Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Asif Mehmood
  3. Hamare Jungle Mein Sawan Ki Pehli Barish Thi

Hamare Jungle Mein Sawan Ki Pehli Barish Thi

ہمارے جنگل میں ساون کی پہلی بارش تھی

جنگل میں داخل ہوا تو ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں لیکن ندی کے پہلے موڑ پر ہی بارش نے آ لیا۔ یہ ساون کی پہلی بارش تھی۔ برکھا رت کی پہلی بارش ہو اور آپ کسی جنگل میں ندی کنارے کھڑے ہوں، یہ نصیب کی بات ہوتی ہے۔ بارش سے بچنے کے لیے لوگ تیزی سے جنگل سے نکل رہے تھے۔ میں برساتی اتار کر ندی کے ساتھ ساتھ پگڈنڈی پر چلنے لگا۔ جانے والے مجھے حیرت سے دیکھ رہے تھے کہ بارش میں بھلا کوئی جنگل میں جاتا ہے اورمیں جانے والوں کو حیرت سے دیکھ رہا تھا کہ بارش میں بھلا کوئی جنگل سے جاتا ہے۔

مینہ برستا رہا، میں جنگل کی پگڈنڈی پر چلتا رہا اور بھیگتا رہا۔ گپھائوں والے موڑ پر جو ندی آتی ہے، وہاں جا کر بیٹھ گیا۔ چند محترمائیں، جو شاید چشمے سے لوٹ رہی تھیں، ساتھ رکھی برساتی یہ کہہ کر لے گئیں کہ آپ کو تو اس کی حاجت نہیں، ہم لے جاتی ہیں اور وائلڈ لائف پوسٹ پر رکھ دیں گی۔ موبائل پہلے ہی گاڑی میں رکھا تھا، اب برساتی کی اضافی ذمہ داری سے بھی نجات مل گئی۔ اب ساون تھا، جنگل تھا، ندیا تھی اور میں۔

مینہ اس زور سے برسا کہ دیکھتے ہی دیکھتے ندی پانی سے بھر گئی۔ پہلا خیال یہ آیا کہ کچھ کاغذپاس ہوتے تو ان کی کشتیاں بنا کر ندی میں چلاتا۔ درہ جنگلاں کی ندیا میں طغیانی بھی ہو تو یہ اتنی خطرناک نہیں ہوتی۔ چنانچہ ساون برستا رہا اور میں میں ندی کنارے بیٹھا اس میں بھیگتا رہا۔ ساون ویسے ہی حسین موسم ہے لیکن یہ ساون جب مارگلہ پر برستا ہے تو سرگم ہو جاتا ہے۔ بہتی ندی، بھیگے شجر اور شاخوں سے چھن چھن کر برستا پانی، فطرت گویا آپ سے ہم کلام ہو جاتی ہے۔

چھاجوں برسنے کے بعد مینہ رک گیا تھا مگر ندی دیر تک بہتی رہی۔ ندی کی طغیانی میں کتنے ہی گھونسلے بہہ گئے۔ یہ معصوم پنچھیوں کے گھر تھے جو برسات کی نذر ہو گئے۔ لیکن ننھے پرندے مستی میں اڑتے اور گیت گاتے پھر رہے تھے۔ انہیں کوئی پرواہ نہ تھی کہ ان کے گھونسلے ندیا میں بہہ گئے ہیں۔ جنگل بھی ایک بھید ہے۔ کہتے ہیں جو اس بھید کو پالے، وہ اس میں گم ہو جاتا ہے۔ جنگل کے یہ بھید میری سمجھ میں کبھی نہیں آ سکے۔

ندی کے ساتھ تھوڑا نشیب میں ایک آواز نے متوجہ کیا، دیکھا تو مرغ سیمیں تھا۔ پہلے ایک پر نظر پڑی پھر دوسرا دکھائی دیا، پھر تیسرا، پھر چوتھا، یہ پانچ سات مرغ تھے۔ ان کے چلنے کا انداز کچھ عجیب سا لگا۔ بالعموم یہ اپنے آپ میں مگن رہتے ہیں لیکن آج یہ خاصے چوکنے انداز سے چل رہے تھے۔ سر اٹھا کر ادھر ادھر دیکھتے، پھر تھوڑا آگے کو بھاگ جاتے، رکتے، پھر بے چین نظروں سے دائیں بائیں دیکھتے اور بھاگ کھڑے ہوتے۔ مجھے تجسس ہوا کہ اتنے سارے مرغ سیمیں اکٹھے اور اس طرح بے چین پھر رہے ہیں، معاملہ کیا ہے؟

ادھر ادھر نگاہ دوڑائی تو جلد ہی مسئلہ سمجھ میں آ گیا۔ ندی کے اس پار، پہاڑی گھاٹی کی جانب، جھاڑیوں کے بیچ، ایک پتھر کی اوٹ میں لومڑی کھڑی تھی اور اس کی نظریں مرغ سیمیں کی اس ٹولی پر جمی تھیں۔ یعنی ایک طرف میں ساون کے حسن سے لطف اندوز ہو رہا تھا اور دوسری جانب جنگل میں ز ندگی اور موت کا کھیل کھیلا جا رہا تھا۔ وہی بات کہ جنگل ایک بھید ہے، ہر ایک کی سمجھ میں نہیں آتا۔

میں نے ندی میں سے ایک پتھر اٹھایا اور لومڑی کی طرف اچھال دیا۔ اس نے جست بھری اور جنگل میں غائب ہو گئی۔ مرغ سیمیں کی ٹولی کی جان بچانے کے لیے اس سے ز یادہ کچھ کرنا میرے بس میں نہیں تھا۔ ہو سکتا ہے وہ بچ گئے ہوں اور یہ امکان بھی موجود ہے کہ ندی کے اگلے کسی موڑ پر، کسی گھاٹی میں، کسی پگڈنڈی پر لومڑی نے انہیں جا لیا ہو۔ یہ تو ہم بچپن سے پڑھتے سنتے آئے ہیں کہ لومڑی بڑی چالاک ہوتی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے بھوکی اور چالاک لومڑی اپنا شکار یوں آسانی سے گنوا دے۔

بارش کا سلسلہ پھر سے شروع ہو چکا تھا، اب کی بار اس میں زور نہیں تھا، موسیقیت تھی۔ جیسے کوئی جنگل میں رباب بجا رہا ہو۔ مارگلہ کے ساون کا حسن یہ ہے کہ بادل یہاں آ کر بسیرا کر لیتے ہیں۔ پوری وادی اور جنگل بادلوں سے بھر جاتا ہے اور دور سے کوئی دیکھے تو اسے صرف پہاڑ کی چوٹیاں نظر آتی ہیں۔ نشیب میں صرف بادل ہوتے ہیں۔ بادل کی ایسی ہی کسی ٹولی نے درہ جنگلاں کی چوٹی سے نیچے گھاٹی کا رخ کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے جنگل دھند اور بادلوں سے بھر گیا۔ حد نگاہ بس ااتنی ی رہ گئی کہ ندی کے پار چند قدموں تک دیکھا جا سکتا تھا۔ ندی کے اوپر بادل تیر رہے تھے اور پھوار جنگل کے راستوں پر نمی کا بوسہ دے رہی تھی۔ خورشید رضوی یاد آگئے: خواب میں دیکھے ہوئے خواب کی تعبیرہے دھند۔

بچپن میں اے حمید کے ناول پڑھتے ہوئے رنگون کے جنگلوں کی بارشوں کا ذکر آتا تو چشم تخیل میں ایک پورا منظر اتر آتا۔ مارگلہ کے بادلوں اور دھند میں لپٹے جنگل کی ندیوں کے ساتھ چلتی پگڈنڈیاں ساون بھادوں میں اسی تخیل کو امر کر دیتی ہیں۔ ساون جنگل کی مٹی کی مہک سونگھتے اور بھیگتے گذر جاتا ہے پھربھادوں آتا ہے اور چشمے اور ندیاں رواں ہو جاتی ہیں۔ بارش ہو نہ ہو، سارا بھادوں مارگلہ کی ندیاں رواں رہتی ہیں۔ ساون اور بھادوں کی رت اس جنگل کی حسین ترین رت ہوتی ہے۔

جنگلوں میں اگر کائی نہ ہو تو ان کا حسن ادھورا رہتا ہے۔ گھنے جنگلوں کا حسن ہے کہ ان کے درختوں سے کائی لپٹی ہو۔ اس بار تو ساون آنے سے پہلے ہی ندی کنارے درختوں پر کائی جم چکی ہے۔ جب ساون برس برس کر گزرے گا تو جنگل سے کائی لپٹ چکی ہو گی۔ یہ اور حسین ہو چکا ہو گا۔

بارش رک گئی تھی، دھند چھٹ چکی تھی اور جنگل میں مجھے ایک پہر ہونے کو تھا۔ گھاٹی سے نکل کر پیچھے مڑ کر پہاڑ کو دیکھا تو وہ ابھی تک بادلوں سے لپٹا ہوا تھا۔ بادل جیسے ستاروں کی رہ گزر سے تھک کر لوٹے ہوں اور مارگلہ پرسر ر کھ کر سو گئے ہوں۔ ہمارے جنگل میں یہ ساون کی پہلی بارش تھی۔

Check Also

Sultan Tipu Shaheed Se Allama Iqbal Ki Aqeedat (1)

By Rao Manzar Hayat