ہمارا مسئلہ کیا ہے؟
تین سال پہلے کا واقعہ ہے، رات پونے بارہ بجے کا وقت تھا۔ لائونج میں پڑاموبائل فون بج اٹھا۔ اسے آف کرنا بھول گیا تھا۔ یہ سوچ کر نظر اندا زکیا کہ چند لمحے کال اٹینڈ نہیں ہو گی تو خود ہی بند ہو جائے گی۔ لیکن وہ بجتا ہی چلا جا رہا تھا۔ جا کر دیکھا تو ایک جان پہچان والے صاحب کی کال تھی۔ پاسِ وضع میں فون اٹھا لیا۔ آصف صاحب، فلاں مسئلے پر آپ کی کیا رائے ہے؟ حیرت تو بہت ہوئی کہ بھلا یہ کون سا وقت ہے لیکن مروتا عرض کر دی کہ جناب اس مسئلے پر میری رائے یہ ہے۔
امید تھی کہ اب فون بند ہو جائے گا لیکن آگے سے جواب ملاـ" میری رائے تو آپ سے مختلف ہے"۔۔۔۔۔ رات کے اس پہر ان کی رائے سننے کی ہمت نہ تھی لیکن انہوں نے نہ صرف اپنی رائے اور اس کے دلائل بیان کیے بلکہ وہ اکھاڑے میں کھڑے پہلوان کی طرح للکار رہے تھے کہ ان کی ہر دلیل کا جواب دیا جائے اور ان سے بحث فرمائی جائے۔ ان کا لہجہ بتا رہا تھا کہ آج وہ اس معرکہ خیر و شر کا فیصلہ کرنے پر تلے بیٹھے ہیں اور لازم ہے کہ پہلے ان کی فرلانگ بھر لمبی دلیلیں سنی جائیں اور پھر ان سے عدم اتفاق کے دو فرلانگ جوا زپیش کیے جائیں۔
جب ان کا طویل خطبہ ختم ہوا تو ان سے عرض کی کہ جناب آپ نے مجھ سے میری رائے طلب کی جو میں نے آپ کی خدمت میں پیش کر دی۔ آپ کی رائے اگر مجھ سے مختلف ہے تو یہ آپ کا حق ہے اور اس سے مجھے ہر گز کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ میں آپ کے اس حق کا مکمل احترام کرتا ہوں کہ آپ اپنی رائے قائم کریں اور اس پر قائم رہیں۔ اس گستاخی، کا یقینا ان صاحب نے برا منایا کیونکہ اس کے بعد وہ رابطے میں نہیں رہے۔
فیس بک کا حال دیکھ لیجیے۔ ایک فورم ہے، اپنی بات کہنے کا۔ اپنی بات اپنی وال پر لکھی جاتی ہے۔ لیکن یہاں بھی ایسا ماحول بنا دیا گیا کہ دم گھٹنے لگتا ہے۔ کہنے سننے کی بجائے اسے دنگل، بنا دیا گیا ہے۔ بات کرنی مشکل ہو گئی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ لوگ ہر دم ابل رہے ہیں اور کھول رہے ہیں اور جیسے ہی موقع ہاتھ آتا ہے کشتوں کے پشتے لگا دیتے ہیں۔
فیس بک نے جو شرائط رکھی ہیں ان میں کہیں یہ نہیں لکھا کہ پوسٹ کرنے والا اس بات کا اہتمام کر لے کہ تمام خواتین و حضرات اس کی رائے سے متفق ہیں۔ تنوع ز ندگی کا حسن ہے اور ہر آدمی کے سوچنے سمجھنے اور بیان کرنے کا اندا ز جدا ہے۔ اس سے اتفاق ضروری نہیں لیکن اختلاف کے اظہار کے لیے بھی یہ ضروری نہیں کہ اگلے کی پوسٹ پر دھرنا دے دیا جائے کہ نا ہنجار تم نے ایسا لکھا تو کیوں لکھا۔ اختلافی بات کہنی ہے تو اس کے آداب ہوتے ہیں۔ جائیے اور اپنا موقف بیان کر دیجیے۔ اس اختلافی معاملے کو طول دیتے ہوئے اسے بحث میں بدلنے سے اجتناب ہی مناسب ہوتا ہے کہ بحث سے فضول چیزشاید ہی کوئی ہو۔
کچھ لوگوں کا فہم مختلف ہوتا ہے۔ وہ چیزوں کو الگ اندا زسے دیکھتے ہیں۔ اب کیا لازم ہے کہ ہر بار دوسرے کی وال پر جا کر ہے جمالو، کیا جائے کہ کم بخت تم نے غلط لکھا، میری رائے تم سے مختلف ہے؟ اللہ کے بندو آپ کی رائے مختلف ہے تو کیا لکھنے والے نے اپنی پوسٹ میں یہ دعویٰ کر رکھا ہے کہ اس روئے ز مین پر کسی کی رائے اس سے مختلف نہیں؟
فیس بک بے شک مکالمے کا فورم بھی ہے لیکن مکالمے اور لایعنی بحث میں فرق ہوتا ہے۔ کسی سے اختلاف ہو تو جس نکتے پر ہو اس پر اچھے اندا ز سے اپنی بات کہہ دینی چاہیے۔ لیکن ہمارے ہاں اگلے کی ایسی تیسی کر دینے کا رجحان زیادہ ہے۔ اس رویے پر پھر فخر کیا جاتا ہے۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن سے آپ کا احترام کا تعلق ہوتا ہے۔ آپ کے اختلافی نکتے کو نظر انداز کرنے کی بجائے وہ اس پر اپنی بات کی وضاحت کر دیتے ہیں۔ اس پر بات کو طول دینا دانشمندی نہیں۔ اور یہ نکتہ تو بالکل بچگانہ ہے کہ نہیں میں تو اپنی رائے پر قائم ہوں۔ کیونکہ لکھنے والے نے صرف اپنی بات لکھی ہے اس نے آپ سے ہر گز یہ مطالبہ نہیں کیا کہ آپ اپنی رائے پر قائم نہ رہیں۔ نہ ہی کسی شخص کے لیے یہ لازم ہے کہ لکھنے سے پہلے دو چار محلوں میں منادی کرالے کہ عزیز ہم وطنو میں یہ لکھنے جا رہا ہو ں آپ کو اس بات سے اختلاف تو نہیں۔
یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ آپ کسی صاحب علم سے کسی معاملے میں اختلاف کریں اور سنجیدگی سے کچھ نکات پر مزید رہنمائی کے طالب ہوں تو بیچ میں کچھ لوگ کود پڑتے ہیں اور مکالمے کو دنگل بنا دیتے ہیں۔ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ دوسروں کو نیچا دکھا کر یا ان کی تذ لیل کر کے ایک تسکین سی محسوس کی جاتی ہے۔ کچھ لوگ بلاوجہ کے خبط عظمت کا شکار ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ سورج بھی طلوع ہونے سے پہلے ان سے اجازت لے لیا کرے۔
سیاسی اختلافات میں ایک دوسرے کی عزت اچھالنا تو عام ہے۔ جن سیاسی قائدین سے ز ندگی بھر یہ ہاتھ نہ ملا سکے ہوں ان کی محبت میں یہ دوستیاں، وضع داریاں اور رشتے داریاں تک دائو پر لگا دیتے ہیں۔ جس سے جہاں اختلاف ہوتا ہے اس میں دنیا جہان کی برائیاں تلاش کر لی جاتی ہیں۔ ایک غیر متوازن اور ہیجان کا مارا معاشرہ پروان چڑھ رہا ہے لیکن ہمیں اس آتش فشاں کا احساس نہیں۔
اس معاشرے کے رویوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے اور یہ وہ شعبہ ہے جسے نظر اندا ز کیا گیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہر دوسرا آدمی بم، بنا پھرتا ہے اور جہاں موقع ملتا ہے پھٹ، پڑتا ہے۔ رویوں کی تہذیب کے لیے سماجیات کا مضمون ہر سطح پر پڑھایا جانا چاہیے ورنہ یاد رہے کہ یہ سماج ایک آتش فشاں بنتا جا رہا ہے۔