لی؟
خلط مبحث میں الجھ کر غیر ضروری مباحث اٹھانے کی بجائے دو بنیادی سوالات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پہلا سوال یہ ہے کہ پاکستان کے نصاب تعلیم کے تعین کا حق پاکستان اور اس کی حکومت کے پاس رہنا چاہیے یا غیر ملکی پبلشنگ ہائوس اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ ہمارے بچوں نے کیا پڑھنا ہے اور کیا نہیں؟ دوسرا سوا ل یہ ہے کہ پاکستان کا قومی ہیرو کون ہے، اس کا تعین کون کرے گا؟ پاکستان کی قوم، پاکستان کی حکومت یا ایک غیر ملکی پبلشنگ ہائوس ہمیں بتائے کہ عزیز پاکستانیو آج سے ہم تمہارے قومی ہیروز میں ایک نئی شخصیت کا اضافہ فرما رہے ہیں؟
اللہ کا شکر ہے، ٹاک شوز کی علمی مجالس، دیکھے عرصہ ہو چکا۔ محدود درجے کی استثناء کے ساتھ، گفتگو کا سلیقہ ہے نہ حفظ مراتب، موضوعات میں کوئی تنوع ہے نہ عصری علوم سے کوئی آگہی۔ بس یہ ہے کہ سینیئر تجزیہ کاروں کے لشکر اترے پڑے ہیں اور جدھر رخ پھیر لیتے ہیں کشتوں کے پشتے لگا دیتے ہیں۔ سطحی موضوعات اورعامیانہ گفتگو، وہ بھی یوں چلا چلا کر کہ سننے والا سر درد میں مبتلا ہو جائے۔ متعلقہ شعبوں کے ماہرین اس سماج میں اجنبی ہو چکے اب سینئر تجزیہ کار ہی تمام پوشیدہ امراض کے طبیب ہیں۔ عرصے بعد رات غلطی سے ریموٹ پر انگلی دباتے ایک جگہ رک گیااور وہاں ایک تجزیہ کار چیخ چیخ کر اور ہاتھ نچا نچا کر کہہ رہے تھے:ملالہ کی تصویر والی کتابیں ضبط کرنے پر اس حکومت کو شرم آنی چاہیے، بہت زیادہ شرم آنی چاہیے۔ تب سے میں بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ شرم کا حقیقی حق دار کون ہے؟
سوال فی الوقت یہ ہے ہی نہیں کہ ملالہ کا نام قومی ہیروز میں آنا چاہیے یا نہیں۔ کبھی یہ سوال اٹھا تو جو اکثریتی رائے ہو گی، ملکی قانون اور ضابطے کے مطابق اس پر عمل کر لینے میں ہر گز کوئی مضائقہ نہ ہو گا۔ لیکن اس وقت معاملہ بالکل مختلف ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ کسی شخصیت کو پاکستان کا قومی ہیرو قرار دینے کا فیصلہ پاکستان کی پارلیمان کرے گی یا آکسفرڈ نام کا اشاعتی ادارہ یہ فیصلہ کرے گا؟ اور نصاب میں کسی ترمیم و اضافے کا اختیار حکومت کے پاس ہو گا یا مختلف اشاعتی ادارے جب چاہیں کھڑے کھڑے ہمارا نصاب بدل دیں۔ ان دو سوالات سے صرف نظر کرتے ہوئے آ ہ و بکا کرنا نرم سے نرم الفاظ میں خلط مبحث کے سوا کچھ نہیں۔
بظاہر آکسفرڈ پبلشنگ ہائوس نے دو غیر قانونی کام کیے۔
اول: اس نے پاکستان کے قومی ہیروز کی فہرست میں ایک نام کا اضافہ کر دیا۔ وہ نام جتنا بھی محترم کیوں نہ ہو امر واقع یہ ہے کہ ریاست پاکستان نے اسے قومی ہیرو قرار نہیں دیا۔ اس کا مطلب ہے کہ آکسفرڈ نے غلط بیانی کی۔ اس نے ایک خلاف واقعہ بات کو ایک مسلمہ امر بنا کر پیش کیا جو پیشہ ورانہ دیانت کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ کسی پبلشنگ ہائوس نے ایسا کام برطانیہ میں کیا ہوتا تو اس کا لائسنس منسوخ کر دیا گیا ہوتا اورپبلشنگ ہائوس کو بقاء کے لالے پڑے ہوتے۔ تو پاکستان کیا ایک طفیلی ریاست ہے جس کے قومی ہیروز کا تعین بھی اس کی پارلیمان کی بجائے اشاعتی ادارے کیا کریں گے؟
دوسرا غیر قانونی کام یہ کیا گیا ہے کہ ایک خلاف واقعہ بات کو نصاب کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ آکسفرڈ ہو یا کوئی اور اشاعتی ادارہ، جب وہ پاکستان میں نصاب کی کتب شائع کرتا ہے تو وہ پاکستان کے ریاستی قوانین کا پابند ہوتا ہے۔ اگر وہ ان قوانین کو پامال کرتا ہے تو کیا ریاست کے پاس اتنا بھی حق نہیں کہ وہ ایسی کتابیں ضبط کر لے۔
ایسا نہیں ہے کہ کسی ادارے نے کوئی کتاب چھاپی اور ملالہ یوسف زئی صاحبہ کو ہیرو قرار دیا اور وہ کتاب ضبط کر لی گئی۔ معاملہ یہ کہ ایک ادارے نے ریاست کے تعلیمی اداروں کے لیے نصاب کی کتاب میں خلاف واقعہ بات کو حقیقت بنا کر پیش کیا اور غیر قانونی طور پر اسے نصاب کا حصہ بنا دیا اور حکومتی اداروں سے بالاتر ہو کر نصاب میں از خودد تبدیلی کر ڈالی۔ سوال یہ ہے کہ حکومت ایسے میں کیا کرتی؟ اور اگر اس نے ایسی کتب ضبط کر لی ہیں تو اس میں غلط کیا ہے؟
افسوس ہم خواہش کو خبر اور تعصب کو تجزیہ بنا چکے۔ اس چاند ماری کے نام اب دانش وری اور تجزیہ نگاری کی تہمت دھری جاتی ہے۔ اس قوم کا فکری ذوق تباہ کرنے کے عوا مل کا کبھی تعین ہوا تو ہمارے نیم خواندہ اور ہیجان زدہ سینیئر تجزیہ کاروں کا شمار اس کے اولین نقوش میں ہو گا۔